ہوم << ٹیمپل رن گیم اور بامقصد زندگی - سید راشد حسن

ٹیمپل رن گیم اور بامقصد زندگی - سید راشد حسن

راشد حسن چند سال پہلے جب میں نے اینڈرایئڈگیم ٹیمپل رن کھیلنا شروع کی تو اس نے کچھ عرصہ کے لیے مجھے مسحور کیے رکھا، یہ پلیٹ فارم کے طر یقہ پر بنائی گئی گیم ہے جس کا پلاٹ میں کوئی بھی کردار ایک غار سے خزانہ چرا کر بھاگتا ہے تو ایک بندر نما بلا اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے، جس سے بچنے کے لیے اس کیریکٹر کو مسلسل آگے کی طرف بھاگنا پڑتا ہے اور راستہ میں کئی رکاوٹیں، کھائیاں، سرنگیں اور ان گنت خطرناک موڑ آتے ہیں، جن سے بچنے کے دوران ذرا سی چوک سے یا تو وہ کسی کھائی میں جا گرتا ہے یا پھر لڑ کھڑ انے کی صورت میں پیچھے پڑ ی بلا اسے دبوچ لیتی ہے اور اسے گیم یا ایک لحاظ سے زندگی کے خاتمے کی صورت میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے، لیکن بھاگنے کے دوران جتنا زیادہ وقت اور فاصلہ بڑھتا جائےگا اتنے سو نے کے سکے جمع ہوتے جائیں گے اور اتنا زیادہ ہی سکور ہوگا. انھی دنوں کی بات ہے کہ ایک دوست سے اس گیم کے بارے میں بات چیت کے دوران پتہ لگا کہ یہ ایک نہ ختم ہونے والی رننگ گیم ہے، یہ میرے لیے نئی بات تھی کیونکہ اس سے پہلے جتنی بھی ویڈیو گیمز کا مجھے تجربہ تھا، جن میں نوے کی دہائی کی بیسٹ سیلرگیمز الہ دین اور sonic hedgehog بھی تھیں، وہ کئی مراحل پر یا پھر کچھ مشنز پر مشتمل ہوتی تھیں جن کے پورے ہوتے ہی (reward ending sequence) کے ساتھ گیم مکمل ہو کے جیت لی جاتی تھی۔ اس انکشاف نے مجھ پر کچھ بےدلی طاری کر دی لیکن جلد ہی انٹرسٹ دوبارہ لوٹ آیا۔ وہ کیسے یہ میں آ پ کو بتاؤں گا لیکن پہلے زندگی کی طرف ہماری اپرو چ کا ان گیمز کے تناظر میں جا ئزہ لے لیا جائے، چونکہ یہ ہم انسانوں کی تخلیق ہے، اس لیے ہماری سوچ کی کچھ حد تک عکاس یہ ٹائم پاس کرنے کی گیمز بھی ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو ہماری داستان حیات ان سے مختلف نہیں، بچپن کا کچھ عرصہ نکال کر ہم میں سے ہر کوئی بار زیست ایسا لے کر نکلتا ہے کہ پھر اس کو موت پر ہی چین نصیب ہوتا ہے، اس کے پیچھے دکھ، بیماری، بھوک، خوف اور ہزار طرح کے مسائل سائے کی مانند پیچھے لگے رہتے ہیں، راستے میں حالات کا جبر، انسانی کمزوریاں اور خواہشات کی اندھی سرنگیں جا بجا ایسے جال اور رکاوٹیں بن جاتی ہیں کہ ذرا سا ان سے بچنے میں چوک ہوئی اور آپ ویسے ہی پیچھے موجود مسائل کا شکار ہوگئے. ان رکاوٹوں سے دامن مکمل طور پر بچانا کسی ابن آدم کے لیے ممکن نہیں ہے. اسی سفرحیات کے دوران ہی کسی کو کم اور کسی کو زیادہ رزق مختلف اسباب کی صورت میں ملتا جاتا ہے لیکن یہ سب بھاگ دوڑ اس وقت بےمعنی ہو جاتی ہے، جب ناگہانی طور پر انسان کسی حادثے، بیماری کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن جاتا ہے، اور سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ زندگی کی بھاگ دوڑ کو اگر اس حو الے سے دیکھا جائے تو یہ کسی ٹریجڈی سے کم نہیں کہ ساری عمر کیریئر، خاندان اور ملک کو یہ ساری مشکلات جھیل کر بھی دے دی جائے تو بھی موت ہر چیز کا کلوزڈ چیپٹر ہے۔ زندگی گزارنے کی یہ اپروچ ٹیمپل رن کھیلنے سے کچھ مختلف نہیں کہ ایک نہ رکنے والی دوڑ ہے جس کی کوئی منزل اور آخری کامیابی (reward ending sequence) نہیں ہے. تھوڑے سے غور سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ہمارے جدید طرز زندگی کی نفسا نفسی کی وجہ ہماری یہی بےمقصد اپروچ ہے۔ اس کو بامقصد کیسے بنایا جائے؟ اور اس کے لیے ہماری سوچ میں کیا تبدیلیاں درکار ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ایک بار پھر گیم کی طرف واپس جانا ہوگا۔
اس گیم کی طرف میرا جوش و خروش اس وقت دوبارہ لوٹ آیا جب ہم بھائیوں نے ایک دوسرے کے مقابلے پر اسے کھیلنا شروع کیا اور اپنا (reward ending sequence) ٹاپ سکور کو بنا لیا. کئی دنوں تک گھنٹوں انتہائی انہماک سے ہمارے یہ اولمپک مقابلے جاری رہے، ہم ایک دوسرے کے ریکارڈ توڑتے رہے، پھر میرے ایک بھائی کے یونیورسٹی کے امتحان شروع ہونے پر ہمیں یہ سلسلہ بند کرنا پڑا لیکن اپروچ میں ذرا سی تبدیلی سے جس طرح میرا انٹرسٹ لوٹ آیا، وہی میکنزم اگر ہم بڑے لیول پر اپلائی کریں تو ہماری زندگی میں بہت سکون اور اطمینان آ سکتا ہے۔
درحقیقت ہماری زندگی کا بھی ایک (reward ending sequence ) ہے جو اس بے ہنگم بھاگ دوڑ کو صحیح معنی دیتا ہے، یہ عقیدہ آخرت ہے، اس عقیدہ میں ہر اس سوال کا جواب ہے جو آج تک دنیا کے کسی بھی لذتیت یا یاسیت پسند فلسفہ نے اٹھائے ہیں، اس کے مطابق یہ سب مشکلات، پریشانیاں، لذتیں اور شہوتیں دراصل ہر انسان کا امتحان ہیں کہ ان سب حالات میں انسان اپنے خالق کے بھیجے ہوئے دین پر کس حد تک عمل کرتا ہے اور موت اس رام لیلا کا اختتام نہیں بلکہ ending sequence کا آغاز ہے جو یا تو جنت کی صورت میں ابدی انعام یا اپنی حیات چند روزہ کو خدا کے بجائے کسی دوسرے کے بتائے ہوئے لائف سٹائل کی نقل کے انجام میں نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔ غرض اب یہ ہم پر ہے کہ اپنی زندگی کو اللہ کا عطا کیا ہوا مقصد دیتے ہیں یا پھر ٹیپل رن گیم کی طر ح موت آ نے تک سکہ (دولت) جمع کر تے رہتے ہیں جو سانس کی ڈوری ٹوٹتے ہی ہمارے لیے بےفائدہ ہو جاتی ہے۔