یہ آج صبح کا واقعہ ہے۔ دن کے گیارہ بجے کا وقت تھا جب میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ اسکرین پر ڈاکٹر ساجد خاکوانی کا نام چمک رہا تھا۔ میں نے فوراً کال ریسیو کی۔
"کہاں ہو؟" ان کی آواز میں اضطراب تھا۔
"دفتر میں ہوں، خیریت؟"
"گھنٹہ گھر چوک کے قریب میڈیسن مارکیٹ میں ایک نو دس سالہ بچہ بے ہوش ملا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کریں۔ مجھے میڈیسن مارکیٹ کے ایک دوست نے یہاں مدعو کیا تھا ۔ کیا تم فوراً آ سکتے ہو؟"
میرے ذہن میں مختلف خیالات دوڑنے لگے۔ کسی معصوم جان کے ساتھ نہ جانے کیا بیتا ہوگا! میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر دفتر سے نکلنے کے لیے اپنی کرسی چھوڑ دی۔
میڈیسن مارکیٹ پہنچا تو لوگوں کا ہجوم تھا۔ ایک دکان کے باہر ایک دبلا پتلا بچہ زمین پر نیم بے ہوش پڑا تھا۔ چہرہ گلابی، بھورے بال الجھے ہوئے، اور کپڑوں پر گرد جمی تھی۔ وہ کسی عام بچے جیسا نہیں لگ رہا تھا—صاف ستھرے برانڈڈ کپڑے اس کے اچھے گھرانے سے تعلق کا پتا دے رہے تھے۔
"کیا ہوا اسے؟" میں نے ڈاکٹر خاکوانی سے پوچھا۔ جو میرے بچپن کے دوست تھے ۔
"کوئی نہیں جانتا۔ دکان دار نے صبح دکان کھولی تو یہ باہر پڑا تھا۔ ون فائیو پر کال کرنے کا سوچا لیکن پولیس کی جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ہمیں بلایا۔" ڈاکٹر صاحب نے دھیمے لہجے میں مجھے بتایا۔
میں نے بچے کی نبض دیکھی، وہ مدھم سانس لے رہا تھا۔
"اسے دفتر لے چلتے ہیں، یہاں بھیڑ بڑھتی جا رہی ہے۔" میں نے مشورہ دیا۔
ڈاکٹر صاحب نے بچے کو سہارا دیا اور ہم پیدل ہی دفتر کی طرف چل پڑے۔ بچے کی آنکھیں آدھی کھلی تھیں، خوف اور تھکن اس کے چہرے سے عیاں تھی۔
دفتر پہنچ کر میں نے اسے صوفے پر بٹھایا اور اسی اثناء میں میری سیکرٹری نے اسے پانی کا گلاس تھمایا۔ وہ کانپتے ہاتھوں سے گلاس تھام کر آہستہ آہستہ پینے لگا۔ پھر میں نے ناشتہ منگوایا۔
"مجھے بھوک نہیں ہے۔" اس نے کم زور آواز میں کہا۔
"بیٹا جی ! ایک نوالہ کھا کر دیکھو، اچھا لگے تو مزید کھا لینا ، اس سے شاید تمہاری طبیعت بہتر ہو جائے۔" میں نے نرمی سے کہا۔
کافی منت سماجت کے بعد اس نے چند لقمے کھائے اور اس کے چہرے کی زردی کچھ کم ہوئی۔ جب وہ تھوڑا سنبھلا تو میں نے پوچھا، "بیٹا، تمہارا نام کیا ہے؟"
"شاہ زیب۔" اس نے دھیرے سے جواب دیا۔
"گھر کہاں ہے تمہارا؟"
"شاہ رکن عالم کالونی۔"
میں نے غور سے اس کے چہرے کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ان کہی داستان چھپی تھی۔
"کیسے آئے یہاں؟" میں نے نرمی سے پوچھا۔
وہ کچھ لمحے چپ رہا، پھر جیسے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا، "میں کل دوپہر سے گھر سے بھاگا ہوا ہوں۔ میرے ابو مجھے موبائل نہیں لے کر دے رہے تھے۔ سب کے پاس ہے، میرے پاس کیوں نہیں؟ امی ابو کہتے ہیں ابھی میری عمر نہیں ہے، مگر گھر میں سب کے پاس مہنگے فون ہیں۔ کوئی مجھے اپنے فون کو ہاتھ بھی نہیں لگانے دیتا۔ میں فارغ وقت میں کیا کروں؟"
مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ معاملہ سنجیدہ تھا۔ میں نے مزید سوال کیے تو وہ بولا، "میں کئی دنوں سے بڑی بہن کو کہہ رہا تھا کہ اگر مجھے فون نہ ملا تو میں گھر چھوڑ دوں گا۔ کل جب بارش ہو رہی تھی تو میں نکل آیا۔ پہلے قلعہ کہنہ قاسم باغ کے مزارات پر رہا۔ بھوک لگ رہی تھی، مگر جیب خالی تھی۔ شام ہوئی تو میں خوف زدہ ہو گیا۔ سیکورٹی گارڈز نے مجھ سے سوال کیے تو میں نظریں بچا کر میڈیسن مارکیٹ میں آ گیا، جہاں میری ہمت جواب دے گئی۔"
میں نے ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھا، وہ گہری سوچ میں تھے۔ میں نے شاہ زیب سے کہا، "بیٹا،! مجھے اپنے والد کا فون نمبر دے سکتے ہو؟"
" نہیں ! وہ بہت غصے والے ہیں ۔ میں ان کا نمبر نہیں دے سکتا ۔۔ "
وہ تذبذب کا شکار تھا، پھر کچھ دیر بعد اس نے دھیرے سے اپنی والدہ کا نمبر بتایا۔ میں نے فوری والدہ سے رابطہ کیا۔
آدھے گھنٹے بعد اس کے والدین دفتر میں داخل ہوئے، چہروں پر بے بسی اور پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ جونہی انہوں نے شاہ زیب کو صحیح سلامت دیکھا، ان کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو آ گئے۔
"بیٹا، کہاں چلا گیا تھا؟ ہم پاگل ہو گئے تھے!" والدہ نے اسے سینے سے لگا لیا۔
میں نے والدین کو مشورہ دیا، "دیکھیے! آپ شکر ادا کریں کہ آپ کا بیٹا کسی کے غلط ہاتھوں میں نہیں چلا گیا ۔ یہ گھر سے بھاگا لیکن اب اسے احساس ہوا ہے کہ یہ اس کی بہت بڑی غلطی تھی۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ بچے آج کے دور میں بہت حساس ہو گئے ہیں۔ دور حاضر میں موبائل فون ایک مسئلہ بن گیا ہے، لیکن اس کا حل یہی نہیں کہ بچے کو مکمل طور پر اس سے دور رکھا جائے۔ آپ خود موبائل کم استعمال کریں اور شاہ زیب کو کسی مثبت سرگرمی میں مشغول کریں۔ اس نے مجھے بتایا ہے کہ اسے سکواش کا بہت شوق ہے، لیکن ابو کھیلنے سے منع کرتے ہیں ۔ آپ اسے کھیل میں ڈالیں، تاکہ وہ اپنی توانائی مثبت انداز میں استعمال کرے۔"
شاہ زیب کے والد نے سر ہلایا، "آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں، میں آج ہی اسے سکواش اکیڈمی لے جاؤں گا۔"
میں نے شاہ زیب کو پانچ کتابوں کا سیٹ دیا، "بیٹا، کتابیں پڑھنا شروع کرو، تمہیں ان میں نیا جہاں ملے گا۔"
جب وہ جانے لگے تو ڈاکٹر خاکوانی صاحب کی آنکھیں نم تھیں۔ شاہ زیب کی والدہ اپنے جذبات پر قابو پانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ کل سے مسلسل رو رہی تھیں کہ نجانے ان کا بچہ کہاں چلا گیا تھا۔
شاہ زیب نے جاتے ہوئے میرا ہاتھ تھاما اور کہا، "انکل، میں آپ سے دوستی کروں گا؟"
میں مسکرا دیا، "ہم پہلے ہی دوست ہیں، بیٹا۔"
قارئین ! ہم اپنے بچپن میں میدانوں میں کھیلتے تھے، جبکہ اب کمروں میں قید ہو چکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کو اسمارٹ فون دینا ایسا ہی ہے جیسے ان کے ہاتھ میں بارود تھما دینا۔ ہمیں ان کی معصوم خواہشوں کو صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے، ورنہ ایک دن یہ ساری معصومیت ہم سے روٹھ جائے گی۔
تبصرہ لکھیے