سبزہ زاروں ، مرغزاروں ، آبشاروں اور حسین نظاروں کی سرزمین کشمیر کا حسن اب ماند پڑ چکا ہے۔ اس کے باشندے اپنے ہی وطن میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ دنیا کا طویل ترین لاک ڈاؤن ان پر مسلط کیا گیا ہے۔ وہ خوف و جبر کے ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کشمیری جوانوں کو جیلوں سے باہر پیلٹ گنوں ، ہینڈ گرنیڈوں اور دوسرے مہلک ہتھیاروں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ جیلوں کے اندر مظالم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ کمروں کی چھتوں سے لٹکایا جاتا ہے، رولر پھیرے جاتے ہیں ، گرم استریاں جسموں پر پھیری جاتی ہیں حتیٰ کہ بعض کو تو زندگی بھر کر لئے ناکارہ بنا دیا جاتا ہے ۔ عورتیں بیوہ اور بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ مائیں کبھی تو اپنے جوان بیٹوں کے لاپتہ ہونے پر غم سے نڈھال ہو جاتی ہیں اور کبھی اُن کی شہادتوں پر صبر کے تمغے سینوں پر سجا لیتی ہیں۔ ان میں سے لا تعداد بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں عصمتیں لٹائے بیٹھی ہیں۔ بھارت کی طرف سے 15 اگست 2019 کو کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دئیے جانے کے بعد تو اہل کشمیر پر مظالم کی انتہا ہوگئی ہے۔ان مظلوموں کی دلخراش چیخیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مگر انصاف کے وہ علمبردار جنھیں اسرائیل معصوم نظر آتا ہے روئے زمین پر مظلوم مسلمانوں کو کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے اُس نے تو نظریہ پاکستان کو ہی تسلیم نہیں کیا، وہ کشمیر کو پاکستان کا حصہ کیسے بننے دے سکتا ہے؟ پروفیسر منور مرزا اپنی کتاب ( Dimensions of Pakistan Movement ) میں لکھتے ہیں کہ تقسیم ہند نہ تو برطانوی حکومت چاہتی تھی نہ کانگریس کا ارادہ تھا، نہ نہرو، پٹیل اور گاندھی کی آرزو تھی۔ بلکہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن جو 22 مارچ 1947 کو بطور وائسرائے ہندوستان میں وارد ہوئے تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ لیکن اسلامیانِ ہند، مسلم لیگ اور قائد اعظم کی ان تھک محنت، عزم و استقلال اور شجاعت و استقامت کے آگے ان مخالف عناصر کی پیش نہ چل سکی اور پاکستان دنیا کےنقشے پر سب سے بڑی اسلامی مملکت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ آزاد ہونے والی ریاستوں میں حیدر آباد ، میسور ، بیکانیر ، جودھ پور، کشمیر اور جسمیر کی ریاستیں شامل تھیں۔ ان تمام ریاستوں کا ہندوستان کے گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے جس طرح ہندوستان کےساتھ الحاق کروایا وہ درد ناک ، دلدوز اور سنگین داستان کی حیثیت رکھتا ہے ۔ وی پی مینن 1942 سے قیام پاکستان تک وائسرائے ہند کا قانونی مشیر تھا۔ ان ریاستوں کے ساتھ جو ظلم، نا انصافی اور غیر آئینی اقدامات ہوئے اس نے وہ اپنی کتاب The Story of Integration of Indian States میں برملا تحریر کئے ہیں۔ دوسری تمام ریاستوں کے علاوہ جو کچھ کشمیر کے حوالے سے ہوا، جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، ایک دردناک داستان ہے۔ مسٹر سٹیفنز نے اپنی کتاب moon Homed میں کشمیر کے حوالے سے جن نا انصافیوں کا ذکر کیا ہے اس کی سزا انھیں وائسرے کی طرف سے ملتی رہی۔ سٹیفنز جو کہ ماؤنٹ بیٹن کا ہم قوم تھا شرم دلاتا رہا کہ برطانوی حکومت کو کشمیر کے حوالے سے نا انصافیاں نہیں کرنی چاہئیں ۔ اس سب کے باوجود کشمیر کو زبردستی انڈین یونین میں شامل کردیا گیا ۔ لہذا 27 اکتوبر 1947 کو بھارتی افواج نے کشمیر پر قبضہ کر لیا ۔ یہ دلدوز داستان یہاں سے شروع ہوئی اور ابھی تک جاری ہے۔
کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادیں جو 1948 سے شروع ہوئیں ابھی تک قائم ودائم ہیں اور مسئلہ کشمیر بھی اپنی جگہ قائم ہے ۔ سینکڑوں مذاکراتی اسٹیج تو سجائے گئے لیکن ان کا کوئی پائیدار حل نہ نکل سکا ۔ مذاکرات تب کامیاب ہوتے ہیں جب فریقین کے جذبے صادق ہوں اور وہ مسائل حل کرنا چاہتے ہوں۔ اور جب حل معلوم ہو جائے تو اس پر عمل کیا جائے۔ ظاہر ہے اگر کسی نے کوئی چیز زبردستی چھینی ہو تو وہ مذاکرات کی میز پر پلیٹ میں رکھ کر واپس نہیں کرے گا۔ قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ کہا تھا ۔ ہماری شہ رگ دشمن کے قبضہ میں ہے ۔ ہم بے فکر اور آزاد کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ بھی قائد اعظم کا ہی فرمان ہے کہ کشمیر کا مسئلہ صرف اور صرف زور بازو سے حل ہوگا۔ اس کے علاوہ اس کا کوئی حل نہیں۔
اہل کشمیر جو تکمیل پاکستان کے لیے کوشاں ہیں وہ ہم سے کیا توقع رکھتے ہیں ؟ تحریک حریت کشمیر کے چیئرمین اشرف صحرائی کے پیغام کے ذریعے جانتے ہیں جو انہوں نے فروری 2018 میں دیا تھا " اہل پاکستان کو ہمارا پیغام یہی ہے کہ وہ عالم اسلام میں ایک راہنمایانہ مقام رکھنے والا ملک ہے نیز اس ملک کو عالمی سطح پر مسلمان ایک مضبوط قلعہ کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی یہ توقع رکھتے ہیں کہ آپ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں کا بھر پور احساس کرتے ہوئے اپنے ذرائع اور وسائل کا استعمال کر کے خدا کی طرف سے عائد کردہ اپنی ذمہ داریوں کو بلا کسی لاگ لپٹ کے پورا کریں ۔ مزید یہ کہ جس نام پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ نظریۂ اسلام اور اس کی جملہ تعلیمات اور اصول و مبادی کے نفاذ کو یقینی بنانے کا دعویٰ تھا جو ستتر سال گزر جانے کے باوجود عملی روپ نہ دھار سکا ، اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے. " اللہ تعالٰی ہمارے ارباب اختیار کو اس پیغام کی طرف توجہ دینے کی توفیق عطا فرمائیں ۔(آمین)
تبصرہ لکھیے