ہوم << آغا خان چہارم: ایک سخی ارب پتی کی کہانی - عارف انیس

آغا خان چہارم: ایک سخی ارب پتی کی کہانی - عارف انیس

بہت کم لوگوں کو سونے میں تولا جاتا ہے، اور بہت کم لوگ اپنے وزن والے سونے سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتے ہیں. آغا خان چہارم ان میں سے ایک تھے.

ارب پتیوں اور مشہور افراد کے مرنے پر زیادہ لکھا جاتا ہے. ویسے تو آغا خان ان دونوں شرائط پر پورے اترتے ہیں، مگر میں بے ان کی عزت تب شروع کی جب برسوں پہلے پاکستان کے شمال میں چکر لگے اور معلوم ہوا کہ کس طرح آغا خان نیٹ ورک نے حکومت پاکستان سے زیادہ وہاں کے عام شہری کو سنبھالا اور وہاں کی خواتین کو پاکستان کے کسی بھی صوبے سے زیادہ اپنا مستقبل سنوارنے کے قابل بنایا. شاید شمال میں بسنے والے ساتھی زیادہ بہتر تبصرہ کر سکتے ہیں.

میں کالج پڑھنے کے شروع کیے دنوں میں زندگی کو رواں رکھنے کے لیے ٹیوشن پڑھاتا تھا اور میرے پہلے سٹوڈنٹس اسماعیلی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے. ان دنوں میں خالص طالبانی زاویے سے 'داستان ایمان فروشوں' کی پڑھتے ہوئے بہت سارے شکوک اور وسوسے لیے ان گھرانوں میں پہنچتا، تاہم میں نے اگلے دو سالوں میں ان سے سیکھا کہ اسماعیلی گھرانے کتنے روادار، پختہ، شائستہ اور بزنس کے لحاظ سے سیانے ہوتے ہیں. اور یہ بھی کہ ان کے امام کس طرح ان کی زندگیوں پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں.

13 دسمبر 1936 کو جنیوا کے ایک ہسپتال میں پیدا ہونے والے شاہ کریم الحسینی کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا تھا کہ یہ بچہ ایک دن 15 ملین اسماعیلیوں کا روحانی پیشوا بنے گا۔ والدہ جوآن یارڈ-بلر نے انہیں بچپن میں "کریکٹر یعنی نمونہ" کا لقب دیا تھا، کیونکہ وہ ہر کام میں منفرد انداز اپناتے تھے۔ نیروبی کے جنگلات میں گھوڑ سواری اور شیروں کے قصے سنتے ہوئے پرورش پانے والے کریم جب 9 سال کی عمر میں پہلی بار پاکستان آئے، تو کراچی کے اسماعیلیوں نے انہیں پھولوں کی بارش میں نوازا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ان کے دل میں مشرق کے لیے محبت نے جنم لیا۔

ہارورڈ یونیورسٹی میں اسلامی تاریخ پڑھنے والے اس نوجوان کو 1957 میں اچانک ایک ٹیلی گرام ملا: "تمہیں 49ویں امام منتخب کر لیا گیا ہے۔ فوراً سویٹزرلینڈ واپس آؤ"۔ یوں، 20 سالہ کریم نے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑی اور ایک ایسا تاج اٹھا لیا جو انہیں دنیا بھر کے اسماعیلیوں کا "مولانا ہزار امام" بنا دینے والا تھا۔

آغا خان چہارم کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے ان کے دو شوقوں پر غور کریں:'گھوڑے' اور 'انسانی تعمیر' ۔ 1980 کی دہائی میں جب ان کا پسندیدہ گھوڑا 'شیرگر' آئرش ریپبلکن آرمی نے اغوا کر لیا، تو انہوں نے 2 ملین پاؤنڈ کا فدیہ دینے سے انکار کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے قریبی ساتھی سے کہا تھا: "اگر میں نے فدیہ دیا، تو یہ ہر اسماعیلی بچے کے اسکول کی فیس ہوگی جو نہیں پڑھ پائے گا"۔

آغا خان چہارم کی شخصیت ایک دلچسپ تضاد کی حامل تھی۔ ایک طرف وہ 15 ملین اسماعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا تھے، جن کے لیے ان کا لقب 'مولانا ہزار امام' تھا۔ دوسری طرف، وہ ایک کامیاب بزنس مگنٹ، گھوڑوں کے شوقین، اور دنیا کے امیر ترین شاہی خاندانوں میں سے ایک تھے۔ ان کا خالص مالیت 2013 میں 13.3 ارب ڈالر سے زیادہ تخمینہ لگایا گیا تھا۔2018 تک ان کے پاس 540 گھوڑے، فرانس میں 12,000 ایکڑ کا فارم، اور اٹلی کا ایک جزیرہ تھا۔ ان کا کہنا تھا، "اسلام میں دولت کا جمع کرنا کوئی گناہ نہیں، اصل سوال اس کے استعمال کا ہے"۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی دولت کو 'آغا خان ڈویلپمنٹ نیٹ ورک' (AKDN) جیسے اداروں کے ذریعے تعلیم، صحت، اور ثقافتی ترقی کے لیے وقف کر دیا جو 35 ممالک میں 96 ہسپتال، 2000 اسکول، اور 400 کلینک چلاتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں گوادر کے حصول کو ایک اہم سنگ میل سمجھا جاتا ہے، جس میں آغا خان چہارم کے کردار نے کلیدی حیثیت اختیار کی۔ 1958ء میں سلطنت عمان سے گوادر کی خریداری کے لیے پاکستان کو درکار مالی وسائل فراہم کرنے والی شخصیت آغا خان چہارم ہی تھے. یہ معاہدہ پاکستان کی جغرافیائی اور معاشی حکمت عملی کو مضبوط بنانے کا ایک بڑا قدم تھا۔ 1958ء میں ہونے والے معاہدے کے تحت پاکستان نے گوادر کے لیے عمان کو 5.5 ارب پاکستانی روپے ادا کیے۔ یہ رقم آغا خان چہارم نے اسماعیلی برادری کے عطیات اور اپنے ذاتی وسائل سے فراہم کی، جس نے پاکستان کو اس تاریخی خریداری کے قابل بنایا۔ آغا خان کی یہ شراکت داری نہ صرف مالی تھی بلکہ اس نے پاکستان اور عمان کے درمیان سفارتی تعلقات کو بھی ہموار کیا۔

ایک اور دلچسپ واقعہ 2005 کے زلزلے کا ہے۔ آغا خان نیٹ ورک نے صرف 72 گھنٹے میں 8 ہزار خیمے، 25 ٹن ادویات، اور 50 ڈاکٹرز کا خصوصی کانوائے طیارے کے ذریعے مظفر آباد پہنچایا۔ کہا جاتا ہے کہ جب امدادی سامان کی کمی ہوئی، تو آغا خان نے اپنی نجی جیٹ میں ڈنمارک سے 5 ہزار کمبل منگوا کر تقسیم کیے۔

آغا خان کی زندگی انوکھے واقعات سے بھرپور رہی. 1998 میں انہوں نے اپنی دوسری بیوی گیبرائل سے خفیہ طور پر فرانس میں شادی کی۔ تقریب میں صرف 4 لوگ موجود تھے، جن میں ان کا ذاتی شیف بھی شامل تھا۔

1970 کی دہائی میں پاکستانی حکومت نے ان پر الزام لگایا کہ وہ اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعے "مغربی ایجنڈا" پھیلا رہے ہیں۔ بعد ازاں، ضیاالحق نے ذاتی طور پر معافی مانگتے ہوئے انہیں پاکستانی شہریت دی۔
وہ ہالی وڈ کلاسک "لارنس آف عریبیا" کے دیوانے تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گھوڑے کا نام بھی فلم کے کردار "شریف علی" کے نام پر رکھا تھا۔

آغا خان چہارم نے اپنی زندگی میں 2,300 سے زائد تقاریر کیں، مگر ان کا مشہور جملہ "مذہب انسان کو بانٹنے نہیں، جوڑنے آیا ہے" آج بھی گلگت سے لے کر جنیوا تک سنا جاتا ہے۔ ان کی موت کے بعد بھی، ان کا بنایا ہوا "دی ہائیٹی انیشیٹو" (جس نے 2010 کے زلزلے کے بعد 10 ہزار مکانات بنائے) اور "چندریکانہ ہائی ٹیک سٹی" (بھارت میں اسماعیلیوں کا سب سے بڑا تکنیکی مرکز) ان کی عظمت کی داستان سناتے رہیں گے۔

ان کی زندگی کا آخری پیراگراف انہوں نے خود لکھا تھا: "میں نے دولت کو انسانیت کی نذر کیا، گھوڑوں کو اپنا رازدار بنایا، اور اللہ کو اپنے سفر کا ساتھی چنا ۔ بس یہی کافی تھا"۔