ہوم << اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے - رشید ودود

اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے - رشید ودود

اشعر نجمی کے رسالہ اثبات نے اس بار اطہر فاروقی پر ایک گوشہ نکالا ہے، جس میں ان کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے، رسالہ ابھی دیکھا نہیں ہے لیکن انٹرویو کی سرخی بڑی دلچسپ ہے، ملاحظہ فرمائیں:
"اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے"

اطہر فاروقی نے یہ بات کس پس منظر میں کہی، یہ تو انٹرویو پڑھ کر ہی معلوم ہوگا، لیکن یہاں اشعر نجمی کو داد نہ دینا بہرحال ظلم ہوگا، رسالہ بیچنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا. اہل مذہب مذہب کا استعمال کرتے ہیں تو یہی لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کا چورن نہ بیچو، لیکن یہ کون سا چورن ہے؟ اشعر نجمی اس سوال کا جواب کبھی نہیں دیں گے.

اردو کو اسلامیانے کا کام جان گل کرائسٹ نے شروع کیا تھا ، اور کیوں کیا تھا، اس کی تفصیل ہوش ربا ہے، اس پر گفتگو پھر کبھی، لیکن اطہر فاروقی گل کرائسٹ کا نام کبھی نہیں لیں گے، اس لیے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ "فورٹ ولیم کالج کی خدمات" کے سحر میں مبتلا ہوں گے. ایسے "مبتلائے سحر" جب منہ کھولتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہوش و خرد سے بے خبر ہیں. اگر کوئی سرپھرا اٹھے اور یہ کہے کہ اردو کو اول روز سے شیعوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے تو یہی اطہر فاروقی کہیں گے ادب میں اس طرح کے موضوعات پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے، لیکن خود چاہے جتنی ہفوات بکیں، ہمیں تلقین کریں گے کہ برداشت کرنا سیکھو، نہیں کریں گے تو عدم برداشت کا الزام عائد کر دیں گے. بھکتی صرف سیاست میں نہیں ہے، ادب میں بھی ہے، آج کا اردو محقق بھی یہی چاہتا ہے کہ لوگ بس ہماری سنیں، بولیں نہیں، اس لیے کہ بھکتوں کا کام بولنا نہیں ہے دُم ہلانا ہے.

اطہر فاروقی محقق بنے پھرتے ہیں. کیا ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ اردو ایک روز کے لیے بھی اسلامی نہیں رہی، البتہ گفتگو اگر اطہر فاروقی ہی کے لب و لہجے میں کی جائے یعنی جہالت کا سلسلہ دراز کیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ "اردو اپنے پیدائش کے روز ہی سے مجوسی رہی ہے" تو اطہر فاروقی کا فشار خون بلند ہو جائے گا، اور وہ مٹھیاں بھینچ کر مخاطب کے بال نوچ لیں گے. اردو شعرا جب تک تبرا نہ کر لیں تب تک ان کا کھانا نہیں ہضم ہوتا ،تو اب کیا اطہر فاروقی یہ کہیں گے کہ "اردو روز بروز شیعہ ہوتی جا رہی ہے" . ذرا کہہ کر تو دیکھیں ان کا حقہ پانی بند ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا.

لگتا ہے کہ اطہر فاروقی کو حق گوئی کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے، لیکن یہ حق گوئی نہیں اسے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کہتے ہیں. ان دنوں وطن عزیز میں ہر بوالہوس اسلام اور مسلمانوں پر ہاتھ صاف کر کے اپنی نوکری بچانے میں لگا ہوا ہے. اگر اطہر فاروقی میں ہمت ہو تو کہیں کہ
"ہندی روز بروز ہندو ہوتی جا رہی ہے"
"ملک روز بروز ہندو ہوتا جا رہا ہے"
"بالی ووڈ روز بروز ہندو ہوتا جا رہا ہے"
تو ابھی انجمن ترقی اردو ہند سے انھیں نکالا مل جائے گا،. انجمن سے یاد آیا کہ عبدالحق کے دل و دماغ میں بھی مذہب کے لیے بڑا تعصب پایا جاتا تھا. ارے ہاں وہی عبدالحق جنہیں یہ لوگ "بابائے اردو مولوی عبدالحق" کہتے ہیں.

محمد حسین آزاد جب آب حیات لکھنے بیٹھے تو ہندو شعرا و ادبا کو ہضم کر گئے اور ڈکار تک نہیں لیا، لیکن کسی اطہر فاروقی یا کسی اشعر نجمی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائے. شمس الرحمن فاروقی نے ضرور خبر لی ہے، لیکن اشعر نجمی اس سے بھی بے خبر معلوم ہوتے ہیں. اطہر فاروقی کا یہ بیان نہ صرف جہالت سے پر ہے بلکہ اشتعال انگیز بھی ہے. پھر اشعر نجمی شاید اب لکھنا بھول گئے ہیں، اگر یاد ہوتا تو اس طرح کی بیکار سرخیاں نہیں لگاتے پھرتے.

اردو جاننے والے ہندو اب گنتی کے رہ گئے ہیں. پھر اردو رسم الخط میں شائع ہونے والے اثبات کے قاری اور خریدار دونوں مسلمان ہیں. ایسے میں اشعر نجمی کو ذرا ہلکا ہاتھ رکھنا چاہیے، لیکن اگر یہی سب کرنا ہو تو پھر "سید امجد حسین" کس دن رات کام آئیں گے. سید صاحب کو پھر سے زندہ کریں اور پھر وہی گل افشانی گفتار کریں جو "پاکستانی فری تھنکرز گروپ" میں کیا کرتے تھے. مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو. فنکار ایم ایف حسین کی طرح ہوتا ہے نہ کہ اطہر فاروقی اور اشعر نجمی کی طرح ، جو کمزور کی جیب کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن خود کو رفو گر سمجھ رہے ہیں، حالانکہ ضرورت رفو کی ہے. کہنے والے اطہر ہیں اور چھاپنے والے رضوان، دونوں "فاروقی" ہیں لیکن کہتے ہوئے نہ اطہر کی "فاروقی حمیت" بیدار ہوئی نہ شائع کرتے ہوئے رضوان کی "رگ فاروقی" پھڑکی، ایسے میں کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ.