کتاب: منطقات
مصنف: جمیل احمد عدیل
تعارف: ثمینہ سید
دھنک مطبوعات
اس کتاب کا انتساب جمیل احمد عدیل نے اپنے پیارے دوست سونان اظہر کے نام کیا ہے۔
منطقات ایک منفرد، دیدہ زیب، خوبصورت سرورق والی ضخیم کتاب ہے۔ جب مجھے یہ اپنے مقالے کے لیے درکار تھی تو میں نے جمیل احمد عدیل صاحب سے گزارش کی۔ انہوں نے میرے مطلوبہ مضامین پر نشان تک لگا کے میرے لیے بھیج دی۔ بہت اچھے انسان ہیں، اعلیٰ اخلاق کے حامل، صاحبِ علم اور فہم و فراست والے وضع دار ادیب اور نقاد لیکن بہت سادہ مزاج بھی۔
کبھی بات کرنی مشکل نہیں لگی اور کبھی بھی بات کر کے مایوسی نہیں ہوئی۔ نہایت مرصع نثر لکھتے ہیں لیکن کچھ بھی پوچھ لیں بہت ہی تفصیل سے اور آسان جواب دیتے ہیں۔ منطقات نو اکتوبر دو ہزار اکیس میں شائع ہوئی۔ اس میں ڈاکٹر معین نظامی، ڈاکٹر محمد افتخار شفیع اور مصنف خود " حرفے چند " کے عنوان سے مضامین شامل ہیں۔ جو مضامین فہرست میں شامل ہیں۔ وہ دیکھ لیجیے
ایک زمانہ ختم ہوا۔۔۔
ڈاکٹر ناصر عباس نئیر کے افسانوں پر مشتمل ہے۔ اس پر تنقیدی مضمون پوسٹ ماڈرن درویش کی جانب سے ایک برگِ سبز، دھوپ عہد کے افسانے، "شجر سایہ دار": ایک شذرہ، اکرم کنجاہی اور محاسن فکروفن'، خود نوشت سوانح عمری: چند معروضات، یہ نثر ہے یا شعاعوں کا رقص، طرز یوسفی میں خطبہ لکھنا، جاوداں کہانیاں، عریاں حقیقت میں مضمر افسانے، علامہ اقبال اور جواہر لال نہرو، جل پری اور سعود عثمانی کی جادوگری، مغربی آزادی ء اظہار کے شاخسانہ، سورج کے پھول، دلنواز و دلآ ویز، محبت زندگی ہے، سخن گو شاہدہ دلاور شاہ دا نعتیہ روپ.....
اس کے بعد اکیس ادبی کالم، سولہ شخصی خاکے، پانچ افسانوں کے تجزیے، سات خطوط، کالم کہانی۔۔ چھٹا گلاس فکاہیہ اور یہ کتابیں، یہ کتابیں۔۔۔ یہ چار سو چوبیس صفحات پر مشتمل خزانہ ہے جس سے اردو ادب کے طالب فیض پاسکتے ہیں۔ یہ کتاب پڑھتے پڑھتے مجھے تو اپنا آپ ایک طفل مکتب ہی لگا۔ یقین کریں چودہ طبق روشن ہوگئے۔ ایسی اعلیٰ اور مرصع نثر کہ طبیعت خوش ہوگئی۔ ڈاکٹر معین نظامی لکھتے ہیں:
"جمال و اعتدال کی زیبائی اگر تخلیق اور تحقیق کے ابریشمیں پیکر میں مجسم ہو کر خوش سلیقگی سے خودنما ہوتو سامنے دل و نظر کی خیرگی و سرشاری بدیہی اور فطری امر ہے. جمیل احمد عدیل کی فکر افروز اور دل انگیز علمی، ادبی اور تحقیقی تحریریں تاثیر و تسکین کا ایسا ہی حنا رنگ ایوانِ خاص ہیں۔ "
اب میری رائے بنتی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ یہ کتاب آپ کے پاس ہونی چاہیے بس۔ کتاب بہترین دوست اور ہمراز ہے. کتاب کی اہمیت اور افادیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوئی .ختم ہونا تو بعید از قیاس ہے. دورِجدید کے تقاضوں نے کتاب پڑھنے والوں کی توجہ کو متزلزل کیا لیکن ختم نہیں کر سکے. کچھ ہی وقت میں بینائی سوشل میڈیا پر کتاب ڈھونڈنے اور پڑھنے سے اوب گئی. اصل مزہ اور احساسِ زندگی تو کتاب کے لمس میں نہاں ہے. اور لمس کے احساس سے نظر چرانا ممکن ہی نہیں.
دورِ حاضر کے بہترین نثر نگار اور نظم کے شاعر. اس سب سے بڑھ کر سنجیدہ اور زیرک نظر نقاد جناب جمیل احمد عدیل کی کتابیں مجھے موصول ہوئی ہیں گویا خزانہ ہاتھ لگ گیا. بہت اشتیاق تھا کہ جن کے بارے میں ہر ادبی حلقے کی رائے ناصرف مثبت ہے بلکہ محبت سے ذکر کیا جاتا ہے. ان کی تمام تحریریں میں بھی پڑھوں. وقت شنید تھا شاید. کتابیں جب میں نے سنگِ میل سے جاکر وصول کیں تو مجھے خواب آگیں سی کیفیت نے گھیر لیا. میرا دل تو چاہ رہا تھا سنگِ میل کی ساری کتابیں بانہوں میں بھر کر بھاگ جاؤں. لیکن.... اے حسرتِ ناکام !
ذرا ایک نظر دیکھتے ہیں سینئرز ادباء اور نقاد جناب جمیل احمد عدیل کے بارے میں کیا کہتے ہیں. آپکا دل بھی کتابوں کے حصول کی رغبت اور حسرت سے بھر جائے گا. مضطرب ہوکر کوئی صورت نکالیں گے کہ یہ کتابیں آپ کے ہاتھ میں بھی جلد از جلد آئیں.
"ھاویہ" کے متعلق ڈاکٹر سید شبیہہ الحسن یوں رقمطراز ہیں.
"جمیل احمد عدیل کےافسانوں کا یہ مجموعہ اردو ادب کے شائقین کے لیے فکری اورفنی ہرسطح پر ایک نعمتِ غیر مترقبہ ثابت ہوگا. میرے خیال میں "ھاویہ" ان کے گزشتہ سے پیوستہ تخلیقی سفر کا شیریں ثمر ہے. جمیل احمد عدیل کے تمام افسانوی مجموعوں اور خصوصاً "ھاویہ" میں دونوں قسم کی کہانیاں ہمارے سامنے آتی ہیں. وہ ظاہری آنکھوں سے نظر آنے والے معاشروں اور کرداروں کو بھی پیش کرتے ہیں اور چشمِ تخیل سے دکھائی دینے والے سماج کو بھی پیش کرتے ہیں. "
جناب افتخار مجاز "ھاویہ " کے بارے میں کہتے ہیں.
"آپ یقین کریں کہ جب میں برادرِ عزیز جمیل احمد عدیل کی کہانیوں کا مسودہ "ہاویہ" پڑھ رہا تھا تو مجھے دوران مطالعہ مذکورہ بالا تمثیل رہ رہ کر یادآرہی تھی. اور زیرخواندگی کہانیوں کے موضوعات وکردار پڑھتے ہوئے جمیل احمد عدیل مجھے عین میں اسی سنگ تراش مجسمہ ساز جیسے لگ رہے تھے جویہ کہانیاں تخلیق کرتے ہوئے معاشرے میں ہمارے ارد گر د پھیلے ہوئے کرداروں اور واقعات کے خام مواد کو اولا" جمع کرکے آفر ثانیا" فاضلات کو منہا کر کے بے حد خوب صورتی,کامیابی اور مہارت سے انہیں کہانی کا روپ دے لیتے ہیں جبکہ ہم وہیں پہ ہونے کے باوجود ان موضوعات کی Potential worth اور کرداروں کے Weightage حتی کہ ان کی موجودگی کا ادراک نہیں کر پاتے"
جناب ممتاز مفتی اردو ادب کا پسندیدہ ترین نام جمیل احمد عدیل کی کتاب "بیتا ہوا مستقبل" کے بارے رائے دیتے ہیں کہ:
"جمیل احمد عدیل آندھی کی طرح آیا اور چھا گیا.میں خوف زدہ ہوگیا کہ یہ "سکندر" کہاں سے آگیا؟
جمیل احمد عدیل ایک فلسفی ہےفلسفی ایک وقار بھرا لفظ ہے. وقار بھرے لفظ سے کہتے نہیں چھپاتے ہیں. مطلب ہے سوچوں کا مارا ہوا عدیل. سوچوں کا مارا ہوا فرد ہے. جمیل احمد عدیل دو آتشہ ہے. سوچوں کے ساتھ ساتھ اسکی حسیات میں بھی شدت ہے.سیانے کہتے ہیں دونوں میں شدت ہو تو انسان پھانسی پر لٹک جاتا ہے. سوچیں اور محسوسات دو سوکنیں ہیں. دونوں میں ہروقت ٹھنی رہتی ہے. عدیل کا بند بند پھانسی پر لٹکا رہتا ہے. "
"نئے ستارے نیا آسمان "میں ڈاکٹر اشفاق احمد ورک لکھتے ہیں.
"بلاشبہ لمحہ موجود میں جمیل احمد عدیل اردو ادب کا وہ خوبرو جوان ہے جس کے اندراحساسات و جذبات کےمتعدد چشمے پھوٹے پڑتے ہیں اسے خداتعالی' نےتخیل کی بےپناہ دولت سے بھی مالا مال کر رکھا ہےاور اظہار تخیل کی خوب صورت پرکاری بھی عطاکر رکھی ہے. "
نگرانِ مطالعہ کی ژرف بیں نظر کس حد تک مطمئن ہو پائے گی؟
زیرِتحقیق شخصیت اس مجموعہ سے کیا تاثر قبول کرے گی ؟ کہ دونوں اصحاب علمی دنیا میں غیر معمولی مقام و مرتبہ کے مالک ہیں.چناں چہ ان استفہامات نے جس عملِ سیمیا کو مسلسل نصیب بنائے رکھا, اس کے نتیجے میں تحریری مواد کا دو تہائی اول الذکر کی خاطر مسترد کردیا اور ایک چوتھائی ثانی الذکر کو فرض کرکے منہا کردیا. راقم اگر ریاضی میں طاق ہوتا تو شاعر ہونے کی آرزو کب کی پوری ہوچکی ہوتی. لہٰذا ایڈٹ ہونے کے بعد جو باقی بچا ہے. اس کا عددی/ اقلیدسی جواب مہیا کرنے سے یکسر قاصر ہوں.
تاہم جو شیرازہ بند ہوا ہے اسے 'بغیر حساب' پیش کیا جا رہا ہے.... گر قبول افراد....! !"
جمیل احمد عدیل ایسی محبتی اور قدر شناس شخصیت کے حامل انسان کی تحریروں میں بھی بلا کی شفافیت ہے. بیان ایسا ہے کہ شخصیت گویا آئینے کے روبرو ہے. "تفرید"کے بارے جناب جمیل احمد عدیل کا کہنا ہے :
"اس مجموعے کا عنوان:"تفرید" اور ذیلی عنوان:'چند تحریریں' ہے. ہوسکتاہے کوئی بہت ہی دراک نظر اس میں پیراڈوکسی تلاش کر لے. لیکن راقم کی رائے میں یہ صورت حال بعد یا تناقض سے دوری پر واقع ہوگی کہ 'لفظ' وہ بنیادی اکائی ہے جو وحدت کی ترجمانی کے لئے کافی ہے. نیز علم اور ادب جداگانہ منطقوں کے باوجود مشترک سرحد رکھتے ہیں. یعنی اس مجموعے میں زیادہ تر نگارشات ادبی موضوعات سے ربط رکھتی ہیں. چند تحاریر فکری و نظری یا علمی جہات کی پیش کار ہیں. "
یہ تو ہے جناب جمیل احمد عدیل کی کتابوں سے آپکو متعارف کروانے اور ان کے بارے میں احبابِ ذی وقار کی قیمتی آراء سے شناسا کرنے کی ایک چھوٹی سی کوشش تھی۔ نیک خواہشات
تبصرہ لکھیے