ہوم << دنیا کے سب سے پراسرار شخص کی کہانی - ضیاء چترالی

دنیا کے سب سے پراسرار شخص کی کہانی - ضیاء چترالی

قدسیوں کے "مہمان" پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہاں تک کہ رات سے ایکس پر انہی کا نام ٹرینڈ کر رہا ہے۔ مگر اس کے نائب کو بہت کم لوگ ہی جاتے ہیں۔ نائب بھی مہمان کی طرح نہایت پراسرار شخصیت تھے۔ آیئے "قدسیوں کے کمانڈو" اور "دماغی جنگ کے کمانڈر" سے ملاقات کرتے ہیں۔

کل شام جانباز ترجمان نے اپنے کمانڈر انچیف کے ساتھ ان کے نائب سمیت 7 قائدین کی شہادت کا اعلان کیا۔ ان میں کماندار اعلیٰ د ی اب ابراہیم المعروف محمد ض ی ف اور ان کے نائب ابوالبرا مروان عیسیٰ بھی شامل تھے۔ ابو البرا عسکری ونگ کے ساتھ ح، م، اس کی سیاسی قیادت کے بھی رکن رکین تھے۔ 1965 میں پیدا ہوئے اور ان کی انتھک کوششوں نے ق، س، ام کو اسرائیل کے لیے ایک حقیقی خطرہ بنا دیا اور اسرائیل نے انہیں اپنی سب سے زیادہ مطلوب شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔ اسرائیلی فورسز نے انہیں پہلے انتفاضہ کے دوران پانچ سال (1987-1993) تک قید رکھا، کیونکہ وہ ح م ا س کی صفوں میں تنظیمی سرگرمیوں کے نگران تھے، جس میں وہ نوجوانی ہی میں شامل ہو گئے تھے۔ 87ء میں شروع ہونے والا کانٹوں کا یہ سفر 2024ء میں منزل مقصود سے ہمکنار ہوا۔

اسرائیل نے مروان کے قتل کی بہت کوشش کی، کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ جب تک وہ زندہ ہے، ح م ا س اور اسرائیل کے درمیان "دماغی جنگ" جاری رہے گی۔ اسرائیل نے اسے "الفاظ نہیں، بلکہ افعال کا آدمی" قرار دیا اور کہا کہ وہ اتنا ذہین ہے کہ "پلاسٹک کو دھات میں تبدیل کر سکتا ہے"۔

پیدائش اور پرورش:
مروان عبد الکریم عیسیٰ، جسے ابو البراء کے لقب سے جانا جاتا ہے، 1965 میں غزہ کے وسطی علاقے میں واقع "مخیم البریج" میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ 1948 کے نکبے کے دوران "بیت طیما" گاؤں سے بے دخل ہونے کے بعد اس گاؤں کی واپسی کا خواب لیے ہوئے بڑے ہوئے۔ عیسیٰ نے اپنے نوجوانی کے دوران جماعتِ اسلامی سے تعلق قائم کیا اور اس کی دعوتی، سماجی اور تنظیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ وہ اپنے ساتھیوں میں جسمانی طور پر مضبوط تھے اور کھیلوں میں بھی نمایاں تھے۔ وہ باسکٹ بال کے کھلاڑی کے طور پر بھی مشہور تھے اور "کمانڈوز فلسطین" کے لقب سے جانے جاتے تھے اور "خدمات البریج کلب" کی ٹیم میں اپنے شاندار کھیل کی بدولت مشہور ہوئے۔ اس کے باوجود ابو البراء کی کھیلوں کی زندگی کا سفر ناتمام رہ گیا، 1987ء میں اس نے ایک دوسرے راستے کا سفر اختیار کرلیا۔ جس کی منزل جنت ہے۔ وہ ح، م اس کا حصہ بن گیا اور اسرائیلی فوج نے اسے اسی الزام میں گرفتار کر لیا۔ اس کے بعد فلسطینی اتھارٹی نے 1997 میں بھی اسے گرفتار کر لیا اور وہ 2000 میں انتفاضہ الاقصیٰ کے آغاز کے بعد ہی رہا ہوا۔ جب اسے رہا کیا گیا تو اس نے کھیلوں کو چھوڑ دیا اور اپنی تقدیر کا نیا راستہ اپنایا، جس کا مقصد مقدس سرزمین کے دفاع کے فرض کو پورا کرنا تھا۔ اسی جذبے کے تحت اس نے ق، س، ام میں شمولیت اختیار کی اور اس وقت اس کی عمر 19 سال تھی۔
ح م ا س میں شمولیت کی طرف رہنمائی اس وقت کے رہنما ابراہیم المقادمة نے کی، جو ابو البراء کو ہر ہفتے مسجد میں درس دیتے تھے اور انہوں نے اس میں ایسی بصیرت اور ذہانت دیکھی جو اسے اپنے ہم عمر ساتھیوں سے ممتاز کرتی تھی۔

تجربہ فوجی:
مروان عیسیٰ کا جیل میں گزارا وقت اس کی فکری نشوونما کا حصہ بن گیا، جہاں اس نے ق س ا می فکر کو اپنا لیا اور جیل سے باہر آنے کے بعد فوراً اس میں شامل ہو گیا۔ اس کے بعد سے وہ بتدریج ق، س، ام کے مختلف عہدوں پر فائز ہوتا گیا، یہاں تک کہ وہ ان رہنماؤں میں شامل ہو گیا جو آپریشنز اور جنگوں کے فیصلے کرنے میں آزادانہ طور پر فیصلے کرتے تھے یا س، ن، وار، جو اُس وقت غزہ میں حماس کے قائد تھے، کے ساتھ مشاورت کرتے تھے۔

ابو البراء 1996 کی اس فدائی کارروائیوں کی ٹیم کا حصہ تھے، جو انجینئر یحییٰ عیاش کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے کی گئی تھیں اور اس کے ساتھ دیگر اہم شخصیات جیسے "مہمان" اور حسن سلامہ بھی شامل تھے۔ اس کارروائی کے بعد اسے 4 سال تک قید رکھا گیا اور پھر انتفاضہ الاقصیٰ کے آغاز کے بعد 2000 میں رہا کیا گیا۔ رہائی کے بعد، ابوالبرا کا کردار ق، س ام میں انتہائی اہم تھا، جہاں اس نے تنظیم کو نیم فوجی دستے سے ایک مکمل فوجی ڈھانچے میں تبدیل کیا، جس میں مختلف یونٹس، بریگیڈز اور شعبے شامل تھے اور باقاعدہ ایک فوج کی بنیاد پر کام کرنے کا آغاز کیا۔

وہ اس وقت تک عوامی سطح بہت کم مشہور رہے، یہاں تک کہ ستمبر 2005 میں ق، س، ام نے ایک بیان میں ان کے نام کو صف اول کے قائدین میں شامل کیا، یہ بیان اسرائیل کے غزہ سے انخلاء سے دس دن پہلے جاری کیا گیا تھا۔ غزہ سے اسرائیلی انخلا کے دوران، ق، س ام نے "فجر الانتصار" کے نام سے ایک خصوصی نشریہ جاری کیا، جس میں بریگیڈ کے کئی قائدین کے ساتھ انٹرویوز شامل تھے۔ اس نشریئے میں ابو البراء کو "مستوطنات کے آپریشنز کے ذمہ دار" کے طور پر متعارف کرایا گیا اور اس نے ان آپریشنز کی نوعیت کے بارے میں بات کی، جن کی بنیاد صلاح شحادة، جو بریگیڈ کے سابق کمانڈر تھے، نے رکھی تھی۔ ابوالبراء نے کہا: "ہم نے فیصلہ کیا کہ جنگ کو قابضین کے گھروں تک لے جائیں۔"

ابو البراء نے بتایا کہ یہ آپریشنز کیسے کیے جاتے ہیں، جن میں "مقابلہ کرنے والوں کو شدید محنت، تربیت اور مسلسل تیاری کی ضرورت ہوتی ہے"۔ وہ اس کا آغاز مشاہدات اور نگرانی کے آپریشنز سے کرتے ہیں، جو کئی ہفتوں تک جاری رہ سکتے ہیں، پھر جو معلومات جمع کی جاتی ہیں انہیں قیادت کو بھیجا جاتا ہے، جہاں تفصیلات پر بحث کی جاتی ہے اور ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تاکہ یہ جائزہ لیا جا سکے کہ آپریشن کو عملی جامہ پہنانا ممکن ہے یا نہیں اور اس میں "زیادہ سے زیادہ کامیابی اور کم سے کم نقصان" کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

اسرائیلی رپورٹوں کے مطابق، ابو البراء کی کوششیں انتفاضہ الاقصیٰ کے دوران دو سمتوں میں مرکوز تھیں: پہلی یہ کہ بریگیڈ کو منظم کرنا اور اس کے فوجی ڈھانچے کو مختلف چھوٹی بریگیڈز، یونٹس اور گروپوں میں ترتیب دینا، اور دوسری یہ کہ 2004 میں انجینئر عدنان الغول کے شہید ہونے کے بعد خلا کو پر کرنا، اور اسلحے کی مقامی پیداوار کے منصوبے پر کام کرنا تاکہ مزاحمت کے لیے زمینی، سمندری اور فضائی طور پر مدد فراہم کی جا سکے۔ دوسرے انتفاضہ کے بعد ابو البراء کے اہم کردار کے باعث، اسرائیل نے اس کا پیچھا شروع کر دیا اور اسے نشانہ بنانے کے لیے سب سے زیادہ مطلوب شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا۔ 2006 میں جب وہ، ض،،یف اور دیگر قیادت کے ارکان ایک اجلاس میں تھے، اسرائیل نے اسے نشانہ بنانے کی کوشش کی، مگر وہ زخمی ہو کر اس اجلاس سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گیا اور اسرائیل کا مقصد پورا نہ ہوسکا۔

اس کے بعد اسرائیلی جنگی طیاروں نے 2014 اور 2021 میں غزہ پر حملوں کے دوران اس کا گھر دو بار تباہ کیا اور 2021 کے حملے میں اس کے بھائی وائل شہید ہو گئے۔2009 میں غزہ کے محاصرے کے دوران، اس کے 9 سالہ بیٹے براء کو گردے کی ناکامی کا سامنا تھا اور اس کے باوجود اسے علاج کے لیے غزہ سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ بالآخر، اس کا بیٹا شہید ہوگیا اور وہ غزہ پر عائد محاصرے کی وجہ سے شہید ہونے والا 359 واں شخص بن گیا۔ اسی بچے کے نام پر مروان کی کنیت "ابوالبراء" ہے۔

ابو البراء کا چہرہ 2011 سے پہلے زیادہ معروف نہیں تھا، تاہم وہ "وفاء الاحرار" معاہدے کے تحت اسیران کی رہائی کے دوران ایک اجتماعی تصویر میں نظر آئے، جو اسرائیلی فوجی گیلاد شالیط کے بدلے میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے موقع پر لی گئی تھی۔ اس تصویر میں خالد مشعل، صالح العاروری اور احمد الجعبری بھی موجود تھے اور اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ تصویر میں ان کے ساتھ موجود شخص مروان عیسیٰ ہے۔

"مستوطنات کے آپریشنز کے ذمہ دار" ابو البراء کی حکمت عملی اور کوششیں غزہ کی جنگوں میں واضح طور پر سامنے آئیں، جن میں "حجارۃ السجيل" 2012 سے لے کر "طوفان الأقصی" 2023 تک شامل ہیں۔ ان جنگوں میں زمینی، انٹیلی جنس اور ٹیکنیکی فورسز کی طاقت اور آپریشنز کی منظم اور تفصیلی منصوبہ بندی دکھائی دی، خاص طور پر مستوطنات (آبادگاروں کے مقبوضہ رہائشی علاقے) اور سیکورٹی مراکز پر حملوں میں ان کی خصوصی توجہ نمایاں رہی۔ اس "طوفان الأقصی" جنگ میں ابوالبرا کی حکمت عملی اور طریقہ کار خاص طور پر واضح ہوئے، جہاں انہوں نے خصوصی فورسز اور "کمانڈوز" کے زمینی اور سمندری آپریشنز کی قیادت کی۔ انہوں نے خود غزہ کی سرحدی باڑ کو عبور کیا اور غزہ کے آس پاس کے مستوطنات میں 40 کلومیٹر تک اندر داخل ہو کر ان پر حملہ کیا۔

اس کے علاوہ، ابو البرا نے اسلحہ سازی میں بھی اہم کردار ادا کیا، جس کے نتیجے میں راکٹوں کی رینج اور تباہ کن طاقت میں زبردست اضافہ ہوا اور بریگیڈ دفاعی پوزیشن سے اٹیکنگ پوزیشن پر آگئی۔ ابو البرا کی فوجی ترقی کی جانب خاص توجہ نے جانبازوں کو ڈرون طیارے حاصل کرنے میں مدد دی، انہوں نے ایلیٹ فورسز تشکیل دیں اور حملے کے لیے سرنگیں کھودیں، ساتھ ہی ایک بحری کمانڈو یونٹ بھی بنایا جس نے عسقلان کے ساحل پر کئی حملے کیے اور اسرائیل کو بھاری نقصان پہنچایا۔

سیاسی تجربہ
اپنے فوجی تجربے کے علاوہ، ابو البرا کا سیاسی میدان میں بھی اہم کردار رہا۔ 2015 میں غزہ میں الرباط یونیورسٹی کے ایک سائنسی سیمینار میں انہوں نے طاقت کو بڑھانے اور اتحادیوں کے ساتھ اسلحے کی فراہمی کے حوالے سے جاری کوششوں کے بارے میں گفتگو کی اور مصر کی عدالت کے اس فیصلے پر بھی تبصرہ کیا جس میں ح م ا س کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ "ح م ا س اور اس کے فوجی دھڑے کو عالمی اور علاقائی سطح پر محاصرے کی تمام کوششیں ناکام ہوں گی" اور تین ماہ بعد اس فیصلے کو عدالت نے واپس لے لیا۔2017 میں ابو البراء ایک فوجی سیاسی وفد کے ساتھ مصر پہنچے، جہاں انہوں نے قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات کیے۔ اس کے بعد بھی مختلف مواقع پر مصر کا دورہ کیا تاکہ قیدیوں، جنگ بندی اور سرحدی گزرگاہوں کے حوالے سے بات چیت کر سکیں۔ 2017ء میں مروان عیسیٰ کو ح م ا س کے سیاسی دفتر کا رکن منتخب کیا گیا۔

2019 میں، وہ امریکی دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیے گئے۔ پھر 2021 میں انہیں دوبارہ اسی عہدے کے لیے منتخب کیا گیا اور اس بار وہ دفتر کے ارکان کی اجتماعی تصویر میں ماسک پہنے ہوئے نظر آئے۔ اسی سال جون میں، ابو البراء الجزیرہ چینل کے پروگرام "ما خفي أعظم" میں ایک مہمان کے طور پر شامل ہوئے، جہاں انہوں نے مزاحمت کی طاقتوں کے بارے میں بات کی اور یہ بتایا کہ کس طرح یہ طاقتیں قیدیوں کے تبادلے کے لیے ایک معاہدہ مکمل کر سکتی ہیں۔

بعد ازاں، 2022 میں، وہ دو دستاویزی فلموں میں نظر آئے جو کتائب القسام نے "سيف القدس" کی جنگ کی پہلی سالگرہ پر جاری کیں۔ مارچ 2023 میں، مروان عیسیٰ نے خبردار کیا کہ اگر مسجد الاقصیٰ کو نقصان پہنچا تو "ایک زلزلہ پورے علاقے کو متاثر کرے گا" اور کہا کہ اسرائیل نے "اوسلو معاہدے کو ختم کر دیا ہے اور آنے والے دنوں میں بہت سی اہم باتیں ہوں گی" اور یہی بات 7 اکتوبر 2023 کو "طوفان الأقصیٰ" کی جنگ کے اعلان کے ساتھ سچ ثابت ہوئی۔

مناصب اور ذمہ داریاں:
2017 میں ح م ا س کے سیاسی دفتر کا رکن منتخب ہوئے اور پھر 2021 میں دوبارہ منتخب ہوئے۔ 2011 میں "وفاء الأحرار" معاہدے کے معماروں میں سے ایک۔ ق، س، ام کی فوجی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ذمہ دار۔ 2000 میں صلاح شحادة کے ساتھ مل کر ق، س،ام کی تنظیم نو میں حصہ لیا۔

2012 میں بریگیڈ کے دوسرے اہم ترین شخص۔ فوجی قیادت اور سیاسی قیادت کے درمیان رابطے کی اہم کڑی۔ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی قیدیوں کے تبادلے کی ذمہ داری رکھنے والی قیادت میں سے ایک۔ بریگیڈ کے مستوطنات آپریشنز کے ذمہ دار۔