اس مرتبہ ہمیں دفتری امور سے فراغت ملی تو گرمیوں کی تعطیلات اپنے دوست چوہدری عالم گیر کے ہاں گائوں میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ دو ایک جوڑے کپڑے اور ضروری چیزیں ایک بیگ میں ڈالے ہم گائوں روانہ ہو گئے۔ شہر کی پُر رونق و پُرہجوم زندگی سے اوسان خطا ہونے لگے تھے۔ ریل گاڑی دیہاتی علاقے میں داخل ہوئی تو قدرت کا خاص تحفہ ملا۔ جی ہاں ہم تازہ ہوا کا ذکر کر رہے ہیں۔ یہ وہ خاص تحفہ ہے جو شہر کے ترقی یافتہ ماحول میں شاذ و نادر ہی میسر ہوتا ہے۔
گائوں میں اسٹیشن پر چوہدری صاحب اور چند دیگر دوست ہمارے منتظر تھے۔ پُرتپاک استقبال کے بعد چوہدری صاحب کے ڈیرے پر پہنچے۔ خوب آئو بھگت کی گئی۔گائوں کے لوگ بڑی خوش دلی سے ملے۔ مسجد میں مولوی صاحب نے نماز کے بعد مزاج دریافت کیا۔ کچھ مہمان مسجد میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے بتایا کہ یہ دوسرے علاقوں سے آئے ہیں اور ایک ضروری کام پر محنت کر رہے ہیں۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر۔ ہمیں بڑی خوشی ہوئی اُن دوستوں سے بھی تعارف ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ لوگ بھی آج ہی وہاں پہنچے تھے۔ چوہدری صاحب بڑے خوش مزاج آدمی ہیں۔ اکثر اوقات اُن کے ڈیرے پر دوستوں کی محفل رچا کرتی ہے۔ دوستوں کا خوب ہنسی مذاق اور ادبی مباحثہ محفل کو رونق بخشتا ہے۔ غرضیکہ دن بڑا خوشگوار گزرا اور گائوں کے سادہ لوح لوگوں کی دلچسب باتیں سن کر بہت اچھا لگا۔
چوہدری صاحب کے متعدد ملازمین میں ’جیلا‘ بھی شامل ہے۔ موصوف کا اصل نام تو شاید جلیل یا شرجیل ہے مگر عرف عام میں جیلا ہی مستعمل ہے، جس پہ وہ بخوشی راضی ہے۔ اپنے آپ میں جیلا بہت خود پسند واقع ہوا ہے تاہم مردم شناسی بھی اُس میں خوب ہے۔ ہم سے اکثر کہا کرتا ہے کہ ’’صاب جی ہم گائوں کے لوگ تو چہرہ دیکھ کے بندے کی قسمت اور مزاج پڑھ لیتے ہیں‘‘۔ اور ہم اُس کی اس صفت کی داد دیتے ہیں اور شاید آپ بھی دیں گے۔ شام کو ہم چوہدری صاحب کے ساتھ ٹہل رہے تھے کہ جیلا وہاں آیا اور بولا ، ’’چودری صاب! بیٹھک میں کچھ لوگ آئے ہیں اور آپ سے ملنا چاہتے ہیں‘‘۔ چوہدری صاحب نے فوراً کہا کہ اُنھیں چائے پانی پوچھو، میں آتا ہوں۔ اور خود تیزی سے بیٹھک کی طرف لپکے۔ ہم تیز چلنے میں ذرا دقت محسوس کرتے ہیں جس کی وجہ ہماری فربہی کے سوا کچھ نہیں، اس لیے ذرا آہستہ آہستہ مہمان خانے کی طرف چلنے لگے۔ چوہدری صاحب اتنے میں بیٹھک میں داخل ہو چکے تھے۔ درختوں کی قطار ختم ہوئی تو چار پانچ گاڑیاں ڈیرے کے سامنے کھڑی نظر آئیں جو یقینا گائوں والوں میں سے کسی کی نہ تھیں۔ لگا کہ شہر سے کوئی دوست وغیرہ آئے ہوں گے اتنی مہنگی گاڑیوں میں۔ اتنے میں جیلا بیٹھک سے برآمد ہوا اور ہماری طرف لپکا۔ اس کے عقب سے بیٹھک کے اندر بیٹھے کچھ مہمانوں کے چہرے نظر آئے جو کچھ شناسا لگ رہے تھے۔ ارے یہ تو وہی مہمان تھے جو دوپہر کو ہمیں مسجد میں ملے تھے۔ اب معلوم ہوا کہ وہ لوگ چوہدری صاحب سے ملنے خود اُن کے پاس آئے تھے۔ اتنے میں جیلا ہمارے قریب آن پہنچا اور بولا۔ ’’صاب جی! آپ کو پتا ہے کون آیا ہے‘‘۔
ہم نے سوالیہ نظروں سے اُسے دیکھا تو وہ بولا۔ ’’صاب جی! مولوی آئے ہیں‘‘۔ ہم نے کہا اچھا۔ تو وہ بولا ’’ہمیشہ سے ایک مولوی سائیکل پہ آتا ہے اور سو روپے لے کے نکل جاتا ہے، یہ مولوی موٹروں پہ آئے بیٹھے ہیں، ہزار سے ایک پیسہ کم نئیں لیں گے‘‘۔
دلیل پر علماء کی تزلیل پر کالموں بلاگوں کی تعداد میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔۔۔ یہ کیا چکر ہے عامر خاکوانی صاحب؟