ہوم << بے ضرر قاتل-طارق محمود چوہدری

بے ضرر قاتل-طارق محمود چوہدری

tariq
امریکیوں اور اسرائیلیوں کے تربیت یافتہ بھارتی رسم ایذا رسانی میں مہارت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ وہ قتل بھی ایسے کرتے ہیں کہ مثل کرامت معلوم ہو۔ گویا وہی اس مشہور زمانہ شعر کی سی کیفیت کہ قتل ہو جائے لیکن قاتل صاف بچ نکلے۔ خنجر پر خون کا کوئی داغ ہو نہ دامن پر کوئی چھینٹ۔ ہاتھ بھی صاف، دامن بھی اجلا۔ کوئی ثبوت نہ کوئی شہادت۔ پھر ایف آئی آر کیسے درج ہو؟ جرم کی پہلی رپورٹ ہی درج نہ ہو تو کہاں کی فردجرم۔ سفاک بھارتی تحریک آزاد کشمیر کی نئی لہر کو کچلنے کیلئے اپنی اسی مہارت کو استعمال کر رہے ہیں۔ اب ان کا ہتھیار بظاہر بے ضرر۔ لیکن انتہائی مہلک چھرے استعمال کر رہے ہیں۔ وہی چھرے جو عام طور پر پرندوں کے شکار کیلئے استعمال ہوا کرتے ہیں۔ ایسے چھرے بلا لائسنس کی شکاری ائیرگنوں کیلئے عام دکانوں سے بھی مل جاتے ہیں۔ لیکن ٹھہریئے۔ جنت نظیر وادی کے حریت پسندوں کی آزادی کے نعرے بلند کرتی زبان کو خاموش کرنے کے لئے بھارتی سورماﺅں نے بے ضرر چھروں کو قاتل گولیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارتی اسلحہ ساز فیکٹریوں میں خصوصی سیکشن بھاری مقدار میں یہ قاتل گولیاں تیار کر کے برق رفتار ذرائع سے اپنے قابض سپاہیوں کو بھجوا رہے ہیں تاکہ برستی بھارتی بندوقوں کی نال کہیں خاموش نہ ہو جائے۔ یہ قاتل ہتھیار اب تک ساٹھ سے زائد حریت پسندوں کی جانیں ہڑپ کر چکا ہے۔ 4 سالہ بچی سے لیکر 80 سالہ بوڑھے تک چار ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ ان زخمیوں میں سے ان گنت ایسے ہیں جو ہمیشہ کیلئے اپنی بینائی سے کلی اور جزوی طور پر مرحوم ہو چکے۔
دنیا بھر میں احتجاجی تحریکیں، حکومت مخالف جلسے، جلوس نکلتے رہتے ہیں۔ کسی بھی معاشرے میں رہنے والے عوام کو اپنا نکتہ نظر حکام بالا تک پہنچانے کیلئے مظاہروں کا حق ہر مہذب معاشرہ دیتا ہے۔ احتجاجی جلسے، جلوسوں کو روکنے کیلئے دنیا بھر میں مسلمہ طریقہ کار رائج ہیں۔ مظاہرین اپنی حد سے کراس کرنے لگیں تو قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آتے ہیں۔ مظاہرین کو پرامن طریقے سے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر بھی معاملہ کنٹرول سے باہر ہو رہا ہو تو ایسے حربے استعمال کئے جاتے ہیں کہ ہجوم کو کوئی مہلک ضرب نہ لگ جائے۔ آنسو گیس کا استعمال کر کے مظاہرین کو دور بھگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پھر بھی کام نہ چلے تو واٹر کینن استعمال کر کے بپھرے پانی کی بے پناہ طاقت کے ذریعے ہجوم کو منتشر کیا جاتا ہے۔ ہجوم زیادہ مشتعل ہو تو لاٹھی چارج ہی کیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں بھی کسی نازک مقام پر ضرب نہیں لگائی جاتی۔ معاملہ حد سے بڑھ جائے تو ربڑ کی گولیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ اگر ہجوم تمام حدود کراس کر جائے اور گولی چلانا ناگزیر ہو جائے تو پھر آخری حربہ کے طور پر گولی چلائی جاتی ہے۔ اس کے لئے بھی قواعد و ضوابط اور طریقہ کار طے ہے۔ صرف ماہر نشانچی ہی استعمال کئے جاتے ہیں اور گولی جسم کے وائٹل حصوں کی بجائے دھڑ سے نیچے ٹانگوں پر چلائی جا سکتی ہیں۔ اس میں جو کارتوس یا گولی استعمال کی جاتی ہے وہ بھی کم شدت کی اور غیر مہلک ہوتی ہے۔ جو جان لیوا نہ ہو، ٹارگٹ پر موجود فرد زخمی ہو لیکن اس کی جان نہ چلی جائے۔ دنیا بھر میں چلن تو یہی ہے.
لیکن بھارتی سورما ان بین الاقوامی طور پر مسلمہ قواعد و ضوابط اور قوانین کی پابندیوں سے آزاد ہیں۔ کیونکہ بین الاقوامی تھانیدار ان کے ساتھ ہے۔ بھارتی فوج کے بارے میں تو مشہور ہے کہ اس کی اسلحہ ساز فیکرٹری میں جو مہلک ہتھیار تیار ہوتا ہے۔ اس کی ٹیکنیکل آزمائش، مقبوضہ وادی کشمیر میں ہی کی جاتی ہے۔ ایسے ہتھیار کسی دور دراز فائرنگ میں نہیں بلکہ کشمیری حریت پسندوں کے سینوں پر چلا کر ٹیسٹ کئے جاتے ہیں۔ بھارت کے طول و عرض میں برپا 35 کے قریب تحاریک آزادی، ان ہتھیاروں کی آزمائش کیلئے وافر مقدار میں ٹارگٹ مہیا کرتی ہےں۔ باقی تحریکیں تو دور دراز علاقوں میں جاری ہونے کی وجہ سے منظرعام پر نہیں آتیں۔
لیکن تحریک آزادی کشمیر کو اجاگر کرنے میں ابلاغی محاذ بھی ہمیشہ گرم ہی رہتا ہے۔ بھارتی تمام بین الاقوامی قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے تحریک آزادی کشمیر کو کچلنے کیلئے ہر ناجائز حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اپنے غیر قانونی ہتھکنڈوں کو سند جواز بنانے کیلئے انہوں نے ٹاڈا، افسپا ایسے خصوصی آرڈیننس بھی پاس کر رکھے ہیں۔ جن کی موجودگی میں ہر ناجائز حربہ جائز ہو جاتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے بھارتیوں نے ہر دور میں نت نئے طریقے اختیار کئے ہیں۔ کبھی کرفیو، کبھی گھیراﺅ جلاﺅ، کبھی براہ راست گولی مار کر شہید کر دینے کا وطیرہ۔ کئی نوجوانوں کو گرفتار کر کے ان کو عقوبت خانوں کے حوالے کر کے ہمیشہ کیلئے فراموش کر دینا۔ ڈیڑھ لاکھ کے قریب حریت پسند اپنے گھروں سے اٹھا کر، غائب کر دیئے گئے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وہ مہان بھارت کی کس جیل میں قید ہیں۔ غیر ملکی ادارے تو ایک طرف بھارتی ہیومن رائٹس کمیشن کے عہدیداروں کو بھی ان کے اہل خانہ سے ملنے کی اجازت نہیں تاکہ کہیں چھپا ہوا سچ اپنا بھیانک چہرہ سامنے لیکر بے نقاب نہ ہو جائے۔ بھارتی فوج مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کی عزت نفس کو کچلنے کیلئے جبری ریپ کو بھی نفسیاتی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ اس شرمناک جرم کے اعدادوشمار دل دہلا دینے والے ہیں۔
جہاں تک جان سے مار دینے کا تعلق ہے مقبوضہ کشمیر کے قبرستانوں کی آبادی، تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔ ایک لاکھ سے زائد حریت پسندوں کی قبریں۔ ہر قبرستان میں موجود ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا گھرانہ ہو جس کا کوئی قریبی عزیز جام شہادت نوش نہ کر چکا ہو یہ سب ہتھکنڈے چھوڑ کر اب بھارتیوں نے ایسا ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے وہ اپنا کام بھی کر گزرے اور بین الاقوامی قوانین کی زد میں بھی نہ آئے۔ 8 جولائی کو مظہر برہان وانی کی شہادت کے بعد، جب سے بپھرے ہوئے مشتعل کشمیری علم بغاوت بلند کر کے سڑکوں پر نکلے ہیں۔ اس دن سے بھارتی فوج چھروں والی بندوقیں استعمال کر رہی ہے۔

جولائی 2013ءمیں انسانی حقوق کی تنظیموں نے جموں و کشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور اس ہتھیار پر پابندی کی درخواست کی۔ لیکن بنچ میں موجود ہندو ججوں نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ بھارتی فوج ایسے کارتوس استعمال کرتی ہے جس میں بیک وقت وزنی چھ سو چھرے موجود ہوتے ہیں۔ یہ کارتوس غیر قانونی فاصلہ یعنی 50 گز دور سے چلائے جاتے ہیں۔ یہ چھرے جسم بالخصوص چہرے اور آنکھوں کو چھلنی کر کے رکھ دیتا ہے۔ لیکن جلد کے اندر نہیں گھستا۔ ان چھروں میں سیسہ اور دیگر مہلک دھاتیں استعمال کی جاتی ہیں۔ جن سے پھیلنے والا انفکشن آخرکار مضروب کو مار ڈالتاہے۔ بھارتی فوج نے 2010ءمیں امرناتھ یاترا کے موقع پر اس ہتھیار کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔ اب مودی حکومت کا حکم ہے کہ کشمیری مظاہرین پر پچاس کی بجائے 30 گز سے فائر کیا جائے۔ تحریک آزادی کشمیر کے اس نئے دور میں مجاہدین آزادی اپنے خون کے تیل سے حریت کے چراغ جلا رہے ہیں۔ تحریک میں آئے روز شدت پیدا ہو رہی ہے۔ چار ہزار کشمیری حریت پسند زخمی ہو کر ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔ لیکن آفرین ہے بھارت کے آزاد میڈیا پر جو ان قاتل چھروں کو ”بے ضرر“ قرار دیکر قاتل فوج کو کلین چٹ دے چکا ہے.
بشکریہ روزنامہ نئی بات

Comments

Click here to post a comment