میری عزیزو! زندگی کا امتحان مشکل ہے۔ جب ہر طرف نظروں کو خیرہ کرنے والے مناظر اور چہروں کی چکاچوند ہواور اسی چکا چوند کی مانگ ہو۔ تو امتحان اور مشکل ہوجاتا ہے۔ اچھے خاصے گھریلو، تعلیم یافتہ ، متوسط گھرانوں کی خواتین جو خود دوپٹے اوڑھتی ہیں، عبائے پہنتی ہیں، آدھے پونے لباس پہننے والیوں کی مدح کریں، ان کے فیشن ، انھی کے انداز پر فدا ہوں ، ان کے طور طریقے قبول عام حاصل کرلیں۔ وہ جو کبھی دیکھ کر نظریں جھک جایا کرتی تھیں، ان پر خوش ہو کر باتیں کرنے والے اور والیاں آپ کے اردگرد بڑھنے لگیں۔۔ تو ظاہر ہے کنفیوژن بڑھتی ہے۔ صحیح اور غلط کی درمیانی لکیر مدھم پڑنے لگتی ہے۔
کسی کے مقبول ہونے یا تعریف کے لیے اس کا خوبصورت لگنا اور اس کی ” کیوٹ“ ادائیں اکثریت کے لیے کافی ہونے لگیں ، تو ظاہر ہے کنفیوژن تو ہوگی کہ یہی سب کچھ میں کروں تو کیا برا ہے؟ ہم اب تک کہتے ہیں کہ نوجوان نسل خراب ہے۔ لیکن میں بچیوں سے باتیں کرتی ہوں تو مجھے پتہ چلتاہے کہ وہ اپنے بڑوں کو ایسا کرتے دیکھتی ہیں تو ان کو کبھی پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ برا ہوتا ہے۔
ہم پاکستان جاتے ہیں۔ وہاں شادیوں میں مکس گیدرنگ ہی ہوتی ہے۔ چمکتے لباس اور میک اپ والے چہروں پر اسکارف اوڑھ لیا ہوتا ہے کئی آنٹیوں نے۔ وہاں سب ڈانس کرتے ہیں۔ تو ہمیں نہیں پتہ کہ یہ غلط ہے۔ پاکستانی آنٹیاں چہرے کی رنگت پر اور وزن پر کومنٹس کرتی ہیں۔ جب میک اپ کرتے ہیں تو اس پر بھی کومنٹس کرتی ہیں۔ کسی غیر مسلم لڑکے کے ساتھ فرینڈ شپ غلط ہے لیکن پاکستانی یونیورسٹیز میں مسلمان نوجوان ساتھ پھرتے ہیں تو ان کے والدین کو اس میں مسئلہ نہیں لگتا ۔ تو کیا صرف ریلیجن ہی کا مسئلہ ہے؟ کیا سینہ ڈھانپنا چاہیے؟ مگر ہمیں تو نہیں بتایا ! کیا گوسپس نہیں کرنا چاہیے؟ مگر ہمیں تو نہیں پتہ تھا۔کیا فلاں بات ہمیں نہیں کرنی چاہیے تھی؟
میں پوچھتی ہوں تو بہت ہی کم لڑکیوں سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی مائیں ان موضوعات پر ان سے بات کرتی ہیں۔لڑکوں سے ڈسکشن کا تو ہمارے یہاں رواج ہی نہیں۔ تعلیم یافتہ گھرانوں میں تعلیم ، گریڈز، کیرئر، شاید شادی پر بھی گفتگو ہوتی ہے، لیکن ان موضوعات پر یا تو کوئی مسئلہ ہی نہیں یا ”پھر یہ ہمارے یہاں نہیں ہوتا۔ مزید کوئی بات نہیں!!“
ماؤں کو اپنی بچیاں چھوٹی ہی لگتی ہیں۔ لیکن جن کی نظروں کے سامنے وہ جاتی ہیں، ان کو وہ ”چھوٹی“ نہیں لگتیں۔ آپ اپنی شہزادیوں سے بلکہ اپنے شہزادوں سے بھی ان موضوعات پر بات کرتی کرتے ہیں؟ نہیں تو کیوں؟ مجھے اندازہ ہے کہ بہت سارے لوگوں کو ایک ”روشن خیال تعلیم یافتہ خاتون “کے قلم سے ایسی ”دقیانوسی اور تنگ نظری “ والی باتیں نہیں پسند آئیں گی۔ لیکن میری یہ گفتگو ان لوگوں سے ہے جن کو یہ موضوعات روشن خیالی اور ”علم والوں “ کے موضوعات لگتے ہیں۔
سماج اور میڈیا تو جہاں جارہا ہے، جارہا ہے، ہم بڑوں نے اپنا حصہ کتنا اور کیا ڈالا ہے؟ کٹیلے اور طنزیہ تبصروں سے گریز کرتے ہوئے ، وقار اور درد دل اور اخلاص کے ساتھ سوچیے۔ کیا آپ ان موضوعات پر اپنے اردگرد کم عمر بچیوں اور بچوں سے ایسی گفتگو کرسکتی ہیں یا کرتی ہیں جو ن کے دل میں اتر سکے۔
یہ سوال مرد حضرات کے لیے بھی ہے۔
تبصرہ لکھیے