ہوم << زندگی۔۔سفر در سفر - افشاں نوید

زندگی۔۔سفر در سفر - افشاں نوید

فلوریڈا جاتے ہوئے لاس اینجلس ائیرپورٹ کا دلچسپ منظر ہے. ٹرمینل پر جہاز ٹیکسی کرتے ہوئے اپنے متعین پارکنگ ایریا کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہیں بسیں بھی ملحق جہاز کے مسافروں کو بورڈنگ زون کی طرف لارہی تھیں۔ کبھی بس رک کر جہاز کو گزرنے کا رستہ دیتی۔ کبھی دوسرے جہاز کے سامنے سے یوٹرن لے کر ایک مڑ جاتی۔۔جہازوں کو "پاؤں پاؤں" چلتے قریب سے دیکھنے کا لطف تو تھا۔ ائیرپورٹ انوکھی بستی ہے۔۔

کالے, گورے, گندمی,پستہ قد,دیو ہیکل۔۔۔سفید تو ٹماٹر جیسی سرخی جھلک رہی۔۔ سیاہ تو ایسے سیاہ جیسے کوئلے پر تپائے ہوئے۔۔۔.کسی سے پوچھا نہیں جاتا کس رنگ اور علاقے میں پیدا ہونا ہے۔ اٹھان الگ, زبان الگ,لہجے الگ۔چہرے کے تاثرات اور بدن بولی سب ایک دوسرے سے یکسر مختلف۔ کچھ چال ڈھال سے ایسے متکبر کہ گویا زمین کا سینہ پھاڑ دیں گے۔۔دوسرے کو دیکھیں گے تو نظروں سے ایک خاموش پیغام منتقل ہوجائے گا " تم کون ہو اور کیوں ہو؟" کچھ معصوم اور سادہ سے ہلکے جثّے والے لوگ جن کے چہروں پر نرمی و مسکراہٹ جیسے گوندھ دی گئی ہے۔ قومیں بھی بڑی مزاج دار ہوتی ہیں۔

یہاں ہر ایک کواپنی پڑی، سب مسافر،سفر کے مقاصد جدا، زندگی کے مشن جدا، مگر ہے سب کومنزل کی تلاش، سب اپنے "زادراہ" کو ٹرالیوں پر دھکیلتے ہوئے قطاریں بنا رہے ہیں، ہر ایک عجلت میں، کوئی ان خوب صورت ,آراستہ, آرام دہ لاؤجز میں ٹہرنا نہیں چاہتا۔ یہاں کسی کا دل نہیں لگتا. مسافر بھی کبھی "مقام رہ گزر" سے دل لگاتا ہے. جن مسافروں کے پاس سامان کم تھا انکی الگ سیشن میں قطاریں تھیں۔ ہمارا سامان رات چیک ان کے مراحل سے گزر گیا۔بدقسمتی کہ فلائٹ ری شیڈیول ہوکر اگلی صبح پر چلی گئی۔ اس لیے ہم "کم سامان سفر" والی قطار میں دھیرے دھیرے کاؤنٹر کی طرف سرکنے لگے۔ ہر کاؤنٹر پر جلی حروف میں الگ الگ جملے درج تھے۔۔
Less luggage more enjoy
Less luggage more explore.
Less luggage feel comfortable۔
less luggage more advantages۔

کتنا اہم پیغام ان سادہ سے جملوں میں درج تھا. اتنا سامان زندگی ہے ہمارے پاس کہ زندگی کا لطف کھا گیا۔ ہم سامان کے ہو کے رہ گئے۔ ہم عورتوں کے دن کے کئی گھنٹے صرف سامان کی درستگی میں خرچ ہوجاتے ہیں۔ ہماری عزیزہ کہتی ہیں" ایک صبح سے ماسیوں کے ساتھ لگتی ہوں تو عصر ہوجاتی ہے۔۔پھر اتنا تھک چکی ہوتی ہوں کہ کسی کام کی نہیں رہتی۔" ہزاروں گز پر پھیلے پر تکلف گھر ہوں تو دالان کے الگ تقاضے,بیٹھک کے الگ,کچن کے الگ۔ پانچ چھ ملازمین سے نمٹنا کوئی آسان کام ہے. پھر بھی جتنا سامان زندگی میسر وہ کم سا لگتا ہے۔ ہل من مزید کی خواہش نگری نگری لیے پھرتی ہے۔ جتنا مال وزر اتنی فکریں، جتنی اولادیں اتنی پریشانیاں، جتنے بڑے گھر اتنی مینٹینینس، جتنے بڑا کاروبار اتنا جی کا جنجال، سر اٹھانے اور گھروالوں کو توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔ جن اولادوں کے لیے کماتے کماتے کمر دہری ہوگئی، وہ وراثت کی تقسیم کی منتظر، جتنی وراثت اتنے جھگڑے، رشتے ایسے بوجھ بنے کہ زندگی کھاگئے۔ زندگی میری تھی بسر اس نے کیا۔

واقعی دوسروں کے بوجھوں نے نہ کچھ نیا ایکسپلور کرنے دیا,نہ لطف اٹھانے دیا. ذہنی پریشانیاں بلڈپریشر,اسٹریس,ڈپریشن,انجائنا. ایک زندگی اپنی ہوتی, ہلکی پھلکی ہوتی۔ حسد,کینہ,اپنوں سے مقابلے کی دوڑ نہ ہوتی تو کیا کیا لطف نہ ہوتا۔ یہ سامان کی فراوانی ہی تو ہماری نظروں کا حجاب ہے۔ دیکھ ہی نہ پائے۔منظر منتظر رہ گئے۔۔
وہ سوچ ہی نہ پائے جس کے لیے شعوروادراک ودیعت کیا گیا تھا۔ اس کاؤنٹر پر میری باری آگئی جہاں جوتے اتروا کر ان کی بھی اسکیننگ ہو رہی تھا۔کیمرے بھانپ رہے تھے۔ ایک ریاست کتنی حساس ہے "داخلے" کے اتنے امتحان۔ ایک رب ہے جو سو عیبوں کے باوجود رحمت کا دروازہ کھلا رکھتا ہے۔۔اگر وہ دل,دماغ یا آنکھوں کی اسکیننگ کرنے لگے کہ آج اسکرین پر نگاہوں کے اتنے گناہ ہیں اس لیے اگلی نماز میں داخلے کے لیے تم پر دروازے بند۔ مگر۔۔۔ وہ رب ہر چند گھنٹے بعد پکارتا ہے کہ دوڑے چلے آؤ۔ جہاز چند گھنٹوں میں ایک ریاست سے دوسری میں پہنچا دیتے ہیں۔ ادھر آخری ہچکی جس کا وقت کسی کو معلوم نہیں لمحوں میں ایک ریاست سے دوسری ریاست میں پہنچا دے گی۔ زندگی۔۔سفر در سفر۔۔ہم سب مسافرت کے گھر میں۔ مگر۔۔خود کو مقیم سمجھے ہوئے۔۔