ہوم << ہندوستان میں موجود علمی خانوادوں کے خاص ڈی این اے کا راز!ڈاکٹر محمد عادل خان

ہندوستان میں موجود علمی خانوادوں کے خاص ڈی این اے کا راز!ڈاکٹر محمد عادل خان

اکثر و بیشتر یہ بات سننے کو مل جاتی ہے، کہ فلاں خانوادہ بہت علمی ہے، اس کے اندر بے پناہ صلاحیتیں ہیں، ان کا نسب فلاں سے جڑتا ہے، وہ سادات میں سے ہے، فلاں خانوادہ کا ہر بچہ صلاحیت مند پیدا ہوتا ہے وغیرہ! اور اس بنیاد پر عوام تنظیموں اور اداروں پر ان کی اجارہ داری اور تسلط کو جائز سمجھنے لگتے ہیں، یہ بات مشہور ہوجاتی ہے کہ فلاں خاندان کے پاس جب تک ادارے کی ذمہ داری ہے، تب تک ادارہ کامیاب ہے. الٹا معترضین سے یہ سوال پوچھا جانے لگتا ہے کہ آخر اس خانوادہ نے اس تنظیم یا ادارے سے کیا لیا ہے؟ فلاں خانوادہ نے ادارے کی خدمات کے لیے دنیا کی تمام عیش و عشرت کو تج دیا ہے اور سادگی پسند بن کر زندگی گزار رہا ہے وغیرہ ـ

پہلے تو ہم علمی خانوادوں کی پیدائش پر بات کرلیتے ہیں، ہندوستان کے دیوبندی طبقے میں چند مشہور خانوادے ہیں جن کو علمی و دینی خانوادہ سمجھا جاتا ہے، مثلا مدنی خانوادہ، حسنی خانوادہ، کاندھلوی خانوادہ، رحمانی خانوادہ، حسینی خانوادہ وغیرہ. دیوبندی عوام کی نظر میں ان خانوادوں کو تمام اختیارات حاصل ہیں، بلکہ نئی شریعت بنانے کا حق بھی حاصل ہے، اداروں پر قبضہ کرنے، ان کے اصول و ضوابط میں رد و بدل کرنے، مقاصد کو تبدیل کرنے یہاں تک ادارے میں موجود افراد کے مقدر کا فیصلہ کرنے کا بھی مکمل اختیار ہے ـ

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان خانوادوں کو یہ اختیار اللہ کی جانب سے ملا ہوا ہے؟ رسول اللہ کی جانب سے ملا ہوا ہے؟ یا ان کے ڈی این اے میں کچھ مخصوص قسم کے جینز ہیں جن کے سبب ان کے ہر غلط فیصلے کو قبول کرنا عوام الناس پر واجب ہے، اور معترضین کو دماغی مریض اور اسلام مخالف سمجھنا ضروری قرار پاتا ہے؟
ہم جب کلام اللہ میں دیکھتے ہیں تو ایسی کوئی دلیل نہیں پاتے، رسول اللہ کی احادیث میں بھی ایسی کوئی بات نہیں ملتی، اب صرف ایک ہی چیز باقی رہ جاتی ہے، وہ سائنسی حوالہ ہے یعنی ان کے کروموسومز میں کچھ ایسے میٹریل ہوسکتے ہیں جن کے سبب ان کی سبھی غلطیاں معاف اور سارے غلط فیصلے سر آنکھوں پر رکھے جاسکتے ہیں ـ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی این اے میں یہ خاصیت ہے تو انگریزی عہد سے پہلے یہ خانوادے کہاں تھے؟ کیا ڈی این اے میں موجود خاص کروموسومز اور جینز صدیوں تک ڈی ایکٹو موڈ میں تھے یا کوئی اور بات تھی؟ مزید سوال یہ بھی بنتا ہے کہ وہ خانوادے جو مغلیہ سلطنت میں علمی شمار کیے جاتے تھے، ان کے ڈی این اے کیا اب ڈی ایکٹو ہوگئے ہیں؟

ذرا سوچیے خاندان ولی اللہی آج کہاں ہے؟ شیخ الہند کا خاندان کہاں ہے؟ یا مولانا حسین احمد سے پہلے مدنی خانوادہ کہاں تھا؟ عبد الحئی حسنی سے پہلے علمی دنیا میں حسنی خانوادہ کو کون جانتا تھا؟ محمد علی مونگیری سے پہلے رحمانی خاندان کے جینز کیوں ڈی ایکٹو تھے؟ سلمان حسینی سے پہلے ان کے خاندان کی شہرت کیا تھی؟ شبلی و سرسید کا خانوادہ کہاں گم ہے؟ مولانا قاسم نانوتوی سے قبل قاسمی خاندان کو کون جانتا تھا؟ مولانا الیاس کاندھلوی سے پہلے کاندھلوی خانوادہ کس دنیا میں موجود تھا؟

ان سب کا جواب یہ ہے کہ خاندانوں میں اپنی کوئی خصوصیت نہیں ہوتی ہے، اور اگر خاندان کی اپنی کوئی خصوصیت ہوتی تو مشہور شخص سے پہلے بھی اس خاندان کا شہرہ ہونا چاہیے، خاندان کی اپنی کوئی خصوصیات نہیں ہوتی ہیں بلکہ کسی بھی خاندان کا کوئی ایک فرد علمی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے اور اسے کسی تنظیم یا ادارے کا سہارا مل جاتا ہے، پھر عوامی عقیدت مندی کے سبب ادارے یا تنظیم پر تسلط قائم ہوجاتا ہے، اس کے بعد ان کی تمام ضرورتیں اس ادارے اور ان کے عقیدت مندوں کے ذریعے پوری ہوتی رہتی ہیں، جس کے سبب اس خاندان کے افراد کو تعلیمی یا تنظیمی مشغولیات میں لگنے کا موقع فراہم ہوجاتا ہے، اور وہ خانوادہ اس ادارے یا تنظیم کے بدولت علمی خانوادہ کہلانے لگتا ہے! یہ پیٹرن اور پروسس یونیورسل ہے، اگر یہی پروسس کسی دوسرے خاندان کے ساتھ بھی چلے تو وہ بھی علمی خانوادہ بن جائے گا ـ

سوچیے کہ اگر مولانا حسین احمد مدنی کو دارالعلوم اور جمعیت کا سہارا نہ ملتا تو مدنی خاندان کی شہرت کا کیا بنتا؟ مولانا قاسم نانوتوی کے پاس دارالعلوم کا اختیار نہ ہوتا تو قاسمی خاندان آج کہاں ہوتا؟ مولانا علی میاں کے والد اور بھائی کو ندوہ کی نظامت نہ ملتی اور غم روزگار ہوتا تو حسنی خانوادے کی علمی شہرت کا کیا ہوتا؟ اگر امارت شرعیہ رحمانی خاندان کے پاس نہ ہوتا تو آج رحمانی خانوادہ کیا کر رہا ہوتا؟ یہ میں ہوا ہوائی نہیں کہہ رہا بلکہ ہمارے پاس کئی مثالیں ہیں، علامہ شبلی کے خاندان کو آج کتنے لوگ جانتے ہیں؟ اگر ندوہ کی نظامت ان کے پاس ہوتی، پھر ان کے خاندن میں منتقل ہوجاتی تو ان کا خاندان شہرت کی کن بلندیوں پر ہوتا؟ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا خاندان آج کہاں ہے؟ اگر آج بھی ان کے خاندان کا تسلط جمعیت علماء ہند پر ہوتا تو کیا وہ بھی علمی خانوادہ کے طور پر نہیں جانا جاتا؟ ایسے کتنے ہی باصلاحیت علماء ہوئے جن کے ذریعہ اسلام کو فروغ ملا، علم کو ترقی ملی، لیکن ان کے پاس کسی ادارے کی سلطنت نہیں تھی جو ان کے خاندان کو علمی خانوادے میں تبدیل کردے ـ

ایک سوال جو ان خاندانوں کے تسلط کو جواز دینے کے لیے پوچھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان خانوادوں نے ان اداروں اور تنظیموں سے کیا لیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے سب کچھ انھی اداروں سے حاصل کیا ہے؟ ظاہری سادگی دیکھ کر فریب کھانے والوں کو شاید علم نہیں کہ اگر ان خانوادوں کو ان عوامی اداروں سے شہرت نہیں ملتی تو ان کو گھر چلانے کے لیے غم روزگار پالنا پڑتا، غم روزگار کا نہ ہونا ان اداروں کا سب سے بڑا احسان ہے. دوسرا احسان عزت کا ملنا ہے، راتوں رات کوئی گمنام شخص دامت برکاتہم اور حضرت والا بن جاتا ہے، جہاں جاتا ہے اس کی آؤ بھگت ہوتی ہے، جہاز سے اترے ایئر پورٹ پر گاڑی موجود ملتی ہے، رہائش کے لیے بہترین کمرے فراہم کیے جاتے ہیں اور خدام کی پوری ٹیم ہر وقت موجود ہوتی ہے، کیا ان چیزوں اور نعمتوں کا تصور کوئی عام مولوی کر سکتا ہے؟ ان چیزوں کو ایک دفعہ جسٹیفائی کیا بھی جاسکتا ہے اگر ان اداروں کا کام درست رہے، ان کے مقاصد پورے ہوتے رہیں، لیکن جب ادارے ہی بربادی کی کگار پر ہوں اور سوال کرنے والوں سے ہی الٹا سوال پوچھا جانے لگے کہ ان خانوادوں کو کیا حاصل ہوا ہے تو اس قوم کی ذہنی پستی پر سر شرم سے جھک جاتا ہے!