ہوم << افسانہ:محبت کل ہے- ثمینہ سید

افسانہ:محبت کل ہے- ثمینہ سید

تہی دست اور تہی دامن نظر آنے والا ضروری نہیں کہ تہی ہی ہو۔آنکھ سے دیکھا اور کان سے سنا بھی جھوٹ ہو سکتا ہے۔عمر کا ایک تہائی گزار کر گلی کے تھڑے پہ اداس بیٹھے شخص کو تہی دامن نہ سمجھو۔یہ سمجھنا بھی غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ اس کا معاشرے میں مقام یہی ہے جو نظر آرہا ہے نہیں یہ ضروری نہیں۔۔۔۔ہوسکتا ہے وہ اپنی یاد سے منسلک کسی گلی میں آ نکلا ہواور خود کو یاد کے سپرد کرکے بیٹھ گیا ہو۔۔۔دانستہ ۔۔۔

کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں نشہ سا ہلکورے لیتا ہے۔ لال ڈورے تن جاتے ہیں۔ یہ خمار کسی سہانی یاد کا ہے جو اسے نَکو نک بھر دیتا ہے تو وہ شانت ہوجاتا ہے۔ درد بھرے ان خالی دنوں کا ملال زائل ہوجاتا ہے۔ شام ڈھلے تھڑے سے اٹھ کر گھر جاتے سمے وہ ویسا اداس نہیں رہتا، یاد کی چنچل پائل نے اس کے اندر خوب رونق لگا دی ہے۔ اب کچھ دن تو وہ اسی تال پہ محو رقص رہے گا۔ اپنے آپ سے اوراپنے ماحول کی تلخی سے دور، صرف اس یاد کی یاد میں گم۔ یاد ساون رت کی طرح گردونواح کو جل تھل کردیتی ہے۔ ایک دم ٹھنڈا ٹھار۔۔۔۔۔۔۔ یاد میں ایک مانوس سی خوشبو تھی جس نے اس کے پورے وجود کو لپیٹا مار لیا تھا۔اس تعفن زدہ گردوپیش سے اچک لیا تھا۔

جمال ترمذی ہمہ وقت محبت کے احساس میں گھرا رہتا اور ہزار بار شکر کرتا کہ یہ قیمتی احساس تو اس کے پاس ہے ورنہ زندگی میں کیا ہوتا۔۔۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔ وہ آئینے میں خود کو دیکھ کر مونچھیں درست کرنے لگا۔ تبھی کوئی اور چہرہ بھی آئینے میں ابھر آیا۔
" ہم سے زیادہ عقلمند تو ہمارے بچے ہیں جمال۔۔۔۔ زمانہ شناس، زندگی کے فلسفے کو چند ہی سالوں میں سمجھ گئے، ایک ہم ہیں جو سمجھ ہی نہیں سکے کہ زندگی آگے کی طرف بڑھتی ہے۔ اورررر ماں باپ کو بچوں کے احساسات کا ان کے معاشرے میں مقام کا خیال رکھنا چاہیے جبکہ۔۔۔۔ بچوں کو اپنی زندگی میں آنے والے جیون ساتھی۔۔۔۔۔ جو ابھی ابھی ان کی زندگی میں آیا اس کا خیال رکھنا چاہیے نہ کہ والدین کا۔۔ " وہ ہتھیلیوں سے گالوں پہ پھسلتے آنسو صاف کرتی جاتی، آنسو پھر بھگوتے جاتے۔
" تو ہمارا خیال کون رکھے گا۔۔۔۔ میرا خیال؟ تم تو مرد ہو ناں، تمھارا تو ہر حکم مانیں گے تمہارے بیوی بچے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں "
ایک سسکی سارے ماحول میں سرایت کرنے لگی۔ تو جمال نے اس کے کانپتے ہاتھ اپنے گرم ہاتھوں میں لے لیے۔
" میں رکھتا تو ہوں تمہارا خیال، ہر وقت۔۔۔۔ ہر لمحہ " وہ اپنے ہاتھ چھڑا کر ذرا سی دور کھسکی
" تم میرے خیال سے اپنے آپ کو خوش رکھتے ہو، اور مجھے بھی اس سے کسی قدر خوشی ملتی ہے لیکن میں " اس خیال " کی بات نہیں کر رہی جمال۔ "

وہ جانتا تھا وہ کس خیال کی بات کررہی ہے لیکن انجان بننا اس کی بھی مجبوری تھی۔ کیسے کہہ دیتا کہ میں ہر وقت تمہارے ساتھ ہوں۔ ہر طرح کے حالات میں، کیسے کہہ دیتا کہ میں تمہیں دنیا سے چرا کر اپنے دل کے نہاں خانوں میں چھپا لینا چاہتا ہوں۔۔۔۔ جہاں اس دنیا کی روک ٹوک، رسم و رواج، اصول قائدے نہ ہوں۔۔۔ بس تم میری پناہ میں رہو۔۔ اور کوئی تمہیں دکھ نہ دے۔۔ ۔۔ تمہارے اپنے بھی نہیں، میں کسی کو بھی تم تک رسائی نہیں دینا چاہتا۔۔۔کیونکہ تم نے مجھے وہ محبت دی ہے جس نے مجھے سیر کردیا ہے۔۔۔تم میری طلب کی تشفی ہو۔ ۔ لیکن بولا تو صرف اتنا
" تمہیں میری محبت کافی نہیں لگتی یار؟ میں صرف تمہیں سوچتا ہوں، صرف تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔ اور یہ سارے حالات تو ایسے ہی تھے جب ہم ملے تھے، ہم ان سارے رشتوں کی بندش میں تھے پہلے سے۔۔۔ تمہیں بھی سب پتہ تھا ناں، میں نے تمہیں کوئی دھوکا تو نہیں دیا۔۔۔"
جمال نے یہ جملے سو سے زیادہ بار بولے ہوں گے اور فرحین نے اس سے دوگنی بار سنے تھے کیونکہ وہ اس کی ہر بات کی بازگشت میں جیتی تھی۔پہلے پہل تو کہتی بھی تھی
" زندگی کی ترتیب میں اگر ہم مل ہی گئے تو تم مجھے اپنی زندگی میں شامل کر لو، بہت سے لوگ ایسا بھی تو کرتے ہیں کوئی قیامت نہیں ٹوٹتی۔۔۔۔"
اس پر جمال اس کے اور قریب ہو جاتا۔
" یقین کرو میاں بیوی کا رشتہ بہت ہی فضول ہے، ساری محبت۔۔ سارا لحاظ ختم ہوجاتا ہے۔ ایسی لطافت ایسی کشش نہیں رہتی۔ جیسی ہم اتنے سالوں بعد بھی محسوس کررہے ہیں۔۔۔۔ ایسے جیسے پہلی بار مل رہے ہوں، دھڑکن سنو اور کہو۔۔۔ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں؟۔۔۔ کہتے ہیں کچی عمر کی محبت ہمیشہ لو دیتی ہے لیکن یہ۔۔۔۔ اس عمر کی محبت تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دلی اور ذہنی سکون ہے۔ "
وہ سر جھکا لیتی۔۔۔ آنکھیں بھر آتیں، بے بسی کی شدت سے اٹھ کر ٹہلنے لگتی۔ اور پھر بات بدل جاتی۔

جمال کا چہرہ اشکوں سے تر ہوگیا اس نے اپنے وجود کو آئینے میں ڈوبتے دیکھا۔ لیکن اسی پل اپنی بیٹی کی آواز پر اسے ابھرنا پڑا اس نے بساط سمیٹی اور کمرے سے نکل آیا۔
" کبھی کبھی ہم شعروں کا سہارا لے کر اپنی داستانِ دل بیان کرتے ہیں اور کبھی کبھی ہمارا اپنا ہی کوئی شعر ہماری نئی تشکیل، نیا جنم کر دیتا ہے ہم اس کی کیفیت میں ڈھل جاتے ہیں۔ شعر ہمیں اگل دیتا ہے۔۔۔ بس اتنی سی ہماری اوقات ہے، ہم لفظوں کے کھلاڑی اپنے ہی لفظوں سے مات کھا جاتے ہیں۔ "
فرحین آغا نے یہ سب کہتے ہوئے اپنے لہجے کو بمشکل ہموار کیا۔ آنسوؤں کی نمی اب اس کی راہ میں حائل نہیں ہوتی تھی۔ انٹرویو کرنے والی لڑکی نے شوخ لہجے میں پوچھا۔
" آپ کیا سمجھتی ہیں محبت ہی ہے جو کسی بھی عام انسان کو خاص بنادیتی ہے اور وہ شعر کہنے لگتا ہے، کہانیاں لکھنے لگتا ہے۔؟ "
فرحین نے کچھ پل سوچا، حسبِ عادت لمبی سانس کھینچی جس میں وہ ساری توڑ پھوڑ اپنے اندر اتار لیتی تھی۔
" ہمممم ایسا ہی ہے۔۔۔ محبت بہت منہ زور ہوتی ہے اور فطری بھی، وحی کی صورت در دل پر اترتی ہے، بغیر اجازت ہماری پوری ہستی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔اس کے اترنے کا کوئی وقت یا عمر بھی مقرر نہیں۔۔۔ ہاں خاص بھی بنا دیتی ہے، ہم ہواؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتے ہیں اپنے آپ کو۔۔۔ لیکن جتنی بھی طاقتور ہو۔۔۔۔۔۔ہار جاتی ہے۔

آپ ملتے یا پھر جدا ہوتے
مجھے دونوں طرح خسارا تھا

" فرحین نے مسکرا کر شعر پڑھا

" آپ کا مطلب ہے کہ مر جاتی ہے اور کیا آپ سمجھتی ہیں کہ محبت بار بار ہوتی ہے؟
"سوال پوچھ کر لڑکی فرحین آغا کو غور سے دیکھنے لگی۔۔۔ کیمرے نے فرحین کی آنکھ کے کونے پر رکا اشک دکھایا، وہ سنبھلی پھر بولی
" نہیں محبت کبھی مرتی نہیں۔۔۔۔ میرے مطابق تو بار بار بھی ان کو ہوتی ہے جو محبت کے ساگر میں پوری طرح نہیں بھیگتے ، جو سیر چشم نہیں ہوتے۔ یا پھر جو اپنی محبت کو اپنے اندر مرنے دیتے ہیں، دفن کر کے آگے بڑھتے ہوں گے۔۔۔۔۔۔یقیناً۔۔۔۔۔ میرے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ محبت لافانی جذبہ ہے۔۔۔ شکر گزار ہوں کہ محبت شناس ہوں،میرے خیال میں اگر محبت ہارتی ہے تو صرف رشتوں کے ہاتھوں ہارتی ہے۔ رشتے محبت کے سچے جذبے سے بھی زیادہ توانائی رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ہر چیز کو مات دے دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔ہم رشتوں کو محبت کا فلسفہ سمجھا سمجھا کے تھک جاتے ہیں تو ان کے آگے ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔ان کی مان لیتے ہیں۔۔۔۔چلو بہت لمبا انٹرویو ہوگیا۔ میرا پیغام محبت ہی ہے تمہارے قارئین، سامعین اور ناظرین کے لیے۔۔۔ اب سمیٹو یہ بساط۔ "
فرحین نے اپنی ازلی مسکراہٹ کو چہرے پر سجایا۔
پھر کیمرے نے دکھایا۔
فرحین آغا نے اپنے بچوں کو بلالیا ان کے ساتھ چند تصویریں بنوائیں، انٹرویو ٹیم کو کھانا کھلایا اور کیمرہ کلوز ہوگیا۔

جمال ترمذی نے فرحین کا پورا انٹرویو سنا اور اسے بغور دیکھا، دل میں اتارا۔کتنی مدت بعد وہ اسے دیکھ رہا تھا کبھی جسے دیکھے اور سنے بغیر شام ہی نہیں ڈھلتی تھی۔
۔ وہ دل سے اس عورت کے حرف حرف کا معترف تھا اور مجرم بھی۔۔۔اپنے ادھورے وجود کے ساتھ وہ بھی تو یہی کرتا پھر رہا تھا۔بہت بڑا آدمی،اپنے بیوی بچے، اپنی دنیا کی گہما گہمی ، بس مکمل ہونے کا ڈھونگ اور ایک یاد ۔۔۔۔۔۔ یہی تو کل تھا۔۔۔۔۔۔محبت کل ہے۔۔۔۔ انسان تو بس جزوِ محض ہے۔ محبت کے سمندر کا ایک ذرہ۔

اپنی سانسوں کو توازن میں چلانے کے لیے
ایک بے نام تعلق بھی بہت ہوتا ہے

Comments

Avatar photo

ثمینہ سید

ثمینہ سید کا تعلق بابا فرید الدین گنج شکر کی نگری پاکپتن سے ہے۔ شاعرہ، کہانی کار، صداکار اور افسانہ نگار ہیں۔ افسانوں پر مشتمل تین کتب ردائے محبت، کہانی سفر میں اور زن زندگی، اور دو شعری مجموعے ہجر کے بہاؤ میں، سامنے مات ہے کے عنوان سے شائع ہو چکے ہیں۔ رات نوں ڈکو کے عنوان سے پنجابی کہانیوں کی کتاب شائع ہوئی ہے۔ مضامین کی کتاب اور ناول زیر طبع ہیں۔ پی ایچ ڈی کر رہی ہیں۔ ریڈیو کےلیے ڈرامہ لکھتی، اور شاعری و افسانے ریکارڈ کرواتی ہیں

Click here to post a comment