ہوم << کالی کلوٹی خالصہ، ہارون الرشید اور ابونواس - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

کالی کلوٹی خالصہ، ہارون الرشید اور ابونواس - ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

یہ پانچویں عظیم عباسی خلیفہ ہارون الرشید ہیں۔۔
ابو جعفر ہارون بن محمد المہدی بن ابی جعفر المنصور، بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس الہاشمی القرشی، (پیدائش: 763ء - انتقال: 24 مارچ 809ء)

آپ" رے "شہر میں پیدا ہوئے اور 786ء سے 24 مارچ 809ء تک مسند خلافت پر فائز رہے۔ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی اور آپ کو جمعہ کی رات کو خلیفہ بنایا گیا۔ 165 ہجری میں الرشید نے اپنی کزن زبیدہ بنت جعفر۔۔وہی نہر زبیدہ والی۔۔۔ سے شادی کی۔ ان کا دور سائنسی، ثقافتی اور مذہبی رواداری کا دور کہلاتا ہے. انہوں نے بغداد میں لائبریریاں بنائیں ، بیت الحکمت کی بنیاد رکھی۔ اور اپنے دور حکومت میں بغداد کو علم، ثقافت اور تجارت کے مرکز کے طور پر پروان چڑھایا۔

ان کی زیر نگیں سلطنت اتنی بڑی تھی کہ ایک بار وہ اپنے قصر کی بالکونی میں جا بیٹھا تو آسمان پر اُڑتی ہوئی ایک بَدلی ۔۔(بادل کا چھوٹا ٹکرا)۔۔کو دیکھا۔ ہارون الرشید اسے دیکھ کر مخاطب ہوا اور بولا۔۔ تم جہاں جا کر بھی برسوگے،بارش کے اس پانی سے اُگنے والی فصل کا خراج یہاں بغداد میں مجھ تک آپہنچے گا ۔

عرب حکمران،امراء،وزراء اور قبائلی سردار، خواہ دور جاہلیت کے ہوں یا دور اسلامی کے، اموی ہوں یا عباسی۔۔سب ہی تیر وتفنگ اور تلوار کے بجائےعرب شعراء سے بہت ڈرتےکہ اگر وہ خوش ہوں اور مدحیہ قصیدہ کہہ دیں یا بگڑ جائیں اور ہَجو کہہ دیں تو دونوں صورتوں میں وہ عربی شعری ادب کا حصہ بن کر اَمر ہوجائیں گے۔

اس خلیفہ ۔۔یعنی ہارون الرشید ۔۔کی ایک سیاہ فام لونڈی تھی۔جس کا نام۔۔۔خالصہ۔۔تھا۔
كان للرشيد جاريهٌ سوداء، اسمها خالصة

ایک روز خلیفہ کے دربار میں اس وقت کا مشہور ترین شاعر ۔۔ابو نواس ۔۔۔جو غزل اور خمریات کا امام سمجھا جاتا تھا، موجود تھا ،اور محترمہ خالصہ بھی۔

ابو نواس نے خلیفہ کی شان میں ایک بلیغ و شاندار قصیدہ پیش کیا،مگر موصوف خلیفہ صاحب نے آج اتنے بڑے شاعر کو کوئی توجہ دی،نہ حسب معمول انعام واکرام سے نوازا ،بلکہ وہ خلاف معمول اس سیاہ فام لونڈی سے خوش گپیوں اور دل لگیوں میں مصروف رہا۔ اس کا گلا اور مقامات زینت ۔۔سب۔۔ آنکھوں کو خیرہ اور عقل کو دنگ کردینے والے ہار اور قیمتی ہیرے جواہرات اور زیور سے لدے ہوئے تھے ۔ جو بادشاہ مسلسل اس پر نچھاور کیے چلا جارہا تھا۔

خلیفہ کی اس قدر بے رخی اور بے التفاتی نے نہ صرف اہل دربار کو،بلکہ ابو نواس کو بہت شدید دکھی کردیا۔ابو نواس کو تو اس میں اپنی بہت ہتک اور ذلت محسوس ہوئی۔جلتی پر تیل ان بیش قیمت زر و جواہر نے ڈالا جو خلیفہ اس کالی کلوٹی لونڈی پر ہی نچھاور کررہا تھا، اور اسے نظرانداز،بلکہ محروم رکھے ہوئے تھا۔

فغضِب "أبو النُواسِ" وكتبَ، لدى خُرُوجهِ، على بابِ الرشيدِ ابو نواس شدید غصے کی حالت میں اٹھا،دربار سے باہر نکلا اور جاتے ہوئے قصر کے دروازے پر فی البدیہہ یہ شعر لکھ گیا لقدْ ضاعَ شعري على بابكمْ
كما ضاعَ درٌ على خالصة

''تمہارے در پر میرے اشعار ویسے ہی ضائع ہوگئے( رُل گئے)،جیسے خالصہ کے گلے اور جسم پر بیش قیمت ہار اور زر و جواہر ''

یہاں قابلِ توجہ لفظ ۔۔ضاع۔۔ہے۔یعنی ضائع ہوگئے۔۔اور اس میں بھی حرف "ع " جس کا لطف آپ آگے لے سکیں گے۔ بادشاہ کو خبر پہنچی کہ ابو نواس یہ شعر لکھ گیا ہے۔۔بادشاہ تو سٹپٹا گیا ،بلکہ اس کی عقل ٹھکانے آگئی۔ اور ابو نواس کو فورا طلب کرلیا ۔۔۔

صاحبو!
جب عظیم شاعر ابو نواس کو طلبی کا پیغام ملا ،تو اس کے چھکّے بھی چھوٹ گئے۔اسے بھی ڈر ہوا کہ خلیفہ کی شان میں کچھ زیادہ ہی گستاخی ہوگئی ہے ۔کہیں کھڑے کھڑے مروا نہ دے۔ شاعروں کی روزی روٹی کا بندوبست بھی ان خلفاء و امراء کے درباروں سے ہی ہوتا تھا، کام کاج تو وہ کرتے نہ تھے،شاعری کے سوا۔انعام واکرام مل جاتا تو وقت اچھا گزر جاتا،نہ ملتا تو کسی دوسرے کے آنگن میں چلے جاتے، یا پھر کسی اچھے وقت کا انتظار کرتے۔ ابو نواس کا بھی یہی حال تھا۔

یہ بھی ہوتا کہ اگر کسی دوسرے کی مدح کردی تو بھی بڑا ممدوح ناراض ہوجاتا کہ جو کچھ تم نے اُس کے بارے میں کہا،وہ میرے بارے کیوں نہیں کہا۔۔ یوں زیادہ تر شعراء اپنے ممدوح کی توجہ اور بھاری انعام واکرام کی امید باندھے اپنی کوشش جاری رکھتے۔اور وہ بھی ہوتا،جس کا اندیشہ ابونواس کو ہوا۔

خیر۔۔مرتا کیا نہ کرتا۔خلیفہ کے دربار کی طرف روانہ ہوا ،قصر کے دروازے پر پہنچا۔جہاں اس نے یہ شعر کسی چاک یا کوئلے سے نکلتے ہوئے غصے میں لکھ دیا تھا۔
لقدْ ضاعَ شعري على بابكمْ
كما ضاعَ درٌ على خالصة

ابونواس نے دربار میں داخلے سے پہلے اپنے اس شعر کی طرف توجہ کی ،اور دونوں مصرعوں میں" ضاع" لفظ کے حرف "ع" کی قوس یعنی کمان کو مٹادیا ۔

وعنْد دُخولهِ مِنْ البابِ محا تجويفَ العينِ مِنْ لَفْظَتِيْ (ضاعَ) فأصبحت (ضاءَ).

اب یہ "ع"سے ہمزہ"ء"میں بدل گیا ،اور لفظ بن گیا ۔۔"ضاء"
جس کے معنیٰ ہوئے۔۔چمکنا۔سجنا۔روشن ہونا
اور شعر کا ترجمہ متضاد ہوگیا۔یعنی۔۔ ضائع ۔۔کی بجائے روشن اور چمک دار

اب شعر کا مطلب یوں ہوا
تمھارے در پر میرے اشعار ویسے ہی روشن ہوگئے( قیمتی اور معتبر بن گئے)،جیسے خالصہ کے گلے اور جسم پر بیش قیمت ہار اور زر و جواہر قیمتی قرار پائے ۔

خلیفہ کے سامنے پیشی ہوئی،جو ظاہر ہے غصے میں تھا ،اور ارادے بھی خطرناک ہی لگتے تھے۔
پوچھا: دروازے پر کیا لکھ گئے ہو۔۔
یعنی ہماری اتنی ہجو اور بے عزتی!!
ابونواس نے کہا۔۔
حضور ۔۔دیکھیے تو سہی۔۔کیا لکھا ہوا ہے۔
میں نے تو یہ لکھا ہے۔
لقد ضاءَ شِعْرِي على بابِكُم
كَما ضاءَ دُرٌ على خالِصَة

ہارون الرشید یہ سن کر بہت خوش ہوا اور ابونواس کو خوب انعام واکرام سے نوازا ۔

(عربی ادب سے انتخاب)

Comments

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم

ڈاکٹر اعجاز فاروق اکرم سابق چیئرمین تعلیمی بورڈ فیصل آباد ہیں۔ ڈائریکٹر کالجز، گورنمنٹ کالج سمن آباد کے ریٹائرڈ پرنسل اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابق چیئرمین شعبہ عربی ہیں۔ ریڈیو پاکستان سے 30 سال کا تعلق ہے۔ بطور مقرر قومی پروگرام ۔۔حی علی الفلاح۔ سلسلہ "قر ان حکیم اور ہماری زندگی۔ نشری تقاریر پر مشتمل چھ کتب ''قول حسن، قول سدید، قول مبین، قول مجید، قول کریم اور قول حکیم شائع ہو چکی ہیں۔ دو کتب قول فصل اور قول کریم زیر ترتیب ہیں۔ ترکی جو میں نے دیکھا کے نام سے سفرنامہ شائع ہو چکا ہے۔ خود نوشت ''یادوں کا دریچہ'' زیرقلم ہے

Click here to post a comment