اس کی عمر لگ بھگ آٹھ سال ہوئی ہو گی ، وہ گاڑی سے اترنے کی کوشش کرہا تھا مگر اس کا بھاری اسکول بیگ اس کے لیے مشکل پیدا کر رہا تھا۔ مجھےجہاں اس پر ترس آیا، وہیں اس نظام پر حیرانی بھی ہوئی جس نے اس کے کاندھوں پر اس چھوٹی سی عمر میں اتنا وزن لاد دیا ۔
یہ آج کا نہیں روز کا قصہ ہے ۔ میں روز چھوٹے چھوٹے بچوں کو خود سے وزنی اسکول بیگ اٹھاۓ دیکھتا ہوں مگر آج سے پہلے اندازہ نہیں لگا سکا کہ یہ کتنے بھاری ہوتے ہوں گے ، مگر آج جب میں کالج میں اپنی کلاسز مکمل کرنے کے بعد گھر کے لیے محو سفر تھا تو میرے سامنے والی نشست پر ایک سات آٹھ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ گاڑی کچھ دیر یوں ہی چلتی رہی، پھر اس کا اسٹاپ آگیا. وہ گاڑی سے اترنے کی کوشش کررہا تھا مگر جوں ہی اترنے لگتا تو اس کا بیگ پیچھے کی طرف جھول جاتا۔ میں نے اس کی مشکل کو دیکھتے ہوۓ اس سے کہا کہ بیگ مجھے دے دو ، تم آرام سے اتر جاؤ ، پھر میں بیگ آرام سے تمھیں دے دوں گا ۔ اس نے اپنا بیگ اتارا اور مجھے دے دیا ۔
"اف میرے خدایا! یہ کیا ہے" میں نے ایک ہاتھ سے بیگ پکڑنا چاہا مگر کافی مشکل پیش آئی اور وجہ تھی "بیگ کا وزن" جو اس بچے سے تو زیادہ ہی ہوگا۔ اب آپ خود اندازہ لگائیں کہ کہاں میں اور کہاں وہ سات آٹھ سال کا نحیف و نازک بچہ جس کے کاندھوں پر ابھی اتنی سی عمر میں اتنا وزن لاد دیا گیا ، یہ دیکھے بغیر کہ اس میں کیا اسے اٹھانے کی ہمت ہے؟
آج سے کچھ عرصہ پہلے اس حوالے سے ایک ریسرچ رپورٹ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ رپورٹ میں لکھا تھا کہ اسکول بیگ کا وزن بچہ کے وزن کے ۱۰ سے ۱۵ فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے، اگر بچہ وزنی بیگ اٹھاتا ہے تو نتیجے میں کندھوں میں درد، ریڑھ کی ہڈی کا ٹیڑھا پن اور ساتھ ہی اس سے نظر کی دیگر بیماریاں بھی ہوسکتی ہیں. ساتھ ہی بتایا گیا کہ ایسے بچے جو وزنی بیگ اٹھاتے ہیں ان میں بھولنے کا مرض زیادہ دیکھا گیا ہے ۔
اب ایک سوال یہ بھی بنتا ہے کہ کیا شروع سے ہی ایسا تھا؟ میں تو جواب نہیں میں ہی دوں گا۔ آج سے پندرہ بیس سال پہلے پڑھے ہوۓ لوگوں سے جب دریافت کیا تو معلوم ہوا ، تب تو ایسا کچھ نہ تھا۔ اگر تب ایسا کچھ نہ تھا تو پھر اب یہ سب کہاں سے آیا ؟ کس کے کہنے پر ہم نے اس سب کو جدید تعلیم کا نام دیا ؟ آج اکیسویں صدی ہے اور دنیا گلوبل ولیج، تو بتائیں، کہاں یہ سب ہوتا ہے ؟
ابھی بات ان وزنی بیگوں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس سے آگے بھی پوری ایک عجیب و غریب داستان ہے۔ بچہ اسکول سے واپس آۓ گا تو قاری صاحب اس کے منتظر ہوں گے. اس کے بعد اس نے ٹیوشن پر جانا ہوگا ، واپس آتے آتے رات ہو جاۓ گی مگر ابھی اس کی جان نہیں چھوٹے گی. ابھی اس کو اسکول سے گھر کے لیے ملنے والا کام "ہوم ورک" بھی کرنا ہے ۔ "ہوم ورک " جسے "چائنیز ایجوکیشن سسٹم" میں "مینٹل ٹارچر" سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چلیں آپ بچے کو گھر کے لیے کام دیں مگر اس میں بھی اعتدال نامی چیز تو ہونی چاہیے ،آخر اس کے علاوہ بھی تو اس کی کوئی زندگی ہوگی۔
اس سب سے ہٹ کر والدین کی طرف سے نمبروں کے لیے ڈالا جانے والا دباؤ اپنی جگہ ، کیا عجیب بات ہے سب کو نمبر چاہییں مگر کسی کو اس کی صحت ، وہ بچپن جو اسے صرف ایک ہی بار ملا ہے، کی کوئی فکر نہیں۔ سب کو چاہییں تو نمبر ، بس نہیں چاہیے تو اس کا مسکراتا ہوا بچپن ، معاشرے میں اس کا مثبت کردار اور اس کی علمی و عملی قابلیت۔
تبصرہ لکھیے