ہوم << خودپسندی کے گناہِ بے لذت کا شعور - محمد اکبر

خودپسندی کے گناہِ بے لذت کا شعور - محمد اکبر

اللہ تعالی نے سورت مطففین کی ابتداء میں "تطفیف " کرنے والوں کےلیے ہلاکت کا اعلان کیا ہے۔
وَيْلٌ لِلْمُطَفِّفِينَ الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَ

ہلاکت ہے تطفیف کرنے والوں کےلیے۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز ناپ کرلیتے ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں۔ اور جب وہ کسی کو ناپ کر یا تول کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔

تطفیف کا لفظ طفیف سے بنا ہے جس کا معنی ہے: تھوڑی سی چیز ۔ عام طور پر ناپ تول میں کمی کرنے والا تھوڑی سی کمی کرتا ہے جس کا پتا بھی نہیں چلتا ، اس لیے اسے تطفیف کہتے ہیں۔ لیکن تھوڑی تھوڑی کمی بھی شام تک کافی ہو جاتی ہے۔ یہ آیت ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے بارے میں ہے لیکن ہم اپنی پوری زندگی کو اس کے آئینے میں دیکھ سکتے ہیں اور اپنے بارے میں فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کیا ہم بھی " کمی" کرنے والوں میں سے تو نہیں ہیں؟ ہم میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے حقوق میں کمی کوتاہی کرتے ہیں، نہ کبھی اُس کی نعمتوں کا شکر بجا لائے، نہ اُس کے سامنے جھکے ، نہ دل کو اُس کی محبت کےلیے وقف کیا، نہ ندامت کے آنسو بہائے اور نہ اُس کےلیے گناہوں کی زندگی کو چھوڑا لیکن پھر بھی مشکل وقت میں اُس کی مدد چاہیے، وہ ایسے ہی کرے جیسے ہم اُس سے دعا میں کہیں ، جتنا کہیں ، جب کہیں اور جس ضرورت کے بارے میں کہیں، اُسے چاہیے کہ فورا پورا پورا دے دے۔ یہ خدا کے حق میں تطفیف ہے۔
وَ جَعَلُوْا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الْحَرْثِ وَ الْاَنْعَامِ نَصِیْبًا فَقَالُوْا هٰذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَ هٰذَا لِشُرَكَآىٕنَاۚ-فَمَا كَانَ لِشُرَكَآىٕهِمْ فَلَا یَصِلُ اِلَى اللّٰهِۚ-وَ مَا كَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ اِلٰى شُرَكَآىٕهِمْؕ-سَآءَ مَا یَحْكُمُوْنَ

اور اللہ نے جو کھیتیاں اور چوپائے پیدا کیے ہیں، اِن لوگوں نے ان میں سے اللہ کا بس ایک حصہ مقرر کیا ہے۔ چنانچہ بزعم خود یوں کہتے ہیں کہ یہ حصہ تو اللہ کا ہے، اور یہ ہمارے اُن معبودوں کا ہے جن کو ہم خدائی میں اللہ کا شریک مانتے ہیں۔ پھر جو حصہ اُن کے شریکوں کا ہوتا ہے، وہ تو (کبھی) اللہ کے پاس نہیں پہنچتا، اور جو حصہ اللہ کا ہوتا ہے، وہ ان کے گھڑے ہوئے معبودوں کو پہنچ جاتا ہے۔ ایسی بری بری باتیں ہیں جو انہوں نے طے کر رکھی ہیں۔ (سورہ انعام: 136)

کیا ہم اللہ کی عبادت کےلیے وقت نکالتے ہیں جو اس کا حق ہے یا اُس کا وقت بھی اپنے دنیاوی کاموں میں استعمال کر لیتے ہیں؟ اپنے گروپ ، فرقے ، مسلک یا جماعت کا بندہ ہو تو اُس کے کام کا اقرار کیا جائے، اُس کی خدمات کو سراہا جائے، اُس کے گُن گائے جائیں لیکن دوسری جماعت کے کسی فرد کے کام کو اگنور کرنا، تعریف و تحسین نہ کرنا، داد و ستائش میں ڈنڈی مارنا یہ رویہ بھی تطفیف ہے۔ ہمارے ہاں کئی اہل علم نے گرانقدر خدمات دیں لیکن اُن کا نام ہماری زبان پر صرف اس لیے نہیں آتا کہ وہ ہماری پارٹی کے نہیں ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہماری پارٹی کے بزرگوں کی خدمات کو سراہا جائے اور اُن کی خدمات کا اقرار کیا جائے۔

ایک دن ایک جلسے میں مجھے اپنے استاد اور ایک دوسرے عالم دین کو دعوت دینی تھی۔ میں نے استاد کے بارے میں الفاظ ، اشعار اور القابات کا چناؤ بڑے اچھے طریقے سے کیا کہ وہ میرے استاد ہیں، مجمع کو معلوم ہونا چاہیے کہ میں کن کا شاگرد ہوں۔ لیکن جب دوسرے عالم دین کو دعوت دینے لگا تو دل نے کہا کہ ان سے میرا کیا رشتہ ؟ اپنی جگہ علامہ ہوں گے تو ہونے دو۔ اس لیے انہیں صرف مولانا کہہ کر دعوت دیتا ہوں۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ویل للمطففین کی آیت نے آ دبوچا اور کہا: دوسرا عالم بھی تمہارے استاد کے برابر کا ہی ہے، ایک کے فضل و شرف کو بیان کر کے دوسرے کے فضل و شرف کو اگنور کرنا ، کیا تمہارا یہ رویہ تطفیف نہیں ہے؟ تمہیں اپنی استاد کی عزت چاہیے تو دوسرے عالم کی کیوں نہیں؟

ایک دن ہماری کلاس میں سر نے کہا کہ آپ سب نے میرے سامنے پریزنٹیشن دینی ہے۔ چنانچہ ایک لڑکا اٹھا ، اُس نے بات شروع کی تو ہم بقیہ لڑکے آپس میں باتیں کرنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد ہم میں سے دوسرا لڑکا پریزنٹیشن کےلیے کھڑا ہوا اور ہم نے باتیں جاری رکھیں۔ اُس نے ڈیسک پر ہاتھ مار کر کہا: پلیز خاموش ہو جائیں کیونکہ میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا: کیا پہلا لڑکا ڈسٹرب نہیں ہوا تھا؟ یقینا ہوا لیکن ہمیں ہر کوئی سنے اور ہم کسی کی نہ سنیں۔ یہ تطفیف نہیں تو اور کیا ہے؟

میں میسج کا جواب دینے میں انتہائی سست ہوں۔ ایک دن مجھے جلدی میں کسی کو میسج کرنا پڑ گیا، میں نے میسج بھیجا اور اُس کے بعد انتظار میں بیٹھ گیا کہ کب یہ سین کرے اور جواب دے۔ لیکن وہ سین نہیں کر رہا تھا۔ مجھے بہت غصہ آیا کہ یہ کیا مزاق ہے؟ ضرورت کے وقت میسج ہی ںہیں دیکھ رہا۔ میں انتظار اُس کا واٹس ایپ نمبر کھولے بیٹھا تھا تو ویسے ہی اوپر اسکرولنگ شروع کر دی۔ اوپر والے میسجز دیکھتے ہی ندامت ہوئی کہ اُس نے مجھے پانچ پانچ میسجز کیے ہوئے ہیں لیکن میں نے کسی کا جواب نہیں دیا ہوا۔ اُس دن مجھے سمجھ آئی کہ یہ رویہ بھی تطفیف ہے کہ مجھے تو ابھی کے ابھی جواب چاہیے اور دوسرے کو "بعد میں دیکھ لیں گے"۔

یہ تطفیف ہماری زندگیوں میں اس قدر عام ہوچکی ہے کہ اب زندگی کا کوئی گوشہ اس سے خالی نظر نہیں آتا، مثلا:
میں فیس بک پر جب کوئی پوسٹ کروں تو سب لوگ لائک ، کمنٹ اور شیئر کریں لیکن مجھے کسی کی حوصلہ افزائی کےلیے ایک کلمہ بھی نہ لکھنا پڑے۔ مجھے لوگ عزت دیں اور مجھے کسی کو عزت نہ دینی پڑے۔ میں ہر روز کسی کا مہمان بن کر خوب دعوتیں اڑاؤں لیکن کوئی دوسرا میرا مہمان نہ بنے. میری بات بروقت سن کر جواب دیا جائے لیکن میں کسی کی سن کر اَن سنی کر دوں. میں بیٹے کو وقت نہ دوں لیکن بڑھاپے میں وہ مجھے پورا وقت دے۔ میں اپنی بیوی یا شوہر کے جذبات کا خیال نہ رکھوں تو خیر ہے لیکن کوئی میرے جذبات کا خیال نہ رکھے تو اس کےلیے قیامت برپا کر دوں۔ میرے بیٹے یا بیٹی کی شادی ہو تو سب لوگ میرے ساتھ ہر طرح کا جانی و مالی تعاون کریں لیکن مجھے کسی کے کام نہ آنا پڑے۔ مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو جیسے بائیک وغیرہ تو دوسرا شخص فورا دے دے لیکن میری بائیک کوئی مانگنے آئے تو میں کسی کو نہ دوں۔

میں ملازمت کے فرائض مکمل طور پر انجام نہ دوں لیکن مجھے سیلری میں تنخواہ کے ساتھ الاؤنس بھی ملے۔ میں اپنے ملازمین سے خوب کام لوں ، ان کی چھٹیاں کم سے کم کروں اور یہ خواہش رکھوں کہ چوبیس گھنٹے وہ میرے لیے دستیاب ہوں تاکہ میرے اہداف و مقاصد پورے ہو سکیں لیکن میں انہیں ڈبل کام کے پیسے نہ دوں، ان کی حوصلہ افزائی نہ کروں، ان کے بیوی بچوں کی ضروریات پوری نہ کروں۔ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کےلیے سو فیصد محنت نہ کروں ، بغیر مطالعے کے سبق پڑھا دوں، چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں ڈانٹ پلاؤں اور بے عزتی کروں لیکن طلبہ مجھے پوری عزت دیں ، جہاں سے میں گزروں، طلبہ کھڑے ہو کر استقبال کریں اور ادب سے جھک جائیں۔ میں کسی سے قرض لینے میں منتیں کروں، اگر کوئی نہ دے تو دوسرے کے ذریعے سفارشیں کرواؤں لیکن جب واپسی کی بات آئے تو ٹال مٹول شروع کر دوں۔ میں تمام ملکی وسائل کا غلط استعمال کروں، جو میرے ہاتھ لگے، وہ میری ملکیت بن جائے، ٹرین پر ٹکٹ لیے بغیر سفر کروں، ملکی اداروں میں بیٹھ کر کرپشن کے ذریعے پیسہ کماؤں لیکن ملکی ترقی میں مجھے اپنی جان، مال، وقت ، تعلیم یا کسی بھی ہنر کے ذریعے کنٹری بیوشن نہ کرنا پڑے۔ گویا ملک مجھے ہر سہولت دے لیکن میں ملک کو کچھ نہ دوں۔

بطور امام میں چاہتا ہوں کہ مقتدی مجھے گھر بنا کر دیں ، ہر سال عمرہ بھی کرائیں، گاڑی بھی دیں، بجلی کے بل بھی ادا کریں اور میں انہیں صرف نماز پڑھا کر مسجد سے باہر نکل جاؤں یا جمعہ کا بیان کر کے ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاؤں۔ بطور مقتدی میں چاہتا ہوں کہ کہ امام بر وقت نماز پڑھائے، نکاح کا خطبہ دے، میری میت کو غسل دلوائے ، نماز جنازہ پڑے، میرے بچوں کو حفظ قرآن کروائے ، گھر آ کر ختم قرآن کرے اور میں جمعہ والے دن نمازیوں کے سامنے سے ایک جھولی گزار کر اسے تنخواہ دے دوں۔ میں درخت سے پھل بھی لوں، سایہ اور آکسیجن بھی لیکن ساتھ ہی مجھے اسے کاٹنا بھی ہے۔ میں اونٹ ، گھوڑے اور گدھے پر خوب بوجھ لادوں ، پورا پورا دن ان کی کمر مصروف رکھوں لیکن قوت بخش غذا، گھاس وغیرہ بھی نہ دوں، بس شام کو صرف کچھ پتے آگے پھینک دوں۔ یہ سب تطفیف ہی تو ہے۔

اس تطفیف سے ہماری زندگی بھری پڑی ہے لیکن ہم اس گناہِ بے لذت کا شعور ہی نہیں رکھتے ، اسے گناہ سمجھتے ہی نہیں ہیں کیونکہ ہمیں تو صرف وہی تطفیف معلوم ہے جو ترازو کے دو باٹ کر رہے ہیں۔ باقی یہ رویے تو تطفیف نہیں ہے، یہ تو سیلف کیئر، سیلف لَو، اپنی ترجیحات، بزنس یاپروفیشنل سمارٹنس، مارکیٹ کے مطابق ایڈجسمنٹ، مینٹل ہیلتھ، پرسنل گروتھ وغیرہ ہیں جو آج کے انسان کی ضرورت ہیں۔

Comments

محمد اکبر

محمد اکبر دو کتابوں کے مصنف ہیں۔ قرآن فہمی ان کی پہچان ہے۔ قرآنی اسباق کو نئے اسلوب کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کی تصانیف آؤ! رب سے باتیں کریں اور اللہ ہے نا، امید کا راستہ دکھاتی ہیں، شخصیت کی بہترین تعمیر کرتی ہیں۔ جامعہ امدادیہ فیصل آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ جامعۃ الشیخ یحیی المدنی کراچی میں تخصص کے طالب علم ہیں

Click here to post a comment