بابائے تھل فاروق روکھڑی 1929 میں ضلع میانوالی کے گاؤں روکھڑی میں پیدا ھوۓ۔ میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ جب تحریک پاکستان کا سلسلہ شروع ھو ا تو تمام اھم شخصیات کے ساتھ اپ نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اور تحریک پاکستان کے جلسوں میں بھی شریک رہے۔ان تھک قربانیوں کے بعد وہ دن بھی آیا
جب بابائے تھل نے اپنی آنکھوں سےآزادی کا ابھرتا سورج دیکھا. ہر طبقہ فکر کو سوچ کی آزادی ملی اسی دوران آپ ضرورت معاش کے پیش نظر1949میں پاکستان ریلوے میں بھرتی ھوۓ۔شاعری بچپن سے آپکی رگ رگ میں بسی تھی ۔جوں جوں عمر بڑھی یہ شوق بھی پختہ ہوتا گیا.
کوئی دکھ، کوئی پریشانی، کوئی ضرورت اس شوق کو ختم نہ کر سکی۔شاعری میں اردو اور سرائیکی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا۔اپنے اس شوق کو عروج کی ان منزلوں تک پہنچایاکہ بابائے تھل کہلائے۔اور اپنے علاقے کانام روشن کیا۔ آپ کی تصانیف میں چار کتابیں شامل ہیں_
1- ہم کو بھی نیند آۓ
2- میں پارسا نہیں فاروق
3- مینوں میڈے گیتاں لٹیا
4- کاغذ دی بیڑی
مشاعرہ ترنم سے پڑھا کرتے تھے- اپنے قلم کی مہارت اورسچ کی بلندیوں کی وجہ سے
1)المنصور ایوارڈ
2) سانول ایوارڈ
3) خواجہ فرید ایوارڈ اور صدر ضیا الحق سےنقد انعام بھی حاصل کیا.
بہت سادہ،نرم،دل،ملنسار، مہمان نواز اور عوامی شخصیت تھے۔ عمومّا سفید لباس اور سر پہ پگڑی یاٹوپی رکھتے تھے۔ چھوٹے بڑے آپ کو ماما فاروق کہا کرتے تھے۔ 1984میں ریٹائرڈ ہوئے۔مستقل رہائش کندیاں رکھی۔ آپ کے بیٹے کا صدیقی بازار کندیاں میں جنرل سٹور تھا۔ اکثروہاں بیٹھا کرتے تھے۔ نماز باقاعدگی سے ادا کرتے۔ آپ کے شاعری میں بے شمار شاگرد تھے۔ روزانہ جو خطوط ملتے ان کا جواب لکھا کرتے .
عطأ اللہ عیسی خیلوی , منصور ملنگی , مسعود ملک اور بے شمار گلوکاروں نےآپ کا کلام گایا۔ سرائیکی گیت " کنڈیاں تے ٹر کے آۓ" بہت مقبول ہوا اور آپ کی پہچان بنا۔ "ہم تم ہوں گے بادل ہوگا" یہ غزل بھی بہت مقبول ہوئی.
6 اپریل2008 میں اپنے تمام مداحوں کو غمگین چھوڑ کراس دنیا سے کوچ کر گئے۔لیکن وہ آج بھی اپنے اشعار کی صورت ہمارے دلوں میں زندہ ہیں۔ کندیاں میں ریلوے کے قبرستان میں مدفن ھیں۔ کتبہ پر آپکا اپنالکھا ھوا شعر کندہ ھے۔جو آج بھی پڑھنے کو طمانیت بخشتا ہے.
اہل دل کی خوبی ہے فاروق یہی
جینے کی توفیق نہ ہو مر جاتے ہیں
اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے. آمین
تبصرہ لکھیے