غزوۂ خندق میں نبی کریم ﷺنے ایک نوعمر مجاہد کو بڑھ چڑھ کر لڑائی میں حصہ لیتے دیکھا تو طلب فرما کر تعارف پوچھا، جس پر وہ عرض گزار ہوئے: سعد بن حبتہ! نبی کریم نے انہیں خوش بختی و سعادت مندی کی دعا سے نوازتے ہوئے قریب ہونے کا حکم ارشاد فرمایا۔ سعد بن حبتہ قریب ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان کے سر پر اپنا دستِ بحر سماحت پھیرا۔ انھی صحابی رسول کی تیسری پشت میں نبوی دعا و برکت سے فیضیاب وہ شخصیت تشریف لائی جو اہلِ علم میں قاضی القضاۃ اور امام ابویوسف کی شناخت سے پہچانی جاتی ہے۔ ویسے تو امام ابو یوسف جیسی شخصیات تعارف کی محتاج نہیں ہوتیں کہ ”آپ اپنا تعارف ہوا بہار کی ہے“ البتہ ”ذکرِ حبیب کم نہیں وصلِ حبیب سے“ کے مصداق آپ کا مختصر تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
ذکرِ خیر: قاضی ابو یوسف کا نام یعقوب بن ابراہیم اورلقب قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) تھا، 93ھ میں پیدا ہوئے۔ قاضی ابویوسف فطری ذہانت اور شوقِ علم سے معمور تھے لیکن گھریلو حالات کی تنگدستی کی بنا پر والد محترم مجلسِ بو حنیفہ سے اٹھا کر مزدوری کے لیے لے جاتے، لیکن آپ پھر بھی مزدوری سے وقت اور والد صاحب سے نظر بچا کر مجلسِ بوحنیفہ میں کبھی کبھارحاضر ہو جاتے۔ مومنانہ فراست کی بنا پر شروع سے ہی امام اعظم اپنے طالبِ علم کی پیشانی میں فروزاں سعادت و عظمت کے آثار سے واقف ہو گئے تھے، ایک بار آپ طویل وقفے کے بعد حاضر ہوئے تو شفیق و حکیم استاد نے احوال جان کر نہ صرف حصولِ علم کی تاکید کی بلکہ تا بندوبستِ مستقل روزگار آپ کے لئے معاش کا انتظام بھی فرما دیا، قاضی ابویوسف فرماتے ہیں: امام اعظم نے مجھے سو درہم دیے اور فرمایا ختم ہونے پر مجھے بتا دینا، لیکن میں نے آپ کو کبھی بتایا نہیں اس کے باوجود ہر بار آپ کو پتہ نہیں کیسے میرے دراہم ختم ہونے کا علم ہو جاتا تھا کہ بنا کہے ہی مزید عنایت فرما دیتے۔
امام اعظم کی فقاہت اور شفقتوں نے آپ کو ان کا گرویدہ کر دیا تھا یہی وجہ ہے کہ آپ انتیس سال تک نمازِصبح کے بعد بلا ناغہ مجلسِ بو حنیفہ میں حاضر ہوتے رہے۔ دوسری شخصیت جن سے آپ نے خوب خوب استفادہ کیا وہ قاضی ابن ابی لیلیٰ تھے، ان دونوں کے متعلق آپ فرماتے تھے: دنیا کی جن مجلسوں میں مَیں بیٹھتا ہوں ان میں ابوحنیفہ اور ابن ابی لیلیٰ کی مجلس سے زیادہ پسندیدہ مجلس میرے نزدیک کوئی اور نہیں، کیونکہ ابوحنیفہ سے بڑا فقیہ مجھے کوئی نظر نہیں آتا اور ابن ابی لیلیٰ سے اچھا قاضی میری نگاہ میں کوئی اور نہیں، ان دو کے علاوہ مزید سو سے زائد مشائخ ہیں جن کا ذکر سوانح نگاروں نے آپ کے اساتذہ میں کیا ہے۔ جن علما و فقہا نے آپ سے استفادہ کیا ان کی تعداد بھی سو سے زائد بتائی جاتی ہے جن میں امام احمد بن حنبل اور علی بن مدینی جیسی شخصیات بھی شامل ہیں۔
دبستانِ بوحنیفہ کے فیض یافتگان کی تعداد آٹھ سو سے زائد بتائی جاتی ہے جن کے علمی مقام و مرتبہ کے متعلق یہ کہنا ”ایں خانہ ہمہ آفتاب است“ صد فی صد درست ہوگا کہ بعض ائمہ فرماتے ہیں: ”مشہور ائمہ اسلام میں کسی کے اصحاب اور تلامذہ اس پایہ کے نہیں ہوئے جس طرح کے ابوحنیفہ کے اصحاب اور تلامذہ تھے۔“ جبکہ قاضی ابویوسف ان سب میں ممتاز و منفرد تھے کہ امام اعظم کی رائے میں آپ کا شمار ان کے ایسے دو شاگردوں میں ہوتا تھا جو مرتبۂ قضا و افتا سے آگے بڑھتے ہوئے قاضی و مفتی گر بن چکے تھے یعنی قاضیوں اورمفتیوں کی تہذیب وتربیت اور تادیب کے اہل تھے (ان دو میں سے دوسرے شاگرد امام زفرتھے) ۔ ایک مرتبہ امام ابویوسف بیمار ہوئے تو امام اعظم مسلسل ان کی تیمار داری کے لئے تشریف لاتے رہے، ایک دن مرض کی شدت دیکھ کر فرمانے لگے: اپنے بعد مسلمانوں کے حق میں میری امیدوں کا مرکز تم ہی ہو، اگر لوگوں کو تمہاری جدائی کا صدمہ پہنچا تو بالقین تمہارے ساتھ علم کثیر فوت ہو جائے گا۔
تین عباسی خلفا کے عہد میں امام ابویوسف نےقضاکی ذمہ داریاں سرانجام دیں، اولاً خلیفہ محمدمہدی کے زمانۂ خلافت میں کچھ عرصہ، 169ھ میں اس کی وفات کے بعد موسی ہادی خلیفہ بنے جنہوں نے آپ کو منصبِ قضا پہ برقرار رکھا اور 170ھ میں ان کی وفات کے بعد ہارون الرشیدخلیفہ بنے تو انہوں نے آپ کے تجربے، فقہی لیاقت اور دینی بصیرت سے متاثر ہو کر نہ صرف منصبِ قضا پر برقرار رکھا بلکہ ترقی دیتے ہوئےآپ کو(3900000 مربع میل پر مشتمل) پوری اسلامی مملکت کا قاضی القضاۃ (چیف جسٹس) مقرر کر دیا، یوں 162 ھ سے 182ھ تک کل اکیس سال آپ منصبِ قضا پر فائز رہے۔
زمانۂ قضا میں آپ نے مدعی و مدعی علیہ کے مقام و منصب وغیرہ سے مرعوب ہوئے بغیر شریعت اسلامی کی روشنی میں اپنی فہم و فراست کے مطابق مبنی برحق فیصلے فرمائے، آپ کی مناجات منقول ہے کہ وقتِ وفات آپ بارگاہِ الٰہی میں عرض گزار ہوئے: مولا تو جانتا ہے کہ کسی قوی یا ضعیف کا مخاصمہ میرے پاس نہیں آیا کہ جس میں مَیں نے عدل و برابری سے کام نہ لیا ہو اور میرا دل قوی کی طرف مائل نہیں ہوا، اگر ایسا ہوا ہو تو مجھے بخش دے۔
آپ کی عدالت میں خاص و عام، شاہ و گدا ہر ایک کو یکساں حیثیت دی جاتی تھی ایک بار خلیفہ ہارون الرشید اور ایک یہودی کا مقدمہ آپ کے پاس آیا تو یہودی خلیفہ سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر بیٹھ گیا جس پر آپ نے فرمایا: خلیفہ کے برابر بیٹھو، عدالت میں کسی کو تقدّم نہیں، یہاں شاہ و گدا برابر ہیں۔
تصانیف: کتبِ سوانح میں قاضی ابو یوسف کی بے شمار کتب کا ذکر ملتا ہے لیکن ان میں سے ہم تک بہت کم پہنچی ہیں، آپ کی کتب کا مختصر تعارف پیش ہے:
کتاب الآثار : یہ کتاب گویا امام ابوحنیفہ کی مسند ہے جو قاضی ابویوسف اور ان کے فرزند یوسف کے توسط سے ہم تک پہنچی ہے، مزید اس کتاب میں فقہائے کوفہ کے فتاوی بھی شامل ہیں، یہ کتاب اس اعتبار سے بہت اہمیت کی حامل ہے کہ اس کے مطالعے سے فقہِ حنفی کی مستدل مرویات اور وجوہِ استدلال کا پتا چلتا ہے۔
اختلاف ابی حنیفہ و ابن ابی لیلیٰ : یہ کتاب ان مسائل پر مشتمل ہے جن میں قاضی ابو یوسف کے دونوں اساتذہ کرام امام اعظم اور قاضی ابن ابی لیلیٰ کی رائے باہم مختلف تھی، بعض کا کہنا ہے کہ کتاب ہذا کےمصنف قاضی ابو یوسف ہیں لیکن ترتیب و تہذیب اور اضافہ جات کرنے والے امام محمد ہیں جبکہ شیخ ابوزہرہ کے نزدیک یہ دعویٰ خلاف ظاہر ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ بالصواب عَزَّوَجَلّ
کتاب الرد علی سیر الاوزاعی : وہ جنگی قوانین جن میں امام اعظم اور امام اوزاعی کا باہمی اختلاف تھا اس کتاب میں قاضی ابویوسف نے ان کو جمع کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ اپنے استاد محترم امام اعظم کی حمایت و دفاع کا فریضہ بھی سرانجام دیا ہے۔
کتاب الخراج : قاضی ابویوسف کی یہ کتاب مملکت کے مالیاتی قوانین پر مشتمل ہے، جس کا مفصل تعارف آگے چل کر آپ پڑھیں گے۔
ان کے علاوہ قاضی ابویوسف کی مزید تصانیف مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) کتاب الصلوٰۃ (۲)کتاب الزکوٰۃ (۳) کتاب الصیام (۴) کتاب الفرائض (۵) کتاب البیوع (۶)کتاب الحدود (۷)کتاب الوکالۃ (۸)کتاب الوصایا (۹) کتاب الصید والذبائح (۱۰)کتاب الغصب والاستبراء (۱۱)کتاب اختلاف الامصار (۱۲)کتاب الرد علی مالک بن انس (١٣)کتاب الجوامع۔
ربیع الاول 182ھ کو بغداد میں ہارون الرشید کے زمانۂ خلافت میں قاضی ابو یوسف کی بحالتِ عہدۂ قضا وفات ہوئی، بغداد کے علاقے کرخ میں واقع قرشی قبرستان میں ام جعفر زبیدہ کے قریب دفن کیے گئے۔
خلیفہ ہارون الرشید بنفسِ نفیس جنازے میں شریک ہوئے تھے اور جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی تھی تدفین کے بعد کہنے لگے : تمام مسلمانوں کو ایک دوسرے سے تعزیت کرنی چاہیے (کیونکہ قاضی ابویوسف جیسی شخصیت پوری امت کا سرمایہ ہوتے ہیں جن کی جدائی بھی امت کا مجموعی نقصان شمار ہوتی ہے)۔
کتاب الخراج
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی:
اسلامی نظریہ کے مطابق دین و ریاست دو جداگانہ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں کا آپسی گہرا تعلق ہے اور سربراہِ مملکت اسلامیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنی اقلیم میں اسلامی احکامات و اقدار کے فروغ اور نفاذ کے لئے کوشاں رہے۔ چودہ سو سال پہلے اللہ جل مجدہ نے آیت مبارکہ ﴿اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِؕ وَ لِلّٰهِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْر﴾ ”وہ لوگ کہ اگر ہم اُنہیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو نماز قائم رکھیں، زکوٰۃ دیں، نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔“ نازل فرما کر سربراہِ مملکت کی ذمہ داریوں کو بیان کر نے کے ساتھ ساتھ اس نظریے کی بطالت بھی ظاہر فرما دی کہ ”ریاست و دین دو جداگانہ چیزیں ہیں، دین کا ریاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ اسلام ایسی کسی جدائی کی اجازت دینا تو دور اسے نظامِ سلطنت میں بگاڑ کا سبب گردانتا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ ہے: ”جب مسلمان حکمران اللہ کے قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے اور اللہ کے احکامات کو بطورِ قانون اختیار نہیں کرتے تو اللہ ان کے درمیان جنگ و جدل رکھ دیتا ہے۔“
یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث اور سیرتِ صحابہ میں اسلامی طرزِ حکومت کے جو نمایاں نقوش ملتے ہیں فقہائے کرام رحمہم اللہ السَّلام نے ان کی روشنی میں اسلامی حکمرانی کے نہ صرف اصول و ضوابط مقرر کئے بلکہ حکمرانوں کی انفرادی و اجتماعی تمام تر ذمہ داریوں کو بھی مفصّلاً بیان کیا ہے۔عہدِ رسالت مآب ہو یا خلافت راشدہ یہ انہی اصول و قوانین کی عملی صورت ہی تھی جو نہ صرف یہ بتاتی ہے کہ ریاست کے حوالے سے اسلامی لائحۂ عمل صرف اور صرف ٹیبل ٹاک کی حد تک کوئی دانشورانہ بحث نہیں ہے بلکہ عملی اظہار کی صلاحیت بھی رکھتا ہے اور اسلام ہی وہ واحد کامل دین ہے جو کسی بھی ریاست کی اخلاقی، مالی اور فلاحی کامیابی کے لئے ایک بہترین دستور العمل Code of Lawsفراہم کرتا ہے۔
گفتار میں، کردار میں، اللہ کی برہان:
خاتم النبیین ﷺ سے بلا واسطہ فیض یابی کے باعث صحابۂ کرام علیہمُ الرضوان نورِ ایمانی کی دولت سے منوّر تھے اس لئے منصب حکمرانی، فتوحات و غنائم کی فراوانی غرض کوئی شے بھی انہیں مقصد حقیقی (اطاعتِ خدا و رسولِ خدا) اور ”اللہ کی زمین پر اللہکا نظام“جیسے نظریے سے روگردانی پہ مجبور نہ کر سکی، تاریخِ عالم ایسی اعلیٰ مثالیں پیش کرنے سے قاصر ہوگی کہ پچیس لاکھ گیارہ ہزار چھ سو پینسٹھ مربع پہ حکومت کرنے والے حکمران کے لباس پہ پیوند لگے ہوئے ہیں اور اینٹ اس کا تکیہ ہے، اس عظیم الشان سلطنت کے گورنروں کا نام مستحقینِ صدقہ میں سرِ فہرست ہے، جس کے گورنروں کو پروٹوکول کے نام پہ عوام سے دوری اختیار کرنے پہ ہی معزول کرکے چڑواہا بنا دیا جاتاہے۔
قوم کے ہاتھ سے جاتا ہے متاع کردار:
لیکن جوں جوں زمانۂ رسالت مآب سے دوری آتی گئی توں توں منصب و دولت کی تند و تیز ہواؤں کے باعث اس شمعِ ایمانی کا نور مانند پڑتا گیا۔ اموی دور سے ہی حکمرانی ذریعۂ بد عنوانی بن چکی تھی بیت المال ذاتی ملکیت اختیار کر چکا تھا اور اوقاف‘ شخصی پراپرٹی تسلیم کیے جانے لگے، عباسی دور کے حکمران بھی اسی روش پہ قائم رہے، عموماً سرکاری اہلکاروں کے احتساب کا کوئی طریقہ کار رائج نہ ہونے کی وجہ سے ان کا عوام کے ساتھ رویہ غیر اسلامی و اخلاقی تھا خراج (غیر مسلموں سے ٹیکسز وغیرہ) کی وصولیابی میں سختی برتنا، شرعی محاصل کے علاوہ اور بہت سی ناجائز آمدنیاں لینا، اقربا پروری جیسی بدعات حکمرانی کا لازمہ بن چکی تھیں۔
مِلا چمن کو سبق آئین نمو کا:
ربیع الاول 170ھ میں خلیفہ ہارون الرشید کو مسندِ خلافت پہ متمکن ہونے کے بعد ان سب برائیوں کا علم اور احساس ہوا تب انہوں نے امورِ سلطنت سے قاضی القضاۃ ابو یوسف علیہ الرحمۃ کی قربت و آگاہی اور ان کے علمی مقام و مرتبہ کو دیکھتے ہوئے ان برائیوں کی اصلاح کے لئے آپ سےایک دستور و مجموعہ ہائے قوانین مرتب کرنے کی فرمائش کی جس کی روشنی میں کارِ حکمرانی ترتیب دیا جائے یہ مجموعۂ قوانین آج بھی ”کتاب الخراج “ کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہے۔
کتاب کے ابتدائی ابواب چونکہ اراضی اور لگان سے متعلق ہیں اور اس موضوع کو مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے تو اسی مناسبت سے کتاب کا نام ”کتاب الخراج“ رکھا گیا ہے۔ لیکن کتاب کا بنیادی موضوع صرف خراج ہی نہیں ہے بلکہ وہ معاملات بھی ہیں جو حکومت اور رعایا کے باہمی تعلق سے جڑے ہوئے ہیں جن کا حکومت کے انتظام اور پالیسی سے تعلق ہوتا ہے جیسے نظامِ آب پاشی، انتظامِ محصولات، فوجداری قوانین، قوانینِ لگان، قوانینِ اراضی، مسلم ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے فرائض و حقوق اور ریاست کا ان سے برتاؤ وغیرہ البتہ ضمنی طور پہ اس کے علاوہ بھی کئی معاملات امام ابو یوسف زیرِ بحث لائے ہیں جیسے سرکاری اہل کاروں کے احتساب کا طریقہ کار، ان کی ذمہ داریاں اور پابندیاں، قیدیوں کے حقوق وغیرہ۔
کتاب کا علمی مقام و مرتبہ:
ویسے تو مصنفین نےابن رجب حنبلی، ابو الفرج قدامۃ، حسن بن زیاد حنفی اور یحیی بن آدم قریشی علیہمُ الرحمۃ کی کتب سمیت تقریباً بیس کتب کے نام گنوائے ہیں جو خراج کے عنوان پہ لکھی گئی تھیں، بعض طویل اور بعض مختصر لیکن امام ابو یوسف کی کتاب ان سب میں کئی حوالوں سے ممتاز و منفرد ہے۔ ڈاکٹر علی اوزاک ”کتاب الخراج“ کی انفرادیت کے حوالے سے کہتے ہیں: ”یہ کتاب خلیفہ کے لئے وعظ و نصیحت پہ مشتمل ہونے کے علاوہ، انتظامی، مالیاتی ، سیاسی اور اجتماعی معاملات سے متعلقہ بیشتر سوالات کو گھیرے ہوئے ہے، پھر ان تمام مسائل کے مناسب شرعی و اجتہادی حل بھی بتاتی ہے، یہ وہ چیزیں ہیں جن سے دیگر کتب خالی ہیں، پھر قاضی ابو یوسف نے اسلوب بھی بالکل جدا اختیار کیاہے کہ وہ کسی بھی جدید مسئلہ (کے حکم) کی بنیاد ترتیب وار حکمِ رسول، حکمِ فاروقی پہ رکھتے ہیں، اس پر اطلاع نہ ہونے کی صورت میں امام اعظم ابو حنیفہ و ابن ابی لیلیٰ کی آراء پہ اعتماد کرتے ہیں ، ان سب کو دیکھنے کے بعد بھی حکم نہ ملے تو اجتہاد کرتے ہیں۔“ حاجی خلیفہ کہتے ہیں: ”ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ قاضی ابو یوسف کا پیش کردہ ریاستی دستور آج بھی انتظامی اور مالیاتی معاملات کے حل کی صلاحیت رکھتا ہے، ریاست اسلامیہ کے امور کے نظم و نسق کے لئے یہ ایک کامیاب دستور ہے، جس پہ عمل کے ذریعے ریاست اسلامیہ پھر سے تمام عالَم کے لئے بہترین مثال ہوگی جیسا کہ ماضی میں تھی اور یوں مسلمان اس مغربی نظام سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے جو اپنے دامن میں مخالفِ اسلام قوانین سموئے ہوئے ہے۔“ فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال پوچھا گیا کہ ”ہمارے یہاں سب سے زیادہ کون کون سی کتابیں معتبر ہیں؟ کے جواب میں لکھتے ہیں: ہمارے یہاں قرآن عظیم کے بعد حدیث میں صحیحین اور سننِ اربعہ، مسانید امام اعظم ، مؤطا و کتاب الآثار امام محرر، کتاب الخراج امام ابویوسف۔ ان سب پر مستزاد یہ کہ کتاب پہلی دو صدیوں کی جنگی و سیاسی تاریخ سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے۔ساتھ میں یہ کتاب اپنے زمانے کے اقتصادی اور انتظامی حالات کا بھی آئینہ ہے جس میں اس زمانے کے سرکاری اہل کاروں اور منتظمین کی خامیوں اور کوتاہیوں کا واضح عکس دکھائی دیتا ہے۔
کتاب کی پہلی ممتاز و منفرد خوبی جو شمار کروائی گئی یعنی ”خلیفہ کے لئے وعظ و نصیحت“ اس کا جائزہ لیا جائے تو ابتدائے کتاب میں مقدمہ میں امام ابو یوسف نے احادیث و اقوالِ صحابہ بالخصوص خلفائے راشدین کی روشنی میں حکمران اوررعایا کی ذمہ داریاں گنوائی ہیں، حکمران کی ذمہ داریاں گنواتے ہوئے امام ابو یوسف نے اثر انگیز الفاظ میں خلیفہ کو راست بازی اور رعیت پروری کی ہدایت کی ہے، امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ پہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کی مثالیں پیشِ نظر ہونے کے باوجود آپ نے کتاب میں جس طرح جلیل القدر مطلق العنان خلیفہ کو ان کے سوالات کے جوابات لکھے اور خلیفہ کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے صاف پتہ چلتا ہے کہ امام ابویوسف نے نصیحت و قضا کا حق ادا کردیا ہے اور اس حدیثِ رسول کی عملی تشریح پیش کردی کہ ” دین‘ اللہ، کتاب اللہ، رسول اللہ ، اسلامی بادشاہوں اور مسلمانوں سے خیرخواہی کرنے کا نام ہے۔“
قاضی ابو یوسف لکھتے ہیں:”خدا نے مسلمان قوم کو آپ کی فرمانروی میں دے دیا ہے اور ان کی بہبودی کا بار آپ کے کاندھوں پر ڈالا ہے۔“
”آپ کی صبح و شام بہت سے انسانوں کی تعمیرِ حیات کے لئے وقف ہو گئی ہے اور ہر وہ عمارت جس کا سنگِ بنیاد خوفِ الہی کے علاوہ کسی اور اصول پر قائم ہو پائندہ نہیں ہوتی، بہت جلد خدا اس عمارت کو بنانے والے کے سر پر گرا دیتا ہے۔ لہذا رعیت کی دیکھ بھال کا جو منصب آپ کو دیا گیا ہےاسے ناخدا ترسی یا بے توجہی سے ضائع نہ ہونے دیجئے۔“
”خوف خدا یہ ہے کہ دل میں اس کا احساس زندہ ہو اور آپ کے ہر کام میں اس کی جھلک نظر آئے۔“
” امیر المؤمنین !وہ وقت نہ بھولئے جب خدا کی بھری مجلس میں تمام اعمال کی نقاب کشائی ہوگی جو آپ نے درپردہ کئے ہوں گے، خدا کی نظر میں تعمیری اور اصلاحی کاموں سے بہتر کوئی کام نہیں اور تخریب و فساد سے بدتر کوئی کام نہیں۔“
یہ چند اقتباسات بتا رہے ہیں کہ امام ابو یوسف نے اپنے استاد محترم امام اعظم کی وصیت کا ”حق بیان کرنے میں کسی کے رُعب میں نہ آنا اگر چہ بادشاہ ہی کیوں نہ ہو۔“ خوب پاس رکھا مزید یہ کہ یہ نصائحِ یوسفیہ آج کے حکمرانوں کے لئے بھی اتنی ہی مفید ہیں جتنی کہ ماضی میں تھیں۔
امام ابویوسف نے ہر ہر سوال کا تفصیل سے جواب دیا ہے، نفسِ جواب بیان کرنے کے بعد اس کی تائید میں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، صحابۂ کرام یا تابعین رضی اللہ عنھم اجمعین کے قول و فعل کو بہ طورِ سند پیش کرتے ہیں۔ حدیثوں کے انتخاب میں امام ابویوسف کا طرزِ عمل یہ ہے کہ جو انہیں اسلامی نظریات سے ہم آہنگ معلوم ہوتی ہیں اکثر وہی حدیثیں پیش کرتے ہیں۔ جہاں تک صحابہ کے قانونی اقوال کا تعلق ہے تو اکثر انہی صحابہ کرام کے اقوال پیش کئے ہیں جن کا تعلق کارِ حکومت و خلافت سے تھا یعنی خلفائے راشدین ، یوں ہی اموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز کے اقوال و آراء سب سے زیادہ قانونی سند کے طور پر بیان کئے ہیں۔تابعین میں سے انہیں محدثین کی آراء کو نقل کرتے ہیں جو عموماً سبھی کے نزدیک معتبر و مستند ہیں مثلا حضرات حماد، ابراہیم، ابن ابی لیلی، شعبی، امام مالک، نافع، سعید بن مسیب وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین۔ کتاب میں ڈیڑھ سو سے زائد احادیث نبوی اور صحابۂ کرام و تابعین کی ساڑھے تین سو قانونی آراء بیان کی گئی ہیں۔( )
مالیہ (ٹیکسز وغیرہ) کی وصولیابی کے لئے امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ نے کتاب میں ہر جگہ یہی تلقین کی کہ عوام کی قوت برداشت کو پیش نظر رکھا جائے طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالا جائے اور کسی قسم کی مقدار کے تعین میں ریاست اور عوام دونوں کی فلاح و آسانی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک کی خاطر دوسرے کے استحصال سے بچا جائے۔ یوں ہی مالیہ کی وصولیابی میں آپ ٹھیکہ دارانہ On Contract نظام سے منع کرتے ہیں کیونکہ ٹھیکیدار کا مقصد صرف مالیہ کی وصولیابی ہوتی ہے جس کے لئے وہ ہر قسم کا ظالمانہ طرزِ عمل روا رکھتےہیں اور کبھی کبھار عوام سے زیادہ بھی وصول کرتے جبکہ سرکاری خزانے تک کم پہنچاتےہیں مجموعی طور پر امام کے نزدیک ریاست و عوام کے بیچ ایسا کوئی بھی واسطہ ریاستی اور عوامی فلاح و بہبود کی ضد ہے۔
رفاہ عامہ سے متعلق بڑے بڑے پراجیکٹ کے حوالے آپ یہ اصول دیتے ہیں کہ صرف کسی درخواست پہ وہ پراجیکٹ نہ شروع کر دیا جائے بلکہ پہلے کسی صادق و امین اور اہل شخص کی ذمہ داری لگائی جائے کہ وہ اس پراجیکٹ کی جزئیات پہ خوب غور و خوض کرتے ہوئے فوائد و نقصانات کا تعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس پہلو کو بھی سامنے لائے کہ یہ واقعی عوامی و اجتماعی فائدے کے لئے ہے یا عوام کی آڑ میں کوئی انفرادی فائدے حاصل کرنا چاہ رہا ہے جب سب طرح سے شفافیت پائی جائے تب اس پراجیکٹ کو سرکاری خزانے سے شروع کیا جائے۔ اس کے بعد پراجیکٹ وغیرہ کا ٹینڈر بھی سفارشی بنیادوں پر نہیں بلکہ اہلیت و دیانت داری کی بنیاد پر دیا جائے اور شروع ہونے کے بعد کراس چیکنگ کا نظام بنایا جائے یعنی پراجیکٹ بنانے والوں پہ ایک ذمہ دار شخص متعین کیاجائے جو وقتاً فوقتاً معاینہ کرتا رہے تاکہ کمی کوتاہی کا فی الفور بندوبست کیا جا سکے۔
اقربا پروری، سفارش کلچر اور کرپشن ایسی چیزیں ہیں کہ جس قوم میں گھر کر جائیں تو وہ تحت الثریٰ تک پھسلتی چلی جاتی ہے، کرپشن ثابت ہونے پر قاضی ابویوسف منصب سے معزولی کے علاوہ مال کے ضبط کی تجویز دیتے ہیں بصرہ کے قاضی کے متعلق خبریں گردش میں تھیں کہ وہ بے نامی زمینوں کو اپنے ایجنٹوں کے ساتھ مل کر ان سے منافع حاصل کر رہا ہے تو امام صاحب نے امیرالمومنین کو محکمانہ تفتیش و کاروائی کی رائے دیتے ہوئے جرم ثابت ہونے پر منصب سے معزولی کے علاوہ حاصل شدہ مال بیت المال میں جمع کرنے کا کہا۔ جبکہ سرکاری عہدے میں تقرری کے حوالے سے اقربا پروی اور سفارش وغیرہ سے دور رہتے ہوئے خالص اہلیت اور دیانت کو تقرری کی بنیاد قرار دیتے ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں : ٹیکس کی وصولی پہ عالم فقیہ و امین ہونا چاہئے جو اہل رائے سے مشورے بھی کرے۔جو شخص چند دنوں تک کسی والی کے در سے چمٹ جاتا ہے اس کو مسلمانوں کی گردن پہ سوار کر دیا جاتا ہے خواہ اس کے اخلاق، پاکدامنی اور سلامت روی کاکوئی علم نہ ہو۔
کتاب میں جگہ بہ جگہ اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کے حقوق کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے ان سے حسن سلوک، ٹیکسز کی وصولی میں بے جا ظلم و ستم اور زیادتی سے بچا جائے۔
صحافت کو چوتھا ریاستی ستون کہا جاتا ہے، ریاست اور معاشرے کے بگڑنے یا سنورنے میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے، قاضی ابو یوسف اس حوالے سے لکھتے ہیں: مجھ کو یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ سرکاری خبر رساں خبروں میں بے احتیاطی کرتے ہیں اور حکام اور رعایا کے جن حالات سے ان کو واقف اور باخبر ہو نا چاہئے ان سے بے توجہی کرتے ہیں رعایا کے معاملات میں حکام کے ساتھ ہو جاتے ہیں اور ان کی زیادتیاں اور صحیح خبریں چھپاتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو والی اور عمال ان کو راضی نہیں رکھتے ہیں ان کے متعلق غلط خبریں دیتے ہیں ان امور کی پوری تحقیقات ضروری ہے اس جگہ کے لئے ہر شہر اور آبادی کے عادل اور ثقہ لوگوں کا انتخاب کرنا چاہئے اور بیت المال سے ان کو تنخواہ ملنی چاہئے کسی غیر عادل خبررساں کی اطلاع کو قبول نہ کرنا چاہئے اس کا اہتمام ضروری ہے کہ خبر رساں رعایا اور حکام کی کوئی خبر نہ چھپانے پائیں اور نہ اس میں اپنی جانب سے کوئی اضافہ کریں ایسا کرنے والوں کو سزا دی جائے، قضاۃ والیوں اور دوسرے عہدہ داروں پر خبررسانوں کی نگرانی ضروری ہے لیکن جب تک وہ عادل اور ثقہ نہ ہوں ان کی بھیجی ہوئی اطلاعات قبول نہ کی جائیں۔
افراط کے شکار معاشرے قیدیوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی نظر میں اپنے جرم کی بنا پر وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں گردانے جاتے جبکہ متوازن معاشرے نفرت مجرم سے نہیں جرم سے ہونی چاہئے جیسی سوچ اپناتے ہیں، امام ابو یوسف نے بھی قیدیوں کے حقوق کے متعلق خصوصی توجہ فرمائی اور ان کے طعام و لباس کی ذمہ داری ریاست پر ڈالنے کے علاوہ یہ نصیحت کرتے ہیں کہ چھوٹے موٹے جرائم پہ ہلکی پھلکی تعزیر دینے کے بعد فوری رہائی جبکہ بڑے جرائم پہ جلد از جلد مقدمات نپٹائے جائیں۔
مجموعی طور امام ابو یوسف اپنی کتاب کے ذریعے ایک فلاحی ریاست کا جامع تصور پیش کرتے ہیں جس میں جس طرح عوام کی مادی اور معاشی بہبود، ان کو ظلم و جور سے بچانا اور آزادی کے ساتھ زندگی بسرکرنے کے مواقع فراہم کرنا شامل ہے اسی طرح ان کی اخلاقی تربیت اور روحانی تطہیر کا اہتمام بھی شامل ہے۔
کتاب الخراج کے تراجم:
مختلف زمانوں اور زبانوں میں کتاب کاترجمہ ہونا بھی اس کی اہمیت واضح کرتا ہےچنانچہ صرف ترکی زبان میں دولتِ عثمانیہ کے زمانے میں تین بار اس کا ترجمہ کیا گیا، ایک ترکی ترجمہ تدوسلی زادہ محمد آفندی (المتوفی1113ھ) کا ہے جس کا مخطوطہ اسعد آفندی لائبریری میں موجود ہے، جبکہ دوسرا ترکی ترجمہ حلب کے گورنر ”حسین جمیل پاشا“ کی فرمائش پہ ”استاد عطاء اللہ“ نے کیا تھاجو بعد میں سلطان عبدالحمید الثانی کو پیش کیا گیا۔ ترکی ترجمے کا ایک مخطوطہ استنبول لائبریری میں موجود ہے جس پہ مترجم کا نام نہیں لکھا۔ جامعۃ مرمرا استبول کے ڈاکٹر “E. FAGNAN” نے کتاب کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا جو سن 1921ء میں چھپا تھا ۔ سوانح امام اعظم ابو حنیفہ کے مؤلف شاہ ابو الحسن زید فاروقی کے مطابق ”کتاب الخراج“ کا اردو ترجمہ ”جائزے“ کے نام سے دہلی یونیورسٹی کے عربی کے سابق پروفیسر جناب خورشید احمد فاروق نے بھی کیا ہے، درحقیقت فاروقی صاحب کو تسامح ہوا ہےپروفیسر صاحب نے مکمل کتاب الخراج کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ اپنی مشہور کتاب”جائزے“ جس میں وہ مختلف کتب پہ تجزیہ و تبصرہ کرتے ہیں میں ”کتاب الخراج“ پہ بھی تبصرہ لکھا ہے اور اسی دوران انہوں نے کتاب کے چند اقتسابات کا ترجمہ بھی کیا ہے۔ البتہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی نے کتاب الخراج کا اردو ترجمہ ”اسلام کا نظامِ محاصل“ کے نام سے کیا تھا جو1966ء میں کراچی پاکستان سے چھپا تھا۔
تبصرہ لکھیے