کئی دوست نئے قانون کی مذمت کررہے ہیں، تو کئی اس کا دفاع بھی کررہے ہیں۔ کچھ اسے اظہارِ راے اور میڈیا کی آزادی پر حملہ قرار دے رہے ہیں، تو کچھ اسے جھوٹی خبروں کا پھیلاؤ روکنے کےلیے ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان عمومی نوعیت کے جملوں سے قانون کے متن کے متعلق کچھ معلوم نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ نیا قانون کہتا کیا ہے؟ آئیے دیکھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام
اس قانون کے تحت سب سے اہم کام” سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی “ کا قیام ہے۔ اس اتھارٹی کے چیئرمین کے علاوہ 8 ارکان ہوں گے، جن میں درج ذیل 3 ارکان تو بلحاظِ عہدہ ہوں گے:
سیکرٹری، وزارتِ داخلہ؛
چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی ( پیمرا)؛ اور
چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) یا ان کا نمائندہ رکن؛
جبکہ 5 ارکان اور چیئرمین کا تقرر حکومت الگ سے کرے گی اور ان 6 افراد کی مدتِ عہدہ پانچ سال ہوگی۔ ان میں کسی کو مدتِ عہدہ پوری ہونے سے قبل صرف جسمانی یا ذہنی معذوری کی صورت میں یا بدعنوانی ثابت ہونے پر ہی ہٹایا جاسکے گا۔ بدعنوانی سے مراد اختیارات کا غلط یا بے جا استعمال ہے۔
ان 6 افراد کےلیے مقررہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ بھی دیکھ لیجیے:
چیئرمین کےلیے ضروری ہے کہ اس کے پاس بیچلر کی ڈگری ہو، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی، قانون، سوشل میڈیا کے نظم و نسق یا متعلقہ ٹیکنالوجی میں 15 سال کا تجربہ ہو۔
دیگر 5 ارکان کےلیے طے کیا گیا ہے کہ ان میں:
- ایک صحافی ہو جو کسی پریس کلب کا باقاعدہ رکن ہو اور اس کے پاس صحافت یا آرٹس میں بیچلر کی ڈگری اور متعلقہ شعبے میں 10 سال کا تجربہ ہو؛
- ایک سوفٹ ویئر انجنیئر جس کے پاس متعلقہ بیچلر ڈگری اور 10 سال کا تجربہ ہو؛
- ایک وکیل جس کے پاس متعلقہ بیچلر ڈگری اور 10 سال کا تجربہ ہو؛
- ایک سوشل میڈیا پروفیشنل ہو جس کے پاس متعلقہ بیچلر ڈگری اور 10 سال کا تجربہ ہو؛ اور
- نجی سطح پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کا کاروبار رکھنے والا شخص ہو جس کے پاس متعلقہ بیچلر ڈگری اور 10 سال کا تجربہ ہو۔
5 ارکان مطالبہ کریں، تو اتھارٹی کا اجلاس بلایا جاسکے گا، بشرطے کہ ان 5 ارکان میں چیئرمین بھی ہوں اور 2 ایسے ارکان بھی ہوں جو بلحاظِ عہدہ رکن ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر چیئرمین نہ چاہے، تو اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔ نیز چیئرمین کے علاوہ سرکاری ارکان میں کم از کم 2 ارکان مطالبے میں شریک ہوں، تبھی اجلاس بلایا جاسکے گا۔ کل 9 میں سے 5 ارکان غیر سرکاری ہیں اور اس لحاظ سے وہ اکثریت میں ہیں لیکن جب تک ان کے ساتھ چیئرمین اور سرکاری ارکان شریک نہ ہوں، وہ اجلاس نہیں بلاسکیں گے۔
اجلاس کےلیے ارکان کو کم از کم 7 دن پہلے اطلاع دینی ضروری ہے۔ ارکان اجلاس میں آن لائن بھی شریک ہوسکیں گے۔
چیئرمین کی عدم موجودگی میں ارکان اپنے میں سے کسی کو کثرتِ راے سے چیئرمین منتخب کرسکیں گے۔
اجلاس میں فیصلے کثرتِ راے پر ہوں گے اور ارکان برابر تقسیم ہوں، تو پھر چیئرمین کا ووٹ فیصلہ کن ہوگا۔
ہر رکن اور چیئرمین کی راے الگ الگ ذکر کرنی ہوگی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ اتھارٹی کرے گی کیا؟
سوشل میڈیا اتھارٹی کا کام
نئے قانون میں اس اتھارٹی کے بہت سارے کام ذکر کیے گئے ہیں، جیسے متعلقہ شعبوں میں تعلیم کا فروغ، سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی ترویج، ترغیب اور فروغ، عوام میں آگاہی پھیلانا، آن لائن تحفظ کی فراہمی وغیرہ لیکن درج ذیل کام بہت اہم ہیں:
- سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی اجازت، معطلی یا جزوی یا مکمل طور پر بلاک کرنا؛
- غیر قانونی یا نامناسب مواد 30 دنوں کےلیے ہٹانے یا بلاک کرنے کےلیے متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کرنا؛
- اس قانون یا اس کے تحت بنائے گئے قواعد کی خلاف ورزی کی شکایات پر کارروائی اور جرمانہ عائد کرنا۔
کوئی بھی شخص جسے جھوٹی یا غلط خبر کی وجہ سے نقصان پہنچا ہو، وہ اس اتھارٹی کو مذکورہ معلومات ہٹانے یا بلاک کرنے کےلیے شکایت کرسکے گا، جس پر اتھارٹی فوراً، اور زیادہ سے زیادہ 24 گھنٹوں میں، مناسب حکم جاری کرے گی۔
اہم بات یہ ہے کہ چونکہ اتھارٹی کا کام بہت زیادہ ہے، اور یقیناً اس کے قیام کے ساتھ ہی اس کے سامنے شکایات کا انبار بھی لگ جائے گا، جبکہ اتھارٹی کا اجلاس مسلسل منعقد کرنا ممکن ہی نہیں ہوگا، اس لیے قانون نے اتھارٹی کو اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے اختیارات چیئرمین، یا کسی رکن، یا ”اتھارٹی کے افسران“ کو تفویض کرسکتی ہے۔ اس سے کچھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مستقبل میں اس کی عملی صورت کیا بنے گی؟
البتہ بعض خصوصی اختیارات ہیں جنھیں ناقابلِ تفویض قرار دیا گیا ہے، یعنی یہ اختیارات اتھارٹی ہی استعمال کرسکے گی، نہ کہ اس کا چیئرمین، کوئی رکن یا افسران۔
ناقابلِ تفویض اختیارات
ان اختیارات میں ایک اہم اختیار سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی رجسٹریشن ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے مفہوم میں وہ تمام ویب سائٹ شامل ہیں جو لوگوں کو اکاؤنٹ کھولنے اور اپنا مواد دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے کی سہولت دیتے ہیں، لیکن پی ٹی اے نے جن چینلوں کو لائسنس دیے ہیں وہ اس کے مفہوم میں شامل نہیں ہیں (ان پر پی ٹی اے اور پیمرا کے قوانین کا اطلاق ہوتا ہے، نہ کہ سوشل میڈیا کے قانون کا)۔
دوسرا اہم اختیاربعض مخصوص اسباب کی بنا پر آن لائن موجود مواد کو ہٹانے یا عارضی یا مستقل طور پر بلاک کرنے کا ہے۔ درج ذیل مخصوص اسباب کی بنا پر یہ اختیار استعمال کیا جاسکتا ہے کہ:
- یہ مواد نظریۂ پاکستان کے خلاف ہے؛
- لوگوں کو قانون شکنی یا قانون ہاتھ میں لینے پر اکساتا ہے؛
- لوگوں کو حکومتی املاک کو نقصان پہنچانے کی ترغیب دیتا ہے؛
- لوگوں کو تجارت یا شہری امور بند کرنےکی ترغیب یا دھمکی دیتا ہے؛
- مذہبی، فرقہ وارانہ یا لسانی بنیادوں پر نفرت پھیلاتا ہے؛
- فحاشی یا عریانی پر مبنی ہے؛
- جھوٹ ہے یا گھڑا ہوا ہے؛
- عدلیہ، مسلح افواج، ارکانِ پارلیمان یا ارکانِ صوبائی اسمبلی کے خلاف منافرت پھیلاتا ہے؛
- ریاست یا اس کے اداروں کے خلاف تشدد یا دہشت گردی پر اکساتا ہے۔
یہاں قانون نے یہ پابندی بھی لگائی ہے کہ اسمبلی یا پارلیمان کی کارروائی سے جو مواد حذف کیا گیا ہو، اسے سوشل میڈیا پر نشر یا شائع نہیں کیا جائے گا۔ اسی طرح جن تنظیموں پر پابندی لگائی گئی ہے، ان کے بیانات سوشل میڈیا پر نشر یا شائع نہیں کیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر لازم کیا گیا ہے کہ ایسے امور میں شکایات پر کارروائی کےلیے وہ مؤثر اور شفاف بندوبست کریں۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا، ان مخصوص امور سے متعلق اختیارات اتھارٹی کے چیئرمین، ارکان یا افسران کو تفویض نہیں کیے جاسکتے۔ ان امور کےلیے قانون نے ایک مستقل سیل بنانے کےلیے کہا ہے۔
تبصرہ لکھیے