ہوم << سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

سلف صالحین میں اختلاف تھا کہ سحری کا وقت کب ختم ہوتا ہے؟
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: وَذَهَبَ جَمَاعَةٌ مِنَ الصَّحَابَةِ وَقَالَ بِهِ الْأَعْمَشُ مِنَ التَّابِعِينَ وَصَاحِبُهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ إِلَى جَوَازِ السُّحُورِ إِلَى أَنْ يَتَّضِحَ الْفَجْرُ

صحابہ کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے اور یہی قول تابعین میں سے اعمش اور انکے ساتھ ابو بن عیاش کا ہے کہ سحری کرنا جائز ہے فجر کے واضح ہوجانے تک۔

سالم بن عبید تابعی، امیر المؤمنین ابوبکر صدیق رضی الله عنه کے حجرے میں موجود تھے، اورسیدنا ابوبکر نے نماز پڑھی ، پھر مجھے کہنے لگے جاؤ باہر دیکھ کر آؤ فجر طلوع ہو گئی ہے؟
میں باہر گیا جا کر دیکھا اور واپس آ کر بتایا کہ آسمان میں سفیدی سی ہوئی ہے، یہ سن کر آپ پھر نماز پڑھنے لگے ، پھر مجھے کہا کہ جاؤ اب دیکھ کر آؤ کہ فجر طلوع ہو گئی ہے؟
میں گیا اور دیکھ کر واپس آیا اور بتایا کہ اب آسمان میں سورج کی سرخی آ گئی ہے. یہ سن کر ابوبکر فرمانے لگے، ہاں! اب مجھے میری سحری لاکر دو۔
(سنن الدارقطنی 2187)، امام دارقطنی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ اور امام ابن حجر نے بھی :(فتح الباري 4/137)

امیر المومنین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز پڑھ کر فرمایا: اب جاکر کالا دھاگا سفید دھاگے سے الگ ہوا ہے۔ (تفسیر الطبری: 3/519) اس واقعہ کو حافظ ابن حجر نے صحیح قرار دیا ہے: (فتح الباری: 4/117) . سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قرآن کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں اللہ تعالی نے سحری کے متعلق فرمایا: کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے واضح ہوجائے فجر میں سے۔

زِرّ بْنِ حُبَيْشٍ تابعی فرماتے ہیں کہ میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے نبی کریم ﷺ کی سحری کا مشاہدہ کیا ہے تو انہوں نے کہا: ہاں! وہ دن ہی تھا، بس سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ (سنن نسائی، ابن ماجہ وغیرھما) امام ذھبی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے: (المعجم المختص بالمحدثین: 1/64) . حافظ ابن حجر نے بھی اس واقعہ کو صحیح قرار دیا ہے: (4/136) وَرَوَى ابن أبي شيبة وَعبد الرزاق ذٰلِكَ عن حُذَيْفَةَ مِنْ طُرُقٍ صَحِيحَةٍ .

امام مسروق تابعی فرماتے ہیں: لم يَكُن يَعُدُّونَ الفجر فَجْرَكُمْ، إنَّما كانُوا يَعُدُّونَ الفجر الَّذي يَمْلَأُ البُيُوت (سلف صالحین) اس کو فجر نہیں شمار کرتے تھے کہ جس کو تم فجر شمار کرتے ہو۔ وہ اسے فجر شمار کرتے تھے جو گھروں اور راستوں کو روشنی سے بھردے۔ (ابن ابي شیبة: 9075، المحلی: 4/373) امام معمر رحمہ اللہ اس قدر تاخیر سے سحر کرتے تھے، صبح کے واضح ہونے تک کہ جاہل شخص کہتا کہ ان کا تو روزہ ہی نہیں۔ (مصنف عبدالرزاق: 7605)

امام اعمش فرماتے ہیں: لَوْلَا الشُّهْرَةُ لَصَلَّيْتُ الْفَجْرَ ثُمَّ تَسَحَّرْتُ اتِّبَاعًا لِحَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ (گر بدنامی کا خدشہ نہ ہوتا تو میں پہلے فجر کی نماز ادا کرتا پھر سحری کرتا نبی ﷺ کی حدیث کی اتباع کرتے ہوئے)۔ (الْفَقِيهُ وَالْمُتَفَقِّهُ 1/389) ابراہیم النخعی فرماتے ہیں: الوتر بالليل والسَّحور بالنهار ''وتر رات میں ہوں گے اور سحری دن میں''۔ (تفسیر الطبری: 3/521، مصنف ابن ابي شیبة)[/arabic]

امام طبری فرماتے ہیں
اس قول کے قائلین کی یہ دلیل ہے کہ: دن کا پہلا حصہ سورج طلوع ہونے سے ہوتا ہے جیسا کہ اس کا آخری حصہ سورج کے غروب ہونے سے۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر دن کا پہلا حصہ فجر کے پھوٹنے سے ہوتا تو دن کا آخری حصہ دن کی سرخی غائب ہونے سے ہوتا (مغرب کی نماز کے بعد کا وقت)۔ جبکہ اجماع میں حجت ہے کہ دن کا آخری حصہ سورج غروب ہونے کا وقت ہے۔ تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے دن کا ابتدائی حصہ سورج طلوع ہونے سے ہے۔ (تفسیر: 3/521)

شیخ البانی فرماتے ہیں
میں نے اس بات کا مشاہدہ کیا ہے کہ بعض ممالک عربیہ میں فجر کی اذان فجر صادق سے آدھا گھنٹہ پہلے دے دی جاتی ہے اور لوگ فجر کی سنتیں فجر کے وقت سے پہلے ہی پڑھ لیتے ہیں۔ اور رمضان میں بھی وقت سے پہلے ہی فرض نماز پڑھنے میں جلد بازی کرتے ہیں، اور اس میں لوگوں پر تنگی ہے. ان کا سحری کا وقت بند کرنے میں اور وقت سے پہلے نماز پڑھانے میں اور اس کا سبب فلکی کیلنڈر پر ان کا اعتماد ہے، اور شرعی اوقات سے اعراض ہے جو کہ یہ ہے: کھاؤاور پیو یہاں تک کہ تمھارے لیے سفید دھاگا کالے دھاگے سے واضح ہوجائے فجر میں سے۔ یعنی کھاو پیو یہاں تک کہ سرخی نہ پھیل جائے۔( السلسة الصحیحة: 5/52، 2031) (باختصار وتصرف)

ہمارے ہاں بھی یہی حساب ہوگیا ہے کہ اچھے خاصے اندھرے میں ہی اذان دے کر سحری بند کروادی جاتی ہے جبکہ سلف میں باقاعدہ روشنی ہونے تک کھانے پینے کا جواز موجود تھا۔