ہوم << شخصیت پرستی اور اسلام - عاطف الیاس

شخصیت پرستی اور اسلام - عاطف الیاس

عاطف الیاس انسان ازل سے شخصیت پرستی کے پھیر میں پڑا رہا ہے۔ شخصیت پرستی یا ہیرو ازم انسان کی فطری کمزوری ہے جس پر دلیل سے غالب آنا چاہیے۔ فطرت کی اس کمزوری نے اسے کہیں کا نہ چھوڑا۔ اندھی عقیدتوں میں روشنی تلاش کرتا رہا اور تاریکیاں مقدر بنیں۔ آباؤ اجداد، حکمران، عالم دین، سپہ سالار، دانشور جس کسی کو سر آنکھوں پر بٹھایا، اسے مقدس اور کامل بنا دیا۔ ہر خطا سے پاک، انمول اور ہدایت یافتہ۔ بت پرستی بھی اسی فطری کمزوری کا ایک مظہر ہے جو انسان کی اندھی عقیدتوں سے جنم لیتی ہے۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کہ سترہ سال تک حق کا نور آپ کے سامنے چمکتا رہا، قبول کیوں نہیں کیا؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے سامنے جو لوگ تھے، ان کی عقلوں کو ہم پہاڑ کی طرح سمجھتے تھے۔ ابو جہل، ولید بن مغیرہ، عتبہ یہ وہ لوگ تھےجو قریش کے اس لاڈلے کے آئیڈیل تھے۔ جب یہ پہاڑ ہٹ گئے تو حق نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے دل ودماغ کو منور کردیا۔ سیدھے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہوئے۔ سیف اللہ کا لقب پایا، مشرق و مغرب میں اسلام کی دعوت کو لے کر پہنچے اور سرخرو ہوئے۔ پھر یہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے، شام اور ایران کی فتوحات تھیں، ایک امیج تھا، لوگوں کے پسندیدہ تھے، ایک پکار پر سپاہی کٹ مرنے کے لیے تیار رہتے تھے، میدان جہاد کے بہترین شہسوار تھے۔ لیکن ایک غلطی کر بیٹھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے برعکس مال امر امیں تقسیم ہوا۔ دربارخلافت میں خبر پہنچی اور پھر انھیں ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ نہ کوئی دبدبہ کام آیا نہ شہرت۔ یہ ہے شخصیت پرستی پر وہ زد، جو اسلام لگانا چاہتا ہے۔ غلط اور صحیح کا تعین شخصیت کی بنیاد پر نہیں ہوگا، بلکہ اللہ کے حکم کی بنیاد پر ہوگا۔
ہمارے ہاں اسی کمزوری نے ایک المیے کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ہم حکمرانوں، علما اور دانشوروں کو آئیڈیل بناتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ کامل صرف اللہ کی ذات ہے۔ انسان چاہے جتنا ہی بہترین کیوں نہ ہو، غلطی کرسکتا ہے۔ اردگان کا معاملہ ہو یا سعودی حکمرانوں کا یا ایرانی زعما کا یا پھر ہمارے اپنے ہی سیاسی اور فوجی حکمران ہوں، کیسی بدنصیبی ہے کہ ہم اندھی سیاسی، مسلکی اور ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ان کی غلطیوں کو جواز دینے کے لیے اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر دلائل گھڑتے ہیں، خطاکار کو نیکوکار بنانے کی سعی کرتے ہیں، غلطی کو سٹریٹیجی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ افسوس! بھلے آدمی! مان لو کہ انسان خطا کرسکتا ہے اور وہ ایک شخص بھی ایک انسان ہی ہے۔ اور اگر وہ حکمران ہے تو اس کی غلطی پر گرفت تو اور بھی لازم ہوجاتی ہے کہ اسلام کی رُو سےیہ ایسا فرض ہے جس پر کارہائے سیاست کا سارا دارومدار ہے۔
ذرا مدینہ کا ایک منظر دیکھیے: مسجد نبوی کا منبر ہے اور جناب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا خطبہ دے رہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ اگر میں صحیح چلوں تو میری پیروی کرو اور اگر میں قرآن و سنت سے ہٹ کر راہ اپناؤں تو مجھے روک دو۔ کیسا منظر ہے کہ معیار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نہیں ، قرآن اور سنت ہیں۔ سیدنا ابوبکرصدیق کے شحصیت کو ایک طرف رکھ دیجیے اور عمل کو اسلام کی بنیاد پر پرکھیے۔ یہ ہے کرنے کا کام جس کا حکم دیا گیا ہے۔
پھر ایک اور منظر دیکھیے: حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہ مسجد نبوی میں کھڑے ہیں اور ایک نیا حکم جاری فرما رہے ہیں جو عورتوں کے حق مہر کے حوالے سے ہے۔ لوگوں کو پابند کررہے ہیں کہ وہ اتنی اتنی رقم سے زیادہ حق مہر نہ مقرر کریں، ایک بوڑھی عورت کھڑی ہوتی ہے اور سخت آواز میں اس شخصیت سے مخاطب ہوتی ہے جس کے رعب اور دبدبے سے شیطان بھی ڈرتے تھے۔ "اے عمر! تم کون ہوتے ہو،اسے پابند کرنے والے جبکہ اللہ قرآ ن کی فلاں آیت میں اس چیز کی اجازت دیتا ہے کہ اگر انھیں خزانے بھی دیے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔" اور جواب میں کوئی پولیس حرکت میں نہیں آتی، کوئی ایجنسی اس خاتون کی نہیں اُٹھاتی، کہیں یہ آواز نہیں اُٹھتی کہ تمھیں ہمت کیسی ہوئی۔ بلکہ جناب عمر رضی اللہ عنہ نادم ہوتے ہیں، جواب میں فرماتے ہیں کہ اے لوگو! اس معاملے میں، میں غلط تھا اور یہ عورت ٹھیک ہے اور اپنا حکم واپس لے لیتے ہیں۔
ذرا تصور کیجیے کہ شخصیت پرستی کے بت پر کیسی چوٹ ہے یہ، جو ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔ہمارے سامنے خواہ بہترین انسانوں میں سے ایک بہترین انسان ہی کیوں نہ ہو، معیار قرآن و سنت ہی رہے گا۔ یہ ہے وہ حل جو اسلام اس فطری کمزوری پر غالب آنے کے لیے دیتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ جب قریش مکہ کے سامنے اسلام کی دعوت رکھتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو کبھی یہ کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا، ہم کیسے مان لیں۔ یہ ہے وہ اندھی عقیدت جو عقل کو ڈھانپ لیتی ہے۔ جو حق اور باطل میں فرق مٹا دیتی ہے۔ جو انسان کو حق شناسی سے دور لے جاتی ہے۔ اتنا دور کہ وہ قبر کے اندھے گڑھے تک پہنچ جاتا ہے اور روشنی سے محروم رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن انھیں اندھے ، بہرے اور ناسمجھ قرار دیتا ہے۔
خدارا! اپنی اندھی عقیدتوں اور چاہتوں کو میعار نہ بنائیے۔ انھیں اپنے دماغوں سے نکال کر لوگوں کو پرکھیے، اس سے پہلے کے دیر ہوجائے۔ ہمیں شخصیات کو بنیاد بنانے کے بجائے شخصیات کو اسلام کی بنیاد پر پرکھنا ہے، ان کے اعمال کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ اسلام کی بنیاد پر کرنا ہے، جو حق اور باطل کا معیار ہے۔ جو کھرے اور کھوٹے کو الگ الگ کرنے والا ہے۔ اس لیے جو صحیح کرے، اسے صحیح کہو، جو غلط کرے اسے غلط کہو۔ مجھے یقین ہے کہ جس دن مسلمان ان اندھی عقیدتوں کے پھیر سے باہر نکل آئے، اسی دن وہ یقینا منزل کی طرف جانے والے راستے کو پالیں گے ۔ان شااللہ

Comments

Click here to post a comment

  • bhai imran abbasi aap ka apna comment sa he shakhseyat parrasty ke boo aa rahy ha
    na to ordgan peer a kamil ha na he golen ager inhan insan manta han to galty ker sakta han ya bhe mana. allah human hadayat da ameen