خواب ہماری زندگی کا خوبصورت اور مشکل حصہ ہوتے ہیں۔ یہ وہ مشکل باب ہے جو ہم شوق سے پڑھتے ہیں۔ میں بھی خواب دیکھتی ہوں اور پہاڑوں کے پیالوں میں بڑے بڑے خوابوں کے لیے ، اچھی خاصی جرات درکار ہوتی ہے۔ اسی لیے ہمارے ہاں خوابوں سے بچ بچا کر رہنا سہنا اور زندگی کو ایک سیدھی سمت میں کرتے جانے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں روزی روٹی ، نرم بستر اور ٹھنڈے میٹھے پانی سے بھرے گھڑے زندگی کی خوبصورتی کی انتہاء ہوا کرتے ہیں۔ ایسے میں کوئی پیڑھی پر بیٹھ کر ، دم پر رکھی چائے کے لیے لکڑیاں ہلاتے جلاتے اپنے ایک آن لائن سیشن کے پوائنٹس دہرا رہا ہو تو یہ زندگی کو صرف ' کرنے ' سے کہیں زیادہ دلکش تجربہ ہے۔
میں گاؤں میں رہتی ہوں ، ہمارے گاؤں کی شکل ایک پیالے کی سی ہے ، چاروں جانب سے پہاڑوں میں گھری بستی ، کبھی پہاڑوں کی چوٹی پر چڑھ کر دیکھتی ہوں کہ پہاڑ کے پار کیا ہے اور وہاں بھی حد نگاہ تک صرف پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہم گاؤں کی زندگی کو رومانوی پڑھتے ہیں مگر یہ سبزہ زاروں ، مٹی کی خالص خوشبو اور خوبصورت نظاروں سے کچھ اور بھی ہوا کرتی ہے۔ہر آسانی کی کوئی قیمت بھی ہوا کرتی ہے اور ہم گاؤں کی ستھری فضا اور چہکتے پرندوں کی صحبتوں کی قیمت بغیر کسی وادھے گھاٹے کے ادا کرتے ہیں۔ تو ہوا کچھ یوں کہ کل مجھے نیر آپا کے سیشن میں بطور گیسٹ سپیکر آنے کا موقع ملا ۔ یہ اعزاز کہ جس کمرہ جماعت میں آپ ایک طالب علم کے طور پر بیٹھے ہیں وہاں اپنی آرام دہ کرسی اور سیکھنے کا آسان مرحلہ چھوڑ کر سکھانے کا مشکل مرحلہ طے کرنا ہو اور پھر یہ اعزاز کہ اسی کمرہ جماعت میں آپ کے دو استاد موجود ہوں جن سے آپ نے ہمیشہ یہ پوچھا ہے کہ اس کو کیسے کرنا ہے ، ان کے سامنے یہ کہنا کہ اس کو ایسے کرنا ہے اعزاز تو ہے ہی ، میرے لیے ایک پرجوش مگر نروس کردینے والا تجربہ تھا۔
میرا لیپ ٹاپ جو دس تھپڑوں ، چار مکوں اور بتیس گھونسوں کے بعد آن ہوتا ہے میرا واحد اثاثہ ہے جس پر میں اپنا تختہ سیاہ ترتیب دیتی ہوں۔وادی میں ہمارے ایک استاد ہیں سر اسلام ، میں ان سے نہیں پڑھی مگر مجھے ان سے پڑھنے کا بہت شوق تھا۔شوق کی اس تکمیل کی خاطر میں ان کلاسس میں جا بیٹھتی جہاں وہ پڑھا کر چلے گئے ہوتے تھے اور تختہ سیاہ پر تین رنگوں سے اسباق تحریر ہوا کرتے تھے۔ سرخ ، سبز اور نیلے رنگ کے مارکرز سے لکھا لیکچر میں نوٹ کرلیتی تھی۔ اس وقت سے کئی رنگوں میں سبق لکھنا میری عادت بن گئی اور معلوم نہ تھا کہ آنے والے وقتوں میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک نئی بات سکھائیں گے ، پاور پوائنٹ میں سلائیڈز بنانے کا تجربہ ان تین رنگوں والے قلم کی یاد دلاتا ہے۔ ایک دو دن لگا کر میں نے اپنی سلائیڈز تیار کیں یعنی وہ پوائنٹس جن پر مجھے بات کرنا تھی۔اس سیشن کا مرکزی خیال مجھے جنگل میں لکڑیاں اکٹھی کرتے آیا ، آپ نے کبھی لکڑیاں اکٹھی کی ہوں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ لکڑیاں جمع کرنا ایک الگ مشقت ہے مگر پھر ان کو ایسے جوڑنا کہ ایک اچھا سا گڈا بن جائے ، اس کو ٹھیک سے باندھنا ، پیروں کا زور دے کر رسی کھینچنا اور پھر اسے ایک بہترین رخ میں سر پر رکھنا بھی ایک فن ہے۔ بس وہی پیروں سے زور دے کر رسی کھینچتے سمجھ میں آیا کہ مجھے اس موضوع پر یوں بات کرنی ہے۔
نیر آپا کی audience کی انرجی ، ان کا جذبہ منفرد ہے۔ اسی بات کا خیال رکھتے ہوئے جب میرے سیشن کی پی ڈی ایف تیار ہوگئی تو میں بے چنتی ہوگئی اور بس دن کی شروعات تتلی والی فراک کو استری کرنے سے ہوئی ، رضائی رکھ کر کرسی کا صوفہ بنایا ( یہ بھی ایک فن ہے ) ، اچھے سے تیار ہوئی ، تتلی والی فراک میرا کمفرٹ ڈریس ہے ، پہنا تو اعتماد بڑھا ، بسم اللہ پڑھ کر مسکارا لگایا اور قومی سنگھار و حسن افروز میٹھے رنگ کی سرخی بھی لگا لی ،وہ آویزے پہنے جو بات کرتے ہماری ہاں میں ہاں ملاتے ہیں جب ہم سر ہلاتے ہیں ( مسکراہٹ ) وہ گرم جوتے پہن لیے جو میرے رب نے کچھ دن پہلے خاص طور پر عطا کیے اور اس سب تیاری کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ مجھے اپنی audience کے سامنے آنا ہی نہ تھا اور میں صرف آڈیو پر سیشن دیتی ہوں ۔۔ سو یہ ایک سبق جو پڑھنے والیاں اپنے پلو سے اور پڑھنے والے اپنے بٹوے میں باندھ لیں کہ خود کے لیے سجا جاسکتا ہے ، خود کو خود خوبصورت لگا جاسکتا ہے۔ کوئی خاص لباس یا سنگھار جو آپ نے کسی خاص دن کے لیے سنبھالا ہے ، وہ خاص دن وہی دن ہے جب آپ اسے پہن لیں گے۔ کچھ گھنٹے باقی تھے تو سوچا لیپ ٹاپ سے پہ ڈی ایف کو موبائل میں بھیج دوں کیونکہ لیپ ٹاپ اتنا خاموش طبع ہے کہ اس کا سپیکر ہی خراب ہے تو سیشن موبائل پر ہی کرنا تھا۔مگر یہ کیا کہ لیپ ٹاپ اتنی مار کٹائی کے بعد بھی آن نہ ہوا ۔۔۔۔۔یہ کچھ گھنٹے خوشاب کی بس میں بیٹھ کر سوڈھی موڑ پر رک رک کر پہاڑوں کی گرہ سے گزر کر خوشاب کے اڈے پر پہنچنے سے کچھ کم نہ تھے ، چند منٹوں میں انگزائٹی کی ساری مسافتیں طے ہوگئیں۔ اب اگر یہ آن نہ ہوا تو سیشن کیسے مکمل ہوگا۔۔۔ عورت ہونے کا فرض نبھاتے ہوئے کچھ منٹ روتے ہوئے گزرے کہ کریڈیبلٹی کا سوال تھا ، ذمہ داری اور قول کی امانت پر کمپرومائز ہورہا تھا۔ آخر دو گھنٹے پہلے میں لیپ ٹاپ کھول کر بیٹھ گئی۔انسان ضرورت پڑنے پر انجینئر ، سرجن اور درزی بھی بن جاتا ہے ، یہ انسانی عقل بھی عجیب شے ہے۔
اب لیپ ٹاپ سامنے کھلا ہے اور میں اس کی خرابی جاننے کی کوشش کررہی ہوں ، ایسے میں میرے بھائی جو شہر میں بستے ہیں اپنے بیٹے کی پیدائش کے دن مجھے سمجھا رہے ہیں کہ اس کو یوں کھول کر دیکھو ، اب ری سٹارٹ کرو ، وعلیکم السلام جی خیر مبارک ، ٹھہریں میں ذرا ضروری کال کررہا ہوں ۔۔۔ ہاں اب اس کے یہ پیچ کھولو ۔۔۔پھپھی زاد بہن چولہے پر دھری ہانڈی چھوڑ کر آئی اور تسلی دیتی رہی ، مدد کرتی رہی۔ کتنے خوبصورت کاموں کے پیچھے کتنے مخلص لوگوں کی مدد چھپی ہوتی ہے نا ! اس کی ہارڈ ڈسک نکال کر جوڑی مگر کچھ نہ بنا ، گاؤں کی دکانیں بند ہوچکی تھیں اور لیپ ٹاپ قصبے سے ہی مرمت پاتا ہے ، پھر ایک کمپیوٹر میں اس کی ہارڈ ڈسک جوڑی ، اور سیشن سے کچھ منٹ پہلے جا کر فائنل کاپی کرسکی۔ اور پھر آتے جاتے سگنلز میں کبھی چھت پر ، کبھی ٹیرس پر کھڑے ، کبھی چارپائی پر بیٹھے سیشن مکمل کیا اور وہ صوفہ نما کرسی مجھے دیکھ کر مسکراتی رہی۔۔۔ سیشن امید سے زیادہ اچھا گیا مگر کہنے کی بات یہ ہے کہ ان لمحات میں اتنی نئی چیزیں ، ترکیبیں اور سبق سیکھے.
اس ساری مشقت کے مقصد کی سمجھ تو نہ آئی ، مگر یہ جان لیا کہ کسی کو موٹیوٹ کرنے کے مقام پر پہنچنے سے پہلے تھک تھک کر اٹھنا ہے ، سنبھلنا ہے ، جگاڑ لگانے ہیں ، امید بحال رکھنی ہے اور کئی امتحانوں سے گزر کر ہی وہاں پہنچا جاسکتا ہے جہاں آپ کہتے ہیں ' اس کو یوں کرنا ہے ۔۔۔۔ اور آپ کی محنتوں اور دعاؤں سے یہ یوں ہوجائے گا اور اگر نہ ہو تو ہمت برقرار رکھنی ہے اور کوشش نہیں چھوڑنی ' ہر خاص و خوبصورت اور پرفیکٹ ایونٹ کے پیچھے کئی مشقتیں ، گھبراہٹیں اور آزمائشیں موجود ہوتی ہیں۔اور یہاں میں صرف سیشن کی بات نہیں کررہی۔ اجر سے پہلے مزدوری ہے ! یہی انسان کی کہانی ہے۔ بس ایسے ہی ہیں میرے خوابوں کے باب ، مشکل مگر خوبصورت ۔۔۔۔۔۔تو آپ اپنے خوابوں کے لیے کیا کررہے ہیں ؟
تبصرہ لکھیے