جو نوجوان شادی کرنا چاہتے ہیں پر سمجھ نہیں پاتے کس قسم کی لڑکی سے شادی کی جائے؟ انتخاب کس بنیاد پر ہو؟ طریقہ کار کیا ہو؟ خود کس قابل ہوں؟ وغیرہ
سب سے پہلے تو آپ اپنا محاسبہ کریں، یہ ایک ذمہ داری بھی ہے، ضروری بھی اور ضرورت بھی۔۔ اپنے اندر چھپی خوبیوں کو گنیں، خامیوں کو پرکھیں اور خود کو بہتری کی طرف تراشیں۔۔
یہ دیکھنا ہوگا کہ آپ ایک گھر چلانے کی ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہیں؟ عدل کر سکتے ہیں؟ دینی معاملات میں کس قدر شریعت کے قریب ہیں اور ترجیحات کیا ہیں؟ یہ تمام تفصیلات سمجھنے کے لیے ہماری تحریر پڑھیں جو ہم نے بچیوں کے والد کو مشورے کے طور پر لکھی ہے، اس کا لنک کمنٹ میں لگا دیں گے ان شاء اللہ۔۔
یاد رکھا جائے کہ شادی کے لیے لڑکا یا لڑکی کا کسی خاص عمر تک پہنچنا ضروری نہیں۔۔ البتہ شریعت میں جو شرط ہے وہ عاقل و بالغ ہونے کی ہے اور بہترین معیار دین کی بنیاد کو کہا گیا ہے۔۔ پھر اہلیت میں احساسِ ذمہ داری، عدل، ترجیحات، مقصدِ حیات اور زندگی کا مرکز اللہ کی ذات کو بنالینا ضروری ہے۔
اہلیت کی آخری چیز ہے معاش، یہ شرط نہیں ہے پر آج کے دور کے حساب سے بے حد ضروری ہے تاکہ نکاح کے بعد فریقین کی زندگی میں سکون ہو ناکہ پریشانی۔ معاش کم از کم دین کے مطابق اتنا ہو کہ روٹی، کپڑا، مکان اور بنیادی اخراجات کی ذمہ داری اٹھائی جا سکے اس کے علاوہ ترغیب ہے کہ ہم پلّہ یعنی کفو میں شادی کی جائے تاکہ میاں بیوی ایک ماحول سے نکل کر دوسرے ماحول میں با آسانی ایڈجسٹ کر سکیں۔۔
اب دیکھیں کہ کن بنیادوں پر لڑکی کا انتخاب افضل نہیں ہے۔۔
1) وہ بہت خوبصورت ہے۔۔
2) اسمارٹ، دبلی پتلی ہے۔۔
3) امیر کبیر ہے۔۔
4) ماڈرن، کرئیر اورینٹڈ، ماڈل و ٹک ٹاکر ٹائپ۔۔
5) بے پردہ، بد اخلاق، مادیت پرست۔۔
6) جاہل، لالچی و خود غرض وغیرہ۔۔
یہ سب بعض اوقات پہلے سے تب پتہ ہوتا ہے جب پسند کی شادی کا معاملہ ہو، البتہ اس سب کو پسند کی وجہ بنانا نہیں چاہیے۔۔ ہاں اس میں سے چند باتیں دیکھی جا سکتی ہیں جیسے خوبصورت وغیرہ۔۔ ارینج میرج کے لیے یہ نمبر پانچ اور چھ کو سمجھنا تھوڑا مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔۔ گھر والے یہ سوالات کر سکتے ہیں اور ان کی موجودگی میں شرعی حدود میں رہتے ہوئے آپ بھی ان کے ولی کی اجازت سے۔۔
اصل میں کن بنیادوں پر انتخاب کرنا چاہیے؟؟
1) سب سے پہلے تو دین۔۔ صرف عبادات میں ہی نہیں، معاملات میں بھی جس کی ترجیحات دنیاوی سے زیادہ اخروی ہوں۔۔
2) دوسری بڑی خوبی لڑکی کا باکردار ہونا ہے۔۔
3) با حیا و با حجاب۔۔
4) احسن اخلاق کے ساتھ ساتھ جو بچوں کی تربیت کے حوالے سے بہت سنجیدہ ہو، اس کی ترجیحات میں بچوں سے پہلے کام نہ آتا ہو ورنہ مسئلہ خراب ہو سکتا ہے۔۔ یہاں کمانے کی ذمہ داری ویسے بھی مرد ہی پر عائد ہے، البتہ شرعی حدود میں کمانے کا اختیار ہے پر اسے اس پر مجبور نہ کیا جائے۔۔
5) بنیادی دینی و دنیاوی تعلیم ہونا ضروری ہے تاکہ آگے بچوں کی تربیت میں اہم ترین کردار ادا کر سکے۔۔
6) ذمہ داری اٹھانے کے قابل ہو، کفایت شعار، شکر گزار اور سگھڑ۔۔
ان میں سے کئی باتیں تو ایک نظر میں بھی پرکھی جا سکتی ہیں، اور بعض کے لیے سوالات و جوابات درکار ہوں گے جو گھر کی عورتیں لڑکی سے کریں، اور چند باتیں آپ بھی کر سکتے ہیں۔۔
نوٹ: یہاں اگر کسی کو صرف ایک سوال کرنے کا موقع ملے تو وہ یہ ہوگا کہ: کیا آپ شادی کے بعد شریعت کے بتائے گئے طریقے پر دلی رضامندی سے عمل پیرا رہنے اور اس سے روگردانی نہ کرنے کی شق پر دستخط کرنے کو تیار ہیں؟ یعنی اختلاف ہونے پر نا میری نا آپ کی۔۔ مرضی چلے گی تو اللہ کی۔۔ جو لڑکی اس بات پر راضی ہے اسے چن لو اور جب تک وہ اس پر قائم رہے اسے شہزادی بناکر رکھو، کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ کہ وہ تمہاری جنت آسان بنا دے گی۔۔ اور کبھی کمزور پڑ جائے تو اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کرو نہ کہ چھوڑنے کی۔۔
اب دیکھیں موجودہ دور میں اگر صرف آئیڈیل لوگ آئڈیل لوگوں سے ہی شادیاں کریں گے تو باقیوں کا کیا ہوگا؟ شادی تو ان کی بھی ہونی ہے، اس کے لیے ان کی تربیت ہونا ضروری ہے اور دعا کہ اللہ ہدایت دے۔۔ آپ کو اپنے لیے ایسے پارٹنر کا انتخاب کرنا ہے جو آپ کی جنت کی راہ آسان کر سکے، آپ کے بچوں کی تربیت میں وہ حصہ شامل کر سکے جو آپ دونوں کے لیے صدقہِ جاریہ کا سامان بنے اور آپ کی غیر موجودگی میں وہ خود ایک مرد کی طرح اپنی اور اپنے ایمان کی حفاظت کرے، جب اسے دیکھیں تو دل خوش ہو جائے، سنیں تو سکون ملے اور سمجھیں تو دل سے شکر ادا ہو۔۔
اور ہاں ! ان سب باتوں کا کسی ایک میں جمع ہوجانا بہت بڑے نصیب کی بات ہے، اس لیے ایسے بن جائیں جیسا چاہتے ہیں پھر ایسا ملے گا ان شاء اللہ جس کے مستحق ہیں۔۔
دو باتیں، اگر آپ بطورِ مرد اپنی شادی کے بعد الگ گھر یا کم از کم پارشن کا بندوبست نہیں کر سکتے جس میں بیوی کا کچن، باتھ روم اور کمرہ علیدہ ہو، اور اگر جوائنٹ فیملی میں ہی رکھنا ہو تب بھی اوپر بتائی گئی شرائط کے ساتھ دیگر نا محرم سے پردے کا بندوبست نہ ہو۔۔
یا اگر آپ ملک سے باہر مکین ہوں یا جانے کا ارادہ رکھتے ہوں لیکن بیوی کو پاکستان ہی چھوڑ کر جانا اور سال میں کبھی کبھار آجانے والا معاملہ رکھنا چاہتے ہوں۔۔
پہلے اس قابل بنیں جب الگ بندوبست دے سکتے ہوں جس میں اپنے والدین اور ان کے گھر کی عائد ذمہ داریاں اور اپنے بیوی بچوں کی ذمہ داریاں بھی اٹھانے کے قابل بن سکیں اور غیر ملکی یا تو ان کے ساتھ آکر رہیں یا انہیں ساتھ لے جانے کا بندوبست کریں۔۔ یوں لٹکتا چھوڑ دینا اور شادی کے بعد بھی تنہا زندگی گزارنا، بچوں کی پرورش میں اپنا حصہ نہ شامل کرنا وغیرہ جیسی ذمہ داریاں محض پیسہ بھیج کر پوری سمجھنا صحیح نہیں ہے۔۔
ہاتھ پیر چلائیں، قوام و اہل مرد بنیں اور پھر کسی کی بچی کی ذمہ داری اٹھائیں تو یہی افضل عمل ہے۔۔
نوٹ: یہ تحریر محض ان لوگوں کے لیے ہے جن کی زندگی کا مرکز اسلام ہو، یہاں وہی ہمارے مخاطب ہیں۔۔ دین بیزار طبقات کے لیے ویسے بھی ہماری تحریر خاردار جھاڑیاں ہوتی ہیں۔۔
ترتیب یہ ہے کہ کوئی پسند آجائے تو سب سے پہلے جو چیز معلوم کرنی ہے وہ یہ کہ بندی شادی شدہ تو نہیں؟ بات تو کہیں طے نہیں ہوئی؟ اب یہ معلوم کرنا ہر ایک کے انفرادی حالات پر منحصر کرتا ہے۔۔
پھر کچھ بھی کرنے سے پہلے استخارہ کیجیے۔ چند دن تک کرتے رہیں، اطمینان قلب کے بعد اپنے گھر پر بات کریں کہ کوئی پسند آئی ہے اور میرے بندوبست پورے ہیں، آپ لوگ لڑکی کے والد صاحب سے رابطہ کرکے پوچھیں کہ ایک بار مجھ سے مل لیں۔۔ وہ ملنے کو مان جائیں تو ولی سے جاکر ملاقات کریں، ان کے سوالات کے جواب دیں، اپنی بابت بتائیں اور سوالات پوچھیں ان سے بیٹی کے بارے میں۔۔ اور تسلی کروائیں کہ آپ ایک قابل ذمہ دار شخص ہیں جو ان کی اولاد کے ساتھ اچھے سے رہیں گے۔۔
جب شادی کے خواہاں مرد کی لڑکی کے والد سے ملاقات ہو تو اپنی طرف سے تسلی کروانے کے بعد ان سے چند سوالات پوچھے جا سکتے ہیں۔۔
1) آپ کو اپنی بیٹی کے لیے کیسا شریک حیات درکار ہے؟
2) کیا وہ دینی فکر رکھتی ہے؟ پردے کی پابند ہے؟
3) زندگی کی ترجیحات و مقاصد کیا ہیں؟
4) سوشل میڈیا اکاؤنٹ کیا ہیں؟ انسان جو کچھ پوسٹ کرتا ہے، تبصرے کرتا ہے اس سے بہت کچھ اس کی شخصیت و فکر بابت معلوم ہو جاتا ہے۔۔
5) خصوصاً پوچھیں کہ کوئی ایسی بات جو شرعی طور پر ایک ہونے والے شوہر کے علم میں ہونی چاہیے؟ اور آپ میں بھی ایسا کچھ ہو تو اللہ پر بھروسہ کرکے واضح بتا دیں۔۔ جن رشتوں کی بنیاد سچ پر قائم ہو ان پر خاص برکت و رحمت ہوا کرتی ہے۔۔
6) لڑکیوں سے چند اہم باتیں پوچھنے کے علاوہ زیادہ کچھ اس لیے نہیں پوچھا جاتا کیونکہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر اللہ کے بھروسے آپ کے رحم و کرم پر آئی ہے۔۔ اب قوام آپ ہیں تو آپ کا کام ہے صحیح انتخاب کریں ان نے اللہ کے بعد آپ کی مرضی سے چلنا ہے اور جائز معاملات میں اطاعت کرنی ہے اور جو کمی بیشی ہو اسے وقت کے ساتھ ساتھ سنواریں۔۔
ایک آخری چیز جس پر بہت کم عمل ہوتا ہے وہ یہ کہ لڑکا لڑکی کا ایک دوسرے کو پسند آنا بہت ضروری ہے اس لیے ایک نظر دیکھنا لازمی ہے۔۔ کسی ایک کو بھی دوسرا پسند نہ ہو خواہ صورت یا سیرت میں تو پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔۔ کسی قسم کے دباؤ میں آکر شادی کرلینا عمر بھر کا پچھتاوا بن جاتا ہے۔۔
جاری ہے۔
تبصرہ لکھیے