ہوم << ”وہ لوگ “ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

”وہ لوگ “ جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

میانوالی کے رہنے والے سید وقاص جعفری خوبصورت نستعلیقی لہجے میں لکھنوی اردو بولتے ہیں ۔ ان سے چالیس سالہ پرانا تعلق ہے ۔ سنہرے ماضی کے اچھے دنوں کے خوبصورت ساتھی ہیں۔ آج کل پاکستان کی سب سے بڑی رفاہی تنظیم “الخدمت “ کے روح رواں ہیں۔ میں کوئی تیس سال پہلے پاکستان سے بیرون ملک منتقل ہوا تو ان سے رابطہ بھی عارضی طور پر منقطع ہو گیا۔ لیکن ان کی سرگرمیوں کی خبر یں ملتی رہیں ۔ ہم بیرون ملک روزگار کی تلاش میں در در پھرتے رہے اور وہ اپنے عظیم مقصد اور مشن سے جڑے دکھی انسانوں کے دکھوں کا پالن کرتے رہے۔

ایک دن پروفیسر اشتیاق احمد گوندل کی بہت خوبصورت تحریر پڑھی ۔ پتہ چلا کہ وقاص بھائی صاحب کتاب بھی ہو گئے ہیں ۔ ان کے پیدائشی نستعلیقی لہجے، ان کے خاندانی ادبی پس منظر اور علمی و ادبی صلاحیتوں کی وجہ سے یہ خطرہ تو بہت پہلے سے موجود تھا کہ وہ ایک دن کتاب ضرور لکھیں گے لیکن اس کی توقع نہیں تھی کہ وہ اتنی دیر سے لکھیں گے ۔ انہوں نے دیر سے کتاب لکھی لیکن کیا خوب لکھی ہے۔ پروفیسر اشتیاق گوندل صاحب کی تحریر دیکھ کر یہ کتاب پڑھنے کا اشتیاق بڑھ گیا ۔

۳۱ جنوری کو گورنر ہاؤس میں میری کتاب ” زبان یار من ترکی “ کی تقریب رونمائی تھی ، جس کے لئے میں پاکستان آیا ۔ کتاب لاہور بک فئیر میں لوگوں کی توجہ کا باعث بن گئی۔ اس نوآموز کی کاوش کو جو عزت ملی ، اس کی توقع تھی اور نہ امید ۔ اور نہ اتنی اوقات تھی ۔ اگلا سارا ہفتہ اس کتاب کی مصروفیات کی نذر ہوگیا ۔ لاہور میں محترم اظہر اقبال حسن کے گھر امیر محترم سراج الحق صاحب سے بھی ملاقات ہو گئی ۔

میری کتاب کی تقریب رونمائی کے سلسلے میں ہونے والی قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن کی تقریب میں پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق گوندل صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا. ان سے بھی کوئی تیس پنتیس سال بعد ملاقات ہوئی، لیکن وقاص جعفری صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ پھر والدہ کا شکوہ بھرا فون وصول ہوا تو سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر سرگودھا اپنے گھر پہنچ گیا ۔ ابھی گھر پہنچے کوئی گھنٹہ ہی ہوا تھا کہ وقاص جعفری بھائی کا پیغام آگیا . انھوں نے اگلے دن لاہور میں ادبی ستاروں کی ایک کہکشاں سجائی تھی، جو جہلم بک کارنر والے شاہد گگن اور امر گگن کے اعزاز میں تھی۔ ان کی محبت بھری دعوت ملی اور چونکہ ایک عرصے سے ملاقات کی طلب تھی ۔ تو انکار نہ کر سکا اور اگلے ہی دن والدہ سے اس وعدے کے ساتھ اجازت لی کہ شام کو لوٹ آؤں گا ۔ اور ایک بار پھر چھوٹے بھائی رضوان بھٹہ کے ساتھ لاہور پہنچ گیا ۔

گلبرگ کے نینڈو Nando’s میں یہ محفل سجی تھی ۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت شخصیت موجود تھی ۔ اور سب ہی صاحب کتاب تھے ۔ ڈاکٹر مشتاق مانگٹ ، شعیب بن عزیز ، آپاسلمہ اعوان ، عباس تابش سب ہی وہ لوگ تھے جن سے ملاقات کی خواہش عرصے سے دل میں بسی تھی۔ ہم خیال ہم مزاج عامر خاکوانی صاحب بھی موجود تھے، جن سے مل کر ہمیشہ یہ لگتاہے کہ ہمارے دل کی ترجمانی کرتے ہیں۔ وقاص جعفری کے چھوٹے بھائی پارہ صفت دلکش شخصیت کے مالک عامر جعفری سے بھی شرف ملاقات حاصل ہوا ۔ یہیں ایک ایسی شخصیت سے بھی ملاقات ہوئی ۔ جنہیں آنکھوں کی پلکوں میں بسائے ہم جوان ہوئے تھے اور پھر بالوں میں چاندی بھی آگئی تھی لیکن وہ ویسی کی ویسی ہی تھیں۔ تھوڑی دقت ضرور ہوئی انہیں پہچاننے میں ۔ لیکن جب پہچانا تو پھر ایسا پہچانا کہ ماضی کی کہکشاں سے یادوں کی ایک بارات در آئی۔ انہیں دیکھ کر دکھ بھی ہوا کہ وہ ابھی تک اسی طرح ہیں جیسے پچاس سال پہلے تھیں ۔ اور ہم ماضی کی بہار میں اپنی طرح کے پیلے پتے تلاش کر رہے تھے ۔ شعیب بن عزیز تشریف لائے تو وہ بھی اسی دکھ میں مبتلا نظر آئے جس کا انہوں نے ایک بڑے خوبصورت شعر کے ذریعے برملا اظہار بھی کر دیا ۔ انہوں نے ماہ پارہ صفدر کو دیکھتے ہی کہا

دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن
عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے

کھانے پینے کی اس محفل میں کھانا پینا کم تھا اور کتابوں کی باتیں زیادہ تھیں ۔ پھر کتابوں کے تبادلے ہوئے تو ماہ پارہ صفدر کی کتاب ” میرا زمانہ میری کہانی “ ڈاکٹر مشتاق مانگھٹ کی کتاب ”پھر چلا مسافر “ عامر جعفری کا سفر نامہ ” ہنگام سفر “ زبان یار من ترکی کے عوض میرے حصے میں آئی۔ یہ سودا مہنگا نہ تھا۔ یہ ساری کتابیں اتنی خوبصورت ہیں کہ ہر کتاب اس کی مستحق ہے کہ اس پر ایک علیحدہ مضمون لکھا جائے ۔ اور ان پر تبصرہ اس نو آموز پر ادھار ہے ۔


ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ سید وقاص جعفری سے کتاب وصول کرتے ہوئے

لیکن ان سب سے زیادہ خوشی جس کتاب کو حاصل کر کے ہوئی ۔وہ وقاص جعفری کی کتاب “ وہ لوگ “ تھی ۔ اس کو ہاتھ میں لیتے ہی وہ احساس ہوا جو ان کی جپھی سے ہوتاہے ۔ ان کی فسوں ساز شخصیت کی طرح خوبصورت کتاب انہی کی طرح نرم ، گرم ، پرجوش اور جذبات سے بھری لگی ۔ محفل ختم ہوئی تو میں سرگودھاواپس پہنچ گیا ۔ ساری کتابیں موجود تھیں لیکن “ وہ لوگ “ غائب تھی۔ بہت تلاش کی لیکن اسے نہ ملنا تھا نہ ملی ۔کتاب تو بک کارنر والوں سے خریدی جا سکتی تھی لیکن وہ خوبصورت الفاظ کہاں سے لاتا جو انہوں نے ” اچھے دنوں کے خوبصورت ساتھی “ کے لئے لکھے تھے ۔ ابھی دکھ کے لمحات بیتے نہیں تھے کہ شعیب بن عزیز صاحب کا پیغام آگیاکہ میرے نام لکھی ”وہ لوگ “ غلطی سے ان کے ساتھ چلی گئی تھی، انہوں نے میرا پتہ معلوم کیا اور کمال شفقت سے وہ کتاب مجھے ٹی سی ایس کر دی اور یوں میرا گم گشتہ خزانہ مجھے کل واپس مل گیا. ڈاک والا لفافہ کھول کر کتاب کو ہاتھ میں لیا تو وقاص جعفری کی محبت بھری جماعتی جپھی ایک بار پھر یاد آگئی. وہی احساس ، وہی نرمی ، وہی جذبات اور خلوص جو جعفری صاحب کی شخصیت کا خاصہ ہیں ان کی کتاب میں بھی نظر آئے ۔ کتاب پڑھنی شروع کی تو ایک دن میں ہی ختم کر ڈالی اور پھر افسوس ہوا کہ اتنی جلدی کیوں ختم کی ۔ اسے تو پرانی شراب کی طرح ٹھہر ٹھہر کر جرعہ جرعہ پینا چاہیے تھا ۔

خاکوں پر مبنی اس کتاب کا ہر خاکہ لاجواب ہے ۔ ان میں اکثریت ان کی ہے جن سے میں کبھی نہیں ملا لیکن اس کتاب کو پڑھ کر مجھے دکھ ہوا کہ میں ان سے کیو ں نہیں ملا ۔

پہلا خاکہ مرشد کے بارے میں ہے جس کے فہم وفراست اور تحریروں نے دور طالب علمی میں دین کی سمجھ بوجھ عطا کی ۔ اسلام کے بارے میں جو تھوڑی بہت آگہی ہے انہی کے طفیل ہے ۔اسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوا جیسے میں اپنے پیرومرشد مولانا مودودی رحمت اللّہ علیہ کے روبرو موجود ہوں جو یقیناً “ میرے عہد کے قد آوروں میں سب سے زیادہ قد آور” ہیں ۔ اس کتاب نے ہمیشہ کی طرح میرے زخم تازہ کر دئیے ہیں جو اپنے مرشد کے دیدار سے محرومی کی وجہ سے لگے ہیں جب بھی ۱ ذیل دار پارک اچھرہ جانا ہوتا تھا مولانا کی قبر پر فاتحہ کے بعد ان سے یہ یہی گلہ کرتا تھا کہ آپ اتنی جلدی کیوں چلے گئے.

ہم نے کس دور میں کھولی ہیں ظہوری آنکھیں
ان کو دیکھا نہ انہیں دیکھنے والا دیکھا

مگراس کتاب میں ان کے بارے میں پڑھ کر کچھ یوں لگا جیسے اس کتاب نے ان زخموں پر کچھ مرہم کا سامان بھی کر دیا ہے ۔ میں ان کے روبرو بیٹھا رہا ۔ انہیں دیکھتا رہا انہیں سنتا رہا ۔

لیکن ابھی ان کے دیدار سے آنکھیں سیر نہ ہو پائی تھیں کہ ”گفتار میں کردار میں اللّہ کی برہان “ والا دبنگ قاضی حسین احمد سامنے آجاتا ہے ۔ ” ظالمو ! قاضی آ رہا ہے “ کی گونج کانوں میں گونجنے لگتی ہے ۔ میں سنہرے دور کے ان حسین لمحات میں پہنچ جاتا ہوں جہاں میں بھی کئی بار ان کے اس قافلے کی گرد بنا تھا جو پورے پاکستان کو اپنی لیپٹ میں لیتا ہوا اہل اقتدار کے ایوانوں میں زلزلے کا باعث بن گیا تھا۔

ابھی ” ظالمو ! قاضی آ رہا ہے “ والے نعرے کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ منور حسن نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے جس نے آج سے دس سال پہلے وہ بات کہی تھی جو آج پاکستان کے ہر فرد کی زبان پر ہے۔ ” میں ان کا اتنا ہی احترام کرتا ہوں جتنا وہ آئین پاکستان کا کرتے ہیں. “ سید منور حسن ، بلا شبہ ہماری جوانی کا رومانس تھے ۔جب ہم نئے نئے انقلاب آشنا ہوئے تھے ۔ نوجوان نسل کی مینوفیکچرنگ ہی ایسی ہوتی ہے کہ ان کو تبدیلی کی ہر چاپ اور انقلاب کی ہر سرگوشی فریفتہ کر لیتی ہے ۔ اور مجھے یاد آیا کہ سید منور حسن کی اس انقلابی سرگوشی کا میں بھی اسیر ہواتھا ۔ مجھے بھی ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا تھا ان کے چہرے کے جلال ، لہجے کی گھن گرج ، شخصیت کی فقیری ، گل فشانی اظہار اور تحریر کے جادو نے مجھے بھی زیر کیا تھا۔

اور پھر میں اس خاکے پر پہنچتا ہوں جس میں انہوں نے اپنی جنت کی یاد میں رنگ بھرے ہیں۔ ایک بیٹا اپنی ماں کے بارے میں اس سے زیادہ اور کیا کہہ سکتا ہے کہ ” آج وہ میرے چہار جانب موجود ہیں ۔ان کی خوشبو سے میرے بام ودر معطر ہیں ۔گھر کے ہر ہر حصے پر ان کی ملائمت محسوس ہوتی ہے ۔ “ اپنی ماں کے بارے ان کے احساسات پڑھ کر اللّہ سے یہی گلہ ہوتا ہے کہ اے میرے اللّہ تو ماں دینے کے بعد اسے چھین کیوں لیتاہے ۔

اگلا خاکہ ”ابو جی“ ہے۔ ” اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے “ انہیں دھوپ سے محروم دیکھ کر مجھے اپنی محرومی کا احساس سوا ہو جاتا ہے ۔ میں بھی تین سال پہلے اپنے “ابو جی “ کی قبر پر کھڑا اسی محرومی سے دوچار تھا ۔ ٹھنڈی مٹی کے ڈھیر پر کھڑا سود و زیاں کا حساب کرنے میں مصروف تھا ۔ وقاص بھائی بہرحال اس لحاظ سے خوش قسمت رہے کہ انہوں نے اپنے “ابو جی “ کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا ان کی قبر پر اپنے ہاتھوں سے مٹی ڈالی ان کے جنازے کو کندھا دیا ان کی بیماری میں ان کی خدمت کی لیکن میں بد قسمت تو بیٹے ہونے کا ان میں سے کوئی ایک فرض بھی ادا نہ کر سکا تھا ۔ اور ہزاروں میل بیٹھا اپنی بے بسی پر کڑھتا اور “ نوٹنکی “ کرتا رہا تھا اور جب پاکستان آیا بھی تو میرے “ ابو جی “ کو دنیا سے رخصت ہوئے دو ہفتے گزر چکے تھے ۔

ڈاکٹر احسان اللّہ شاہ کا خاکہ مجھے اپنے “ وڈے شاہ جی “ کی یاد دلاتا ہے ۔ میں جب پنجاب میڈیکل کالج میں پہنچا تو وڈے شاہ جی فارغ التحصیل ہو چکے تھے۔ نکے شاہ جی ( شبیر حسین شاہ) ان کی نظامت کی جگہ موجود تھے جنہوں نے مجھے قافلہ حق میں شمولیت کا شرف بخشا۔ ۔روز ان کے قصے سنتا تھا ۔ ہر اجتماع ارکان میں ان کا ذکر تھا ۔ وڈے شاہ جی کالج سے جانے کے بعد بھی جیسے ہمارے درمیان موجود تھے ۔ ان کا اتنا تذکرہ سنا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ وڈے شاہ جی کو ملے بغیر میں انکی شخصیت کا اسیر ہوتا چلا گیا ۔ پھر ایک دن وہ ہمارے درمیان آن موجود ہوئے ۱۹۸۹ء میں سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن آئے تو پی ایم سی کی ذمہ داری میرے نازک اور ناتجربہ کار کندھوں پر تھی جو الیکشن کے ان دنوں میں میرے لئے بار گراں بن گئی اور وڈے شاہ جی سے درخواست کی کہ وہ اس بوجھ کو اٹھانے میں مدد کریں اور اس مشکل وقت میں راہنمائی فرمائیں ۔ وہ آئے اور ایسے آئے کہ ہر چیز فتح کر لی ۔ پی ایم سی جمعیت نے تاریخی لینڈ سلائڈ وکٹری حاصل کی ۔ پھر ساؤتھ افریقہ جانے کا قصد کیا تو امتحان کی تیاری کے لئے پھر وڈے شاہ جی کی صحبت میسر آئی اور وہ دن میری زندگی کے خوبصورت ترین دن تھے جو وڈے شاہ جی کے سنگ گزرے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ” پیدا کہاں ایسے پرگندہ طبع لوگ “، میرا مرقد میرے احباب کے سینے ہوں گے

امجد اسلام امجد کا خاکہ مجھے ایک بار پھر اپنے اس حسین ماضی میں لے گیا جب میں ۱۹۸۶ء میں پہلی بار ان سے ایم اے او کالج میں ملا تھا۔ اور انہیں پی ایم سی میں ہونے والے مشاعرے کی دعوت دی تھی ۔ اتنے بڑے آدمی سے میں پہلی بار ملا تھا ۔ ذہن پر ایک عجیب سا خوف طاری تھا ۔ لیکن انہوں نے جس محبت اور شفقت کا سلوک کیا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لئے دل کے نہاں خانوں میں نقش ہوگیا ۔

ڈاکٹر مشتاق مانگٹ سے ملنے سے پہلے ہی میں ان کی تحریروں کا شیدائی ہو چکا تھا ۔ ان سے ملاقات کا شرف بھی وقاص جعفری صاحب کی سجائی اس محفل میں یہ کتاب پڑھنے سے پہلے ہی ہو گیا تھا اب ان کا خاکہ پڑھ کر الف لیلہ کا وہی اجنبی مسافر یاد آتا ہے جو شہر شہر یہ صدالگاتا پھرتا رھا ” ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے “ ۔ ایک بار ملا ہوں دوبارہ ملنے کی ہوس ہے ۔

شاہد حمید سے میں کبھی نہیں ملا لیکن انہوں نے جو شجر سایہ دار لگایا ہے ، اس کی چھاؤں سے مستفید ضرور ہوا ہوں ۔ ان کا لگایا ننھا پودا آج تناور درخت بن چکا ہے اور میرے اور جعفری صاحب جیسے بے شمار نوآموز لکھاریوں کے لئے امید کی کرن بن چکا ہے ۔ اس بڑے باپ کے بڑے بیٹے شاہد گگن اور امر گگن اپنے باپ کے مشن کو جس طرح زندہ رکھے ہوئے ہیں اس سے ان کے والد کی روح یقیناً سر شار ہوگی ۔

اس کتاب میں ان لوگوں کا بھی ذکرہے جو میرے ناظمین میرے استاد بھی رہے۔ اظہر اقبال حسن ، شبیر حسین شاہ ڈاکٹر سرفراز، پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد گوندل ، طیب شاہین ، ملک یعقوب اعوان امیر العظیم یہ سب ہی وہ لوگ جن سے مل کر مجھے بھی اپنی تحریک سے اور اپنی زندگی سے عشق ہوا ۔ کوئی شک نہیں کہ وقاص جعفری بھائی کی کتاب ”وہ لوگ “ واقعی ان لوگوں کی داستان ہے ” جن سے مل کر زندگی سے عشق ہوجائے “ . مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ کتاب پڑھنے کے بعد مجھے زندگی کے ساتھ ساتھ ان سب لوگوں سے بھی عشق ہو گیا ہے جن کے خاکے اس کتاب میں موجود ہیں ۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کی اکثریت سے میں کبھی نہیں ملا اور یہ کتاب پڑھ کر ان سے نہ ملنے کا افسوس بڑھ گیا ہے اور جن سے مل چکا ہوں ان کے بارے میں سوچتا ہوں کہ مجھے تو ان کی صحبت کے بہت ہی تھوڑے لمحے میسر آئے.

دل میں لئے ہوں یاد رفیقان رفتگاں
بس رہ گیا ہے یہ سروسامان زندگی
وہ لوگ جن سے بزم سخن تھی سجی ہوئی
حاصل تھاجن کی ذات سے عرفان زندگی