ہوم << قدسیوں کےلیے قدرت اور استطاعت کی شرط - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

قدسیوں کےلیے قدرت اور استطاعت کی شرط - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

جن لوگوں نے کسی جابر سلطان کے سامنے تو کیا اپنے ادارے کے کسی افسر کے سامنے بھی کلمۂ حق بلند کرنے کی جرات نہ کی ہو، لیکن اس کے باوجود انھیں وقت کے جابروں کے سامنے مزاحمت کی تاریخ رقم کرنے والے قدسیوں کو ظالم کہنے میں کوئی باک نہ ہو، یا جو تھرڈ ڈویژن کی ڈگری لے کر بڑے بڑے عہدوں پر براجمان ہو کر دوسروں کو بھی بی اے کی ڈگری لینے کی نصیحت کرتے ہیں، یا جو ٹیکساس کو اپنا صوبہ اور امریکا کو مہذب ترین فاتح قرار دیتے ہیں، وہ تو مرفوع القلم ہیں، لیکن ان سے متاثر ہو کر جو لوگ مزاحمت کےلیے قدرت و استطاعت کی شرط کی بات کرتے ہیں، ان کےلیے راقم کی کتاب "جہاد، مزاحمت اور بغاوت" کے ایک باب سے کچھ اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات!

جہاد کے حوالے سے ایک اہم بحث قدرت و استطاعت کی ہے۔ ہر شرعی فریضے کی طرح جہاد کے لیے بھی مقدرت شرط ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفۡسًا إِلَّا وُسۡعَهَا ( سورۃ البقرۃ ، آیت 286)
( اللہ کسی نفس پر اس کی مقدرت سے زیادہ ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔)
عدم قدرت ہی کی وجہ سے نابینا اور دوسرے معذور افراد پر قتال کا فریضہ عائد نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَّيۡسَ عَلَى ٱلضُّعَفَآءِ وَلَا عَلَى ٱلۡمَرۡضَىٰ وَلَا عَلَى ٱلَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُواْ لِلَّهِ وَرَسُولِهِۦۚ مَا عَلَى ٱلۡمُحۡسِنِينَ مِن سَبِيلٖۚ وَٱللَّهُ غَفُورٞ رَّحِيمٞ (سورۃ التوبۃ، آیت 91)
(ضعیف اور بیمار لوگ اور وہ لوگ جو جہاد میں شرکت کے لیے راہ نہیں پاتے اگر پیچھے رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں جبکہ وہ خلوص دل سے اللہ اور اس کے رسول کے وفادار ہوں۔ ایسے محسنین پر کوئی الزام نہیں۔ اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔)

البتہ عدم قدرت کے لیے کوئی لگا بندھا اصول نہیں ہے کیونکہ حالات میں تبدیلی کے ساتھ حکم بھی تبدیل ہوتا ہے، نیز مختلف زمانوں میں جنگ کے طریقے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور آلات حرب اور ہتھیاروں کی نوعیت بھی وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ ایک زمانے میں ایک شخص قتال کے نااہل سمجھا گیا ہو اور دوسرے زمانے میں وہی شخص قتال کی قدرت رکھتا ہو، اور اس کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں معذورین سے رفع حرج کے ذکر کے ساتھ إِذَا نَصَحُواْ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ کی قید لگی ہوئی ہے۔ اس سے معلوم یہ ہوا کہ قتال سے رہ جانے والوں سے یہ مطالبہ برقرار رہے گا کہ ان کی ہمدردیاں جنگ میں حصہ لینے والوں کے ساتھ ہوں۔ وہ جنگ میں عملی شرکت نہیں کرسکتے تو مالی امداد دے کر ہی حصہ ڈالیں، مقاتلین کے اہل و عیال کا خیال رکھیں، دعاؤں میں مجاہدین کو یاد رکھیں، کم از کم دل میں تمنا رکھیں کہ کاش وہ بھی اس عظیم فریضے کے ادا کرنے کے اہل ہوتے اور اس فریضے کے ادا کرنے سے قاصر رہ جانے پر انھیں افسوس ہو:
وَلَا عَلَى ٱلَّذِينَ إِذَا مَآ أَتَوۡكَ لِتَحۡمِلَهُمۡ قُلۡتَ لَآ أَجِدُ مَآ أَحۡمِلُكُمۡ عَلَيۡهِ تَوَلَّواْ وَّأَعۡيُنُهُمۡ تَفِيضُ مِنَ ٱلدَّمۡعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُواْ مَا يُنفِقُونَ إِنَّمَا ٱلسَّبِيلُ عَلَى ٱلَّذِينَ يَسۡتَ‍ٔۡذِنُونَكَ وَهُمۡ أَغۡنِيَآءُۚ رَضُواْ بِأَن يَكُونُواْ مَعَ ٱلۡخَوَالِفِ وَطَبَعَ ٱللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمۡ فَهُمۡ لَا يَعۡلَمُونَ(سورۃ التوبۃ، آیت 92-93)
(اور ان لوگوں پر بھی کوئی الزام نہیں جنھوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لیے سواریاں بہم پہنچائی جائیں، تو تم نے کہا کہ میں تمھارے لیے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا، پھر وہ واپس مجبورا لوٹے اس حال میں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے اس رنج کی وجہ سے کہ وہ اپنے خرچ پر جہاد میں شرکت کی مقدرت نہیں رکھتے۔ البتہ اعتراض ان لوگوں پر ہے جو مالدار ہوتے ہوئے بھی پیچھے رہ جانے کے لیے تم سے اجازت طلب کرتے ہیں۔ وہ اس پر خوش ہوئے کہ گھر بیٹھنے والیوں کے ساتھ بیٹھ رہیں، اور اللہ نے ان کے دلوں پر ٹھپہ لگادیا، پس اب یہ اپنی شامت اعمال کے متعلق کچھ نہیں جانتے۔)

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:
من مات ولم یغز، ولم یحدّث بہ نفسہ، مات علی شعبۃ من نفاق۔ (جو اس حال میں مرا کہ نہ اس نے جنگ کی، نہ ہی اس کے دل میں جنگ میں شرکت کا خیال آیا تو وہ نفاق کے ایک شعبے پہ مرا۔)
اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان فرد اور مسلمان امت دونوں انفرادی اور اجتماعی حیثیتوں میں قتال کے فریضے کی تیاری کریں اور دفاع کے لیے ہر وقت چوکس رہیں:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ خُذُواْ حِذۡرَكُمۡ فَٱنفِرُواْ ثُبَاتٍ أَوِ ٱنفِرُواْ جَمِيعٗا وَإِنَّ مِنكُمۡ لَمَن لَّيُبَطِّئَنَّ (سورۃ النساء، آیات 71-72)
(اے ایمان والو! دشمنوں کے مقابلے کے لیے ہر وقت چوکس رہو، پھر جیسا موقع ہو الگ الگ ٹولیوں کی صورت میں نکلو یا اکٹھے ہو کر۔ ہاں تم میں بعض ایسے بھی ہیں جو لڑائی سے جی چراتے ہیں۔)
وَأَعِدُّواْ لَهُم مَّا ٱسۡتَطَعۡتُم مِّن قُوَّةٖ وَمِن رِّبَاطِ ٱلۡخَيۡلِ تُرۡهِبُونَ بِهِۦ عَدُوَّ ٱللَّهِ وَعَدُوَّكُمۡ وَءَاخَرِينَ مِن دُونِهِمۡ لَا تَعۡلَمُونَهُمُ ٱللَّهُ يَعۡلَمُهُمۡۚ وَمَا تُنفِقُواْ مِن شَيۡءٖ فِي سَبِيلِ ٱللَّهِ يُوَفَّ إِلَيۡكُمۡ وَأَنتُمۡ لَا تُظۡلَمُونَ وَإِن جَنَحُواْ لِلسَّلۡمِ فَٱجۡنَحۡ لَهَا وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ إِنَّهُۥ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ ( سورۃ الأنفال ، 60-61)
(اور جہاں تک تمھارا بس چلے زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلے کے لیے مہیا رکھو تاکہ ان کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعدا کو خوفزدہ کرو جنھیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے وہ پورا پورا تم کو لوٹادیا جائے گا اور تم پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر دشمن صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، یقینا وہی سب کچھ سننے والے جاننے والا ہے۔)

ان آیات میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ ہمہ وقت چوکس رہیں اور دفاع کے فریضے کی اس شان سے تیاری کریں کہ ان کے ظاہری اور چھپے ہوئے دشمن انھیں دیکھ کر حملے کی ہمت ہی نہ کریں۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ اگر دشمن صلح کرنا چاہے تو آپ اس کی پیشکش قبول کیجیے اور اللہ پر بھروسہ کیجیے۔ گویا مومن دوسروں پر جنگ مسلط نہیں کریں گے لیکن اپنے دفاع سے غافل بھی نہیں رہیں گے۔ وہ اس سلسلے میں اپنی مقدور بھر کوشش کریں گے اور ساتھ ہی اللہ کی مدد کا یقین بھی رکھیں گے۔ پس مقدرت کی شرط کا یہ مطلب نہیں کہ عدم قدرت کا بہانہ بنا کر جہاد اور دفاع کے فریضے کی ادائیگی کی فکر ہی چھوڑ دیں؛ بلکہ اس شرط کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ مسلمان امت میں اجتماعی طور پر بھی اور ہر فرد کی سطح پر بھی اس فریضے کی ادائیگی کی کوششیں جاری رہیں۔

عدم قدرت کی صورت میں قتال کا فریضہ عائد نہیں ہوتا لیکن، جیسا کہ پیچھے بیان ہوا، قدرت کے ناپنے کے لیے کوئی خاص پیمانہ وضع نہیں کیا گیا۔ اس شرط پر عصر حاضر کے تناظر میں غور و فکر کی ضرورت ہے۔ سورۃ الانفال کی آیت 66 سے جناب جاوید احمد غامدی نے یہ استدلال کیا ہے کہ جب تک مسلمان فوج کی تعداد دشمن کے مقابلے میں کم از کم دوگنا نہ ہو اس وقت تک ان پر جہاد فرض نہیں ہوتا۔
یہ رائے کئی وجوہ سے صحیح معلوم نہیں ہوتی۔ پہلے اس آیت کے الفاظ پر غور کریں:
ٱلۡـَٰٔنَ خَفَّفَ ٱللَّهُ عَنكُمۡ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمۡ ضَعۡفٗاۚ فَإِن يَكُن مِّنكُم مِّاْئَةٞ صَابِرَةٞ يَغۡلِبُواْ مِاْئَتَيۡنِۚ وَإِن يَكُن مِّنكُمۡ أَلۡفٞ يَغۡلِبُوٓاْ أَلۡفَيۡنِ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ مَعَ ٱلصَّٰبِرِينَ(سورۃ الأنفال، آیت 66)
(اب اللہ نے تمھارا بوجھ ہلکا کیا اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے ۔ پس اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم ہوں تو وہ دو سو پر اور ہزار ہوں تو دو ہزار پر اللہ کے اذن سے غالب آئیں گے ۔ اور اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ثابت قدم ہوں ۔)

اس آیت میں مذکور حکم دراصل یہ نہیں کہ اگر دشمن کی تعداد مسلمانوں سے دوگنی ہو تو مسلمانوں پر جہاد فرض ہے، اور اگر ان کی تعداد اس سے زائد ہو تو مسلمانوں پر جہاد فرض نہیں ہے۔ اس کے برعکس آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر دشمن کی تعداد دوگنی ہو تو تم ان پر غالب آؤگے بشرطیکہ تم ثابت قدم رہو۔ گویا آیت میں یہ حکم بیان نہیں ہورہا کہ مومنوں اور دشمنوں میں کیا نسبت ہو تو قتال کا فریضہ عائد نہیں ہوتا، بلکہ بیان یہ ہورہا ہے کہ اگر دشمنوں کی تعداد دوگنی بھی ہو تو مومن میدان جنگ سے فرار اختیار نہیں کرسکتے، انھیں یقین ہونا چاہیے کہ اللہ انھیں غلبہ دے سکتا ہے۔ بارہا ایسا ہوا ہے کہ تعداد میں کم لوگ بہت بڑے لشکروں پر غالب ہوگئے ہوں۔ مسلمانوں کی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے:
كَم مِّن فِئَةٖ قَلِيلَةٍ غَلَبَتۡ فِئَةٗ كَثِيرَةَۢ بِإِذۡنِ ٱللَّهِ (سورۃ البقرۃ، آیت 249)
( بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ایک بڑے گروہ پر اللہ کے اذن سے غالب آیا ہے۔)

فقہاء نے اسی وجہ سے اس آیت پر ’’میدان جنگ سے فرار‘‘ کے جواز اور عدم جواز کے ضمن میں بحث کی ہے۔ مثال کے طور پر امام ابو بکر الجصاص الرازی نے پہلے کئی نصوص کی روشنی میں یہ قرار دیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں تو کسی شخص کے لیے بھی کسی بھی صورت میدان جنگ سے فرار ناجائز تھا:
فمن کان بالبعد من النبي ﷺ، إذا انحاز عن الکفار، فإنما کان یجوز لہ إلی فئۃ، وھو النبي ﷺ، وإذا کان معھم فی القتال، لم یکن ھناک فئۃ غیرہ ینحازون إلیہ، فلم یکن یجوز لھم الفرار۔ (پس جو لوگ نبی ﷺ سے دور تھے ان کے لیے کفار سے گریز صرف اس وقت جائز تھا جب وہ مومنوں کے گروہ ، یعنی نبی ﷺ، کی طرف رخ کرتے ، اور جب رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ ہوتے تو پھر ایسا کوئی گروہ نہیں تھا جس کی طرف وہ رخ کرتے۔ اس لیے ایسی صورت میں ان کے لیے کافروں کے مقابلے سے فرار جائز نہیں تھا۔)

اس سلسلے میں جن نصوص سے انھوں نے استدلال کیا ہے ان میں ایک یہ ہے:
مَا كَانَ لِأَهۡلِ ٱلۡمَدِينَةِ وَمَنۡ حَوۡلَهُم مِّنَ ٱلۡأَعۡرَابِ أَن يَتَخَلَّفُواْ عَن رَّسُولِ ٱللَّهِ وَلَا يَرۡغَبُواْ بِأَنفُسِهِمۡ عَن نَّفۡسِه (سورۃ التوبۃ، آیت 120)
(اہل مدینہ اور ان کے گرد و نواح میں رہنے والے بدووں کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول کو چھوڑ کر پیچھے بیٹھ رہتے یا اپنی جان کو اس کی جان سے زیادہ عزیز رکھتے۔)
اسی طرح غزوۂ احد اور غزوۂ حنین کے متعلق دیگر نصوص پر بحث کے بعد وہ نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی موجودگی میں عدد کا کوئی اعتبار نہیں تھا:
فھذا کان حکمھم إذا کانوا مع النبي ﷺ، قلّ عدد العدوّ أو کثر، إذ لم یحدّ اللہ فیہ شیئاً۔ (پس یہ ان کے لیے حکم تھا جب رسول اللہ ﷺ ان کے ساتھ ہوتے چاہے ان کی تعداد کم تھی یا زیادہ، کیونکہ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کسی تعداد کی حد مقرر نہیں کی۔)

اس کے بعد وہ سورۃ الأنفال کی زیر بحث آیت کی طرف آتے ہیں جس میں ایک اور دو کی نسبت کا ذکر آیا ہے:
و الذي فی الآیۃ إیجاب فرض القتال علی الواحد لرجلین من الکفار؛ فإن زاد عدد الکفار علی اثنین، فجائز حینئذٍ للواحد التحیز إلی فئۃ المسلمین فیھا نصرۃ؛ فأما إن أراد الفرار لیلحق بقوم من المسلمین لا نصرۃ معھم، فھو من أھل الوعید المذکور فی قولہ تعالی: وَمَن يُوَلِّهِمۡ يَوۡمَئِذٖ دُبُرَهُۥٓ إِلَّا مُتَحَرِّفٗا لِّقِتَالٍ أَوۡ مُتَحَيِّزًا إِلَىٰ فِئَةٖ فَقَدۡ بَآءَ بِغَضَبٖ مِّنَ ٱللَّهِ (اس آیت میں جو کچھ ہے وہ ایک مومن پر دو کافروں سے قتال کی فرضیت ہے ۔ پھر اگر کافروں کی تعداد دوسے زائد ہو تو جائز ہے کہ تنہا مومن مدد کے لیے مسلمانوں کے کسی دوسرے گروہ کی طرف رخ کرے ۔ اگر اس کا ارادہ مسلمانوں کے کسی ایسے گروہ کی طرف رخ کرنے کا ہو جو اس کی مدد نہ کرسکتا ہو تو وہ اس وعید کا مستحق ہوگا جو اس ارشاد باری تعالیٰ میں مذکور ہے : ”اور جو ان کو اس وقت پیٹھ دکھائے گا، بجز اس کے کہ جنگ کے لیے پینترا بدلنا چاہتا ہو یا کسی جماعت کی طرف سمٹ رہا ہو، تو وہ اللہ کا غضب لے کر لوٹا“ (سورۃ الانفال، آیت 16)۔)

اس کے بعد وہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ ایک اور دو کی نسبت کا یہ حکم اس وقت تک ہے جب تک مسلمان فوج کی تعداد بارہ ہزار سے کم ہو:
وھذا الحکم عندنا ثابت ما لم یبلغ عدد جیش المسلمین اثني عشر ألفاً، لا یجوز لھم أن ینھزموا عن مثلیھم إلا متحرفین لقتال، وھو أن یصیروا من موضع إلی غیرہ مکایدین لعدوھم، من نحو خروج من مضیق إلی فسحۃ، أو من سعۃ إلی مضیق، أو یکمنوا لعدوھم، ونحو ذلک مما لا یکون فیہ انصراف عن الحرب؛ أو متحیزین إلی فئۃ من المسلمین یقاتلونھم معھم۔ (اور ہمارے نزدیک یہ حکم ثابت ہے جب تک مسلمانوں کے لشکر کی تعداد بارہ ہزار تک نہ پہنچے ، ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے سے دوگنے لشکر کے مقابلے سے فرار اختیار کریں سوائے اس کے کہ وہ جنگ کے لیے تدبیر کررہے ہوں ، جس سے مراد یہ ہے کہ وہ دشمن کو غلط فہمی میں مبتلا کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں جیسے تنگ جگہ سے کھلے میدان کی طرف، یا کھلے میدان سے تنگ جگہ کی جانب، یا دشمنوں پر حملے کے لیے چھپ جائیں اور اس طرح کی دوسری تدابیر جس سے مقصود جنگ سے بھاگنا نہیں ہوتا۔ یا وہ مسلمانوں کے کسی اور گروہ کی طرف رخ کریں جو جنگ میں ان کی مدد کریں۔)

اس کے بعد وہ رسول اللہ ﷺ کے ارشاد کا ذکر کرتے ہیں جس میں مذکور ہے کہ اگر مسلمان فوج کی تعداد بارہ ہزار ہو اور وہ آپس میں متحد ہوں تو ان پر دشمن غالب نہیں آسکتا:
ما غلب قوم یبلغون اثني عشر ألفاً إذا اجتمعت کلمتھم۔ (کوئی قوم جو بارہ ہزار تک پہنچے مغلوب نہیں ہوسکتی اگر ان کا کلمہ ایک ہو۔)
چنانچہ اگر مسلمان فوج کی تعداد بارہ ہزار ہو تو اس کے متعلق قانونی حکم بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
و الذي روي عن النبي ﷺ فی اثنی عشر ألفاً، فھو أصل فی ھذا الباب؛ و إن کثر عدد المشرکین، فغیر جائز لھم أن یفروا منھم، و إن کانوا أضعافھم، لقولہ ﷺ (إذا اجتمعت کلمتھم )، وقد أوجب علیھم بذلک جمع کلمتھم۔ (اور بارہ ہزار کے متعلق جو کچھ رسول اللہ ﷺ سے روایت کیا گیا تو وہ اس باب میں اصل کی حیثیت رکھتا ہے ، خواہ مشرکین کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو ، مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہوگا کہ وہ ان کے مقابلے سے بھاگ جائیں چاہے وہ ان سے کئی گنا زیادہ ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا (اگر ان کا کلمہ ایک ہو) اور اس قول کے ذریعے ان پر واجب کیا کہ وہ کلمہ ایک کریں۔)

پس ایسی صورت میں مسلمان یہ عذر نہیں پیش کرسکتے کہ ان کا آپس میں اتحاد نہیں ہے اور اس لیے وہ اس حکم سے مستثنی ہیں ۔ اس کے برعکس ایسی صورت میں ان پر شرعاً واجب ہوگا کہ وہ متحد ہو کر دشمن کے خلاف لڑیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے گا اور انھیں دشمن پر غالب کرے گا۔
پس سورۃ الانفال کی آیت 66 سے زیادہ سے زیادہ یہ استدلال ہو سکتا ہے کہ اگر دشمنوں کی تعداد دوگنی سے بھی زائد ہو اور مومنوں کے لیے قتال کی کاروائی موخر کرنا ممکن ہو، تو وہ کاروائی مؤخر کر سکتے ہیں؛یعنی مومنوں کو ایسی صورت میں قتال کی کاروائی شروع نہیں کرنی چاہیے؛ لیکن اگر حملہ دشمنوں کی جانب سے ہو تو پھر تعداد کا لحاظ کیے بغیر خون کے آخری قطرے تک دفاع کا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ ایسی صورت میں اگر ایک جگہ کے مسلمان کمزور ہوں اور دفاع کی اہلیت نہیں رکھتے تو ، جیسا کہ دوسرے مقام پر ہم نے واضح کیا ہے، باقی مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوگا ، یہاں تک کہ شرقا ًو غرباً پوری دنیا کے مسلمانوں پر یہ فریضہ فرض عین کی صورت اختیار کرلے گا لیکن دفاع کا حکم ساقط نہیں ہوگا۔

مزید برآں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عددی نسبت کا لحاظ تو اس زمانے میں رکھا جاسکتا تھا جب افرادی قوت ہی میدان جنگ میں اہم کردار ادا کرتی تھی ۔ موجودہ دور میں جبکہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے فرد کی اہمیت کو نسبتاً کم کردیا ہے کیا زیادہ اہم سوال یہ نہیں ہوگا کہ ٹیکنالوجی کے لحاظ سے دشمن کہاں کھڑا ہے؟ اگر مسلمان فوج کی تعداد دس ہزار ہے مگر اس کے پاس روایتی بندوق ہیں اور دشمن کی تعداد سو ہے مگر اس کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں تو مقدرت کا اندازہ تعداد سے لگایاجائے گا یا اسلحے کی نوعیت سے ؟ امام سمرقندی نے کئی سو سال پہلے اس حقیقت کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے:
و لا ینبغی للغزاۃ أن یفر واحد من اثنین منھم؛ و الحاصل أن الأمر مبني علی غالب الظن؛ فإن غلب في ظن المقاتل أنہ یغلب ویقتل، فلا بأس بأن یفر منھم؛ و لا عبرۃ بالعدد ، حتی إن الواحد إذا لم یکن معہ سلاح، فلا بأس بأن یفر من اثنین معھما السلاح، أو من الواحد الذی معہ السلاح (مجاہدین کے لیے یہ مناسب نہیں کہ دو دشمنوں کے مقابلے سے ایک مجاہد فرارہو جائے ۔ بحث کا حاصل یہ ہے کہ معاملہ غالب گمان پر مبنی ہے ۔ پس اگر مجاہد کا غالب گمان یہ ہے کہ وہ مغلوب ہوجائے گا اور قتل کردیا جائے گا تو فرار ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اور اس سلسلے میں عدد کی کوئی اہمیت نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک نہتا مجاہد اگر دو مسلح دشمنوں یا ایک ہی مسلح دشمن سے فرار ہوجائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہوگی)

ابن رشد نے تصریح کی ہے کہ امام مالک سے بھی اس طرح کی روایت کی گئی ہے :
وذھب ابن الماجشون، ورواہ عن مالک، أن الضعف إنما یعتبر في القوۃ، لا في العدد، وأنہ یجوز أن یفر الواحد عن واحد إذا کان أعتق جواداً منہ و أجود سلاحاً و أشد قوۃً۔ (ابن ماجشون کی رائے یہ ہے ، اور وہ اسے امام مالک سے روایت کرتے ہیں ، کہ دوگنے کا معیار قوت ہے نہ کہ عدد ، اور اسی وجہ سے جائز ہے کہ تنہا شخص کسی ایک شخص کے مقابلے سے فرار ہوجائے اگر وہ اسے بہتر گھوڑا ، اچھی تلوار یا زیادہ قوت رکھتا ہو۔)
امام سرخسی نے اس موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ یقینا قول فیصل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
إن کان عدد المسلمین مثل نصف عدد المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وکان الحکم فی الابتداء أنھم إذا کانوا مثل عشر المشرکین لا یحل لھم أن یفروا ۔۔۔ وھذا إذا کان بھم قوۃ القتال بأن کانت معھم الأسلحۃ؛ فأما من لا سلاح لہ، فلا بأس بأن یفر ممن معہ سلاح؛ و کذلک لا بأس بأن یفر ممن یرمي إذا لم یکن معہ آلۃ الرمي۔ ألا تری أن لہ أن یفر من باب الحصن، ومن الموضع الذی یرمی فیہ بالمنجنیق، لعجزہ عن المقام فی ذلک الموضع۔ وعلی ھذا ، لا بأس بأن یفر الواحد من الثلاثۃ، إلا أن یکون المسلمون اثني عشر ألفاً کلمتھم واحدۃ، فحینئذٍ لا یجوز لھم أن یفروا من العدو و ان کثروا، لأن النبي ﷺ قال : لن یغلب اثنا عشر ألفاً عن قلۃ ۔ ومن کان غالباً، فلیس لہ أن یفر۔ (اگر مسلمانوں کی تعداد مشرکین کے نصف کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ فرار اختیار کریں ، اور ابتدا میں حکم یہ تھا کہ اگر ان کی تعداد مشرکین کے دسویں حصے کے برابر ہو تو ان کے لیے جائز نہیں تھا کہ وہ فرار اختیار کرتے ۔ یہ حکم اس صورت میں ہے جب ان میں جنگ کی قوت ہو ، یعنی ان کے پاس اسلحہ ہو ۔ پس جس کے پاس اسلحہ نہ ہو اس کے لیے اسلحہ رکھنے والے کے مقابلے سے فرار اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ اسی طرح اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس رمی کا آلہ نہ ہو تو وہ رمی کرنے والے سے فرار اختیار کرلے ۔ کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس کے لیے جائز ہے کہ قلعے کے دروازے سے اور اس جگہ سے جہاں منجنیق سے گولے پھینکے جارہے ہوں فرار ہوجائے کیونکہ وہ اس جگہ ٹھہرنے سے عاجز ہوتا ہے ؟ ان اصولوں کی بنا پر تنہا شخص کے لیے تین افراد کے مقابلے سے فرار اختیار کرنا جائز ہے ، سوائے اس حالت کے جب مسلمانوں کی تعداد بارہ ہزار ہو اور ان کا کلمہ ایک ہو ۔ پس اس حالت میں ان کے لیے دشمن سے فرار اختیار کرنا جائز نہیں خواہ ان کی تعداد کتنی ہی زیادہ ہو کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے : بارہ ہزار کا گروہ تعداد میں کمی کے سبب سے مغلوب نہیں ہو سکتا ۔ اور جو غالب ہو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ فرار اختیار کرلے ۔)

آخری بات یہ ہے کہ تعداد کا اندازہ لگاتے ہوئے کیا صرف باقاعدہ فوج کو دیکھا جائے گا یا مسلمان آبادی کی کل تعداد دیکھی جائے گی؟معلوم امر ہے کہ بعض صورتوں میں قتال ہر مسلمان پر نماز اور روزے کی طرح فرض عینی کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔ کیا اس کا لازمی تقاضا یہ نہیں ہے کہ ہرمسلمان کم از کم بنیادی فنون سپہ گری اور اسلحے کے استعمال سے واقف ہو ، بنیادی فوجی ٹریننگ ہر شہری کو دی گئی ہو اور شہری دفاع کے اصولوں سے سبھی واقف ہوں؟ ہمارے نزدیک تو شریعت کے احکام کا مقتضی یہی ہے۔ ہوسکتا ہے بعض لوگ اسے تشدد پسندی قرار دیں کیونکہ ہوا ہی آج کل ایسی چلی ہے کہ عام شہری کاتو فوجی امور سے واقفیت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا فوجیوں کو بھی بھل صفائی اور میٹر ریڈنگ کے کام سونپ دیے جاتے ہیں ۔ بقول اقبال ؂

شکایت ہے مجھے یا رب ! خداوندانِ مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث کا اختتام امام سرخسی کے ان الفاظ پر کیا جائے:
لا بأس بالانھزام إذا أتی المسلمین من العدو ما لا یطیقھم؛ ولا بأس بالصبر أیضاً ، بخلاف ما یقولہ بعض الناس أنہ إلقاء النفس فی التھلکۃ ؛ بل فی ھذا تحقیق بذل النفس لابتغاء مرضاۃ اللہ تعالی؛ فقد فعلہ غیر واحد من الصحابۃ رضی اللہ عنھم، منھم عاصم بن ثابت حمي الدبر؛ وأثنی علیھم رسول اللہ ﷺ بذلک؛ فعرفنا أنہ لا بأس بہ؛ واللہ الموفق ۔) پسپائی اختیار کرنے میں کوئی قباحت نہیں اگر مسلمانوں پر دشمن کا ایسا حملہ ہو جس کے مقابلے کی وہ سکت نہیں رکھتے ۔ اور ایسی حالت میں ثابت قدمی سے مقابلہ کرنے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے ، بخلاف بعض لوگوں کے قول کے کہ ایسی حالت میں مقابلہ گویا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے ۔ نہیں بلکہ یہ تو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جان کی قربانی پیش کرنا ہے ، اور ایسا کام صحابہ رضی اللہ عنہم میں ایک سے زائد لوگوں نے کیا جن میں ایک عاصم بن ثابت حمی الدبر ہیں ، اور رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف بیان فرمائی ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ۔ واللہ الموفق۔)

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

ڈاکٹر محمد مشتاق احمد شفاء تعمیرِ ملت یونیورسٹی اسلام آباد میں پروفیسر اور سربراہ شعبۂ شریعہ و قانون ہیں۔ اس سے پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کے سیکرٹری اور شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔قبل ازیں سول جج/جوڈیشل مجسٹریٹ کی ذمہ داری بھی انجام دی۔ اصولِ قانون، اصولِ فقہ، فوجداری قانون، عائلی قانون اور بین الاقوامی قانونِ جنگ کے علاوہ قرآنیات اور تقابلِ ادیان پر کئی کتابیں اور تحقیقی مقالات تصنیف کرچکے ہیں۔

Click here to post a comment