فیس بک پہ اکثر ماں کی عظمت کے لیے جذباتی قسم کی تحاریر اور ویڈیوز نظر سے گزرتی ہیں۔ جن میں بیاہی بیٹیاں میکے کے سکون کو یاد کرتی ہیں کہ میکہ ایسی جگہ ہے جہاں صبح جلدی اٹھنے کی کوئی پریشانی نہیں، بستر پہ بیٹھے بٹھائے ناشتہ، کھانا اور چائے مل جاتی ہے۔ کوئی ذمہ داری نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ اپنے اطراف میں بھی دیکھا ہے کہ کبھی اگر ماں بیٹیاں پیدل کہیں جاتی نظر آئیں تو شیرخوار بچے ادھیڑ عمر ماوءں نے اٹھا رکھے ہوتے ہیں اور جوان بیٹیاں مزے سے ہاتھ جھلاتی جا رہی ہوتی ہیں۔ اللّٰہ جانے لیکن میں اس طرح کی چیزوں سے relate نہیں کر پاتی۔ شاید میرا گھر میکے کے قریب ہے اور ہمارا آنا جانا رہتا ہی ہے۔ لیکن بھائی کے گھر سال یا دو سال بعد بھی اسلام آباد جاتی تھی، تب بھی میں یوں ہاتھ پیر توڑ کے کبھی نہیں بیٹھ پائی۔
ایسا نہیں ہے کہ میری امّی یا بھابھیاں خیال رکھنے والی نہیں۔ الحمدللّٰہ سب بہت خیال رکھنے والے اور پیار کرنے والے ہیں. لیکن میں یہ سمجھ نہیں پاتی کہ ہم اگر اپنے گھر میں ساری ذمہ داری اٹھا سکتی ہیں تو میکے میں جا کے صرف ہاتھ بٹاتے ہمیں کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟؟ بھابھیاں ہیں تو ان پہ گھر کی ساری ذمّہ داری ہوتی ہے، ساتھ ان کے بچے، ہم بہنیں چلی جائیں تو لامحالہ کام بڑھ ہی جاتا ہے۔ ہم وہاں جا کے مہمان بن کے بیٹھ جائیں گی تو بھابھی کا کام بڑھ نہیں جائے گا، وہ آپ کے آنے پہ خوشی کیسے محسوس کریں گی؟؟ اور اگر بھابھی ہے ہی نہیں یا اتفاقاً آپ جس دن گئیں، اس دن بھابھی کہیں گئی ہوئی ہیں اور ماں اکیلی ہیں، تب تو مجھے اکیلی ماں کی موجودگی میں بیٹھے رہنا گناہ کی طرح لگتا ہے۔۔
ہمیں پانی کے ایک قطرے سے پال پوس کے یہاں تک پہنچانے میں ماؤں کی ہڈیاں گھس جاتی ہیں، جان ختم ہو جاتی ہے اور اس عمر میں، گھسی ہوئی ہڈیوں والی ماں کے سامنے بیٹیوں کا مہمان بن کے بیٹھ جانا کسی بھی زاوئیے سے ایک مناسب طرزِ عمل ہے؟؟ مانا کہ آپ سال میں دو بار جاتی ہوں گی۔ چند دنوں کے لیے جانا ہے تو بےشک مہمان بن کے رہیے لیکن مہینے بھر یا اس سے زیادہ رکنا ہے تو کوشش کیجیے کہ اپنی ماں کےلیے ہر ممکن سکھ اور سکون کا باعث بن کے رہیے۔ ان کے جتنے ممکن ہیں کام نمٹا کے آئیے، انہیں بستر پہ کھانا اور چائے دیجیے۔ ہم بیٹیاں ویسے ہی والدین کی خدمت سے عملاً محروم ہی رہتی ہیں تو جب جب بھی موقع ملے اسے غنیمت سمجھ کے نیکیاں سمیٹنے میں گزارئیے.
(یہی فارمولا اپنے گھر میں بسنے والی بہوئیں سسرال وزٹ پہ اپنی ساس امّی کےلیے بھی ضرور میں ذہن رکھیں اور ہر دو اطراف کی ماؤں سے دعائیں سمٹیے۔)
تبصرہ لکھیے