جب شام کی سرمئی روشنی نے بانہیں پھیلا کر دن کی روشنی کو اپنے اندر لپیٹا تو دن کی روشنی منہ بسورتے کہیں کونے میں چھپ گئی۔سڑک پر چہل پہل کا عالم تھا۔اسی سڑک کے کنارے ایک خوبصورت باغ تھا۔ ایک بینچ پر ،انیس سالہ حسن، سانولی رنگت اور خوبصورت خاکی آنکھوں میں چمک لیے بیٹھا، دنیا کی رنگینیوں سے بےخبر، ہنستے کھیلتے دو بچوں کو دیکھ رہا تھا۔کبھی وہ ان کو دیکھ کر مسکراتا،تو کبھی ان کو دیکھ کر اسے کوفت محسوس ہوتی۔
ان بچوں کو کھیلتا دیکھ کر اسے اکثر اپنے بچپن کی یاد آ جاتی تھی ،کہ وہ بھی کبھی اس جگہ پر اسی باغ میں اپنے سب سے اچھے دوست کے ساتھ کھیلا کرتا تھا۔ وہ جو اس کے بچپن کا دوست تھا۔ وہ روز ان بچوں کو اُدھر کھیلتے دیکھتا۔ کبھی کبھی اس کا دل کرتا کر ان دونوں بچوں کو بتائے کہ بچے یہی عمر ہے ساتھ کھیل لو، جب تم دونوں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھو گے تو جدا کر دیے جاؤ گے۔ پھر وہ یہ سوچ کر چپ کر جاتا کہ ہر کوئی نور جیسا نہیں ہوتا۔
نور کے ساتھ گزرے بچپن کو یاد کرتے ہوئے اس کی خوبصورت خاکی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہو گئے۔ حسن خود کو نور کے بغیر بے حد اکیلا محسوس کرنے لگا۔آج اسے باغ کی وہ مہک اور فضا بھی ناگوار محسوس ہونے لگی جس سے وہ روز سکون حاصل کرتا تھا۔پرندوں کی سریلی آوازیں اسے ایسے محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی اس کے پاس کھڑا چیختے ہوئے ماتم کناں ہو۔اسے اپنا سر پھٹتے ہوئے محسوس ہونے لگا۔اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔جب کافی وقت کے بعد حسن کو سکون میسر ہوا تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور باغ کو ویران پایا۔سب لوگوں کی طرح وہ دو بچے بھی جا چکے تھے۔
وہ ہارے ہوئے دل اور بوجھل قدموں کے ساتھ اٹھا اور اپنے گھر کی طرف یہ سوچ کر چل پڑا کہ ایک دن اس کا دوست نور ضرور واپس آئے گا اور وہ اس سے اپنا گلہ کر سکے گا۔
تبصرہ لکھیے