ہوم << پَچادھی محلے والیوں سے بچنا اے حسینو - رقیہ اکبر چوہدری

پَچادھی محلے والیوں سے بچنا اے حسینو - رقیہ اکبر چوہدری

جب سے فیس بک نے ریلز کا سلسلہ شروع کیا ہم جیسوں کو تو وختے میں ڈال دیا۔ جدھر دیکھو ہماری فلم و ڈرامہ انڈسٹری کی حسین ،جوان اور چلبلی اداکارائیں ہمیں "خوبصورت نظر آنے، چمکتی لشکارے مارتی دودھ ملائی جیسی اپنے چہرے ،ہاتھوں، پاؤں کی جلد بنانے، لمبی سیاہ گھنی زلفوں اور سلم این سمارٹ نظر آنے سے متعلق گھریلو ٹوٹکے بتاتی نظر آتی ہیں۔ان کا یہ دعویٰ بھی ہوتا ہے کہ ان کے چہروں کی یہ رونق ،یہ لمبی سیاہ ناگن کی طرح بل کھاتی حسین ریشم جیسی زلفیں اور چاق وچوبند سلم سمارٹ شخصیت انہی ٹوٹکوں کے دم سے ہے جبکہ سبھی جانتے ہوتے ہیں کہ یہ حسن و جوانی کسی "بوٹوکس، کریم کی کرشمہ سازی ہی ہے۔

ان کے بتائے گئے ٹوٹکے سن کر مجھے اپنے سکول کی مس رضیہ کی ایک بات یاد آ جاتی ہے۔ مس "رضیہ" رب مغفرت فرمائے خاصی سخت گیر مگر مادرانہ شفقت سے بھرپور استاد تھیں۔ تونسہ چونکہ ایک چھوٹا سا شہر ہے اس لئے سبھی ایکدوسرے کو جانتے تھے اور اساتذہ تو عموماً ہر علاقے کے مقامی افراد ہی ہوتے تھے جنہیں اپنے طالب علم تو کیا ان کے خاندان تک کے بارے میں بھی مکمل جانکاری ہوتی تھی اگرچہ اب بھی اساتذہ مقامی افراد ہی ہوتے ہیں لیکن اب نہ تو وہ مراسم رہے نا تعلق داریاں اس لئے اساتذہ کا تعلق صرف اداروں میں اپنے طالب علموں کی تعلیمی کارکردگی کی حد تک ہی رہ گیا ہے۔ چھوٹے علاقوں میں البتہ ابھی بھی تعلقات کی یہ ڈور کسی حد تک جڑی ہوئی ہے شہروں میں حالات مختلف ہیں۔

مس رضیہ سے ہمارے خاندان کا پرانا تعلق بھی تھا۔ ایک دن میری بڑی بہن جو کلاس دہم کی طالبہ تھیں ان کی کلاس کی بچیاں ہنسی ٹھٹھے لگا کر خوب شور مچا رہی تھیں۔ بچیوں کے قہقہوں اور گفتگو سے ہونے والا شور باہر دوسری کلاسز تک بھی پہنچ رہا تھا۔ مس رضیہ کا آفس بھی قریب ہی تھا شور سن کر غصے سے بلبلاتی ہوئی کلاس دہم میں آ گئیں۔ بچیوں کو خوب جی بھر کے ڈانٹ ڈپٹ کی اور احساس دلایا کہ یہ وقت پڑھنے کا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے تمام اساتذہ کی طرح لمبا چوڑا لیکچر دے ڈالا۔ اسی لیکچر میں وہ مزیدار سی لائن بولی جو آج مجھے ریلز میں بتائے گئے یہ ٹوٹکے سن کر یاد آ گئی۔

انہوں نے ایک لائق فائق طالبہ (جن کا گھر شہر کے مغربی حصے میں ہونے کی وجہ سے "پچادھی محلہ" کہلاتا تھا) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے باقی طالبات سے مخاطب ہو کر ڈانٹتے ہوئے کہا: "یہ جو پچادھی محلے والیاں ہوتی ہیں ناں۔۔ یہ بڑی سیانیاں ہوتی ہیں۔۔ خود تو ان کے کمروں کے بلب ساری رات جلتے رہتے ہیں ( یعنی ساری رات پڑھتی رہتی ہیں) مگر یہاں آ کر تم لوگوں کو کھیل تماشے میں لگا دیتی ہیں تاکہ تم لوگوں کا پڑھائی سے دھیان ہٹے اور تم ان کی طرح لائق فائق نہ بن سکو کبھی."

تو جناب یہی حقیقت لگتی ہے مجھے ان شوبز کی حسیناؤں کی طرف سے بتائی گئی ریمڈیز کی بھی۔ یہ محترمائیں خود تو کولیجن انجیکشنز ،ڈرپس ،پی آر پی ،فیٹ ریموول لیزر ٹریٹمنٹ جیسی ہر طرح کی کاسمیٹک ٹریٹمنٹ کروا کر بیٹھی ہوتی ہیں لیکن عوام کو ایسی ایسی ریمڈیز کے پیچھے لگا دیتی ہیں جو انہوں نے شاید ہی کبھی خود استعمال کی ہوں۔
ان کی ہدایات پر ہماری بیچاری "مسوم" سی بچیوں نے کچن کو بیوٹی پارلر سمجھ کر کباڑا کر دیا ہوتا ہے۔ کبھی ایکنی ختم کرنے کے ٹوٹکے تو کبھی گورا ہونے کی کوششیں ،کبھی چمکدار گلاسی کورین سکن کی خواہش ، کبھی بال لمبے گھنے کرنے کی تدابیر تو کبھی سفید بالوں کو سیاہ کرنے کے ٹوٹکے کرتی رہتی ہیں۔ پڑھی لکھی ڈاکٹرز بیچاریاں لاکھ سمجھائیں کہ اپنی جلد پہ تجربات کرنا چھوڑ دیں ، مگر یہ نہیں مانتیں۔انہیں لگتا ہے بالوں کو لمبا کرنے ،گنج پن سے بچنے کیلئے جو ریمڈی سعدیہ امام بتا رہی ہے اسے کریں گی تو بس چار ہفتوں میں رپینزل جتنی لمبی چوٹی کمر سے ہوتی ہوئی گٹھنوں پہ جھول رہی ہو گی. یا ندا یاسر کے پروگرام میں بیٹھی کسی حسینہ کے بتائے گئے طریقے پہ چاولوں کا استعمال کرتے ہی کورین اپسراؤں کے جیسے گلاسی سکن دنوں میں مل جائے گی جس کے لشکارے سے راہ چلتے لانبے قد کے کسی ہیرو نما گبھرو جوان کی آنکھیں چندھیا جائیں گی اور وہ انکھیں ملتا کھمبے سے جا ٹکراوے گا۔ یا پھر ادرک لہسن کا قہوہ پی کر کوئی مشی خان جیسی زیرو سائز کی بن جائے گی۔۔
حالانکہ انہیں پتہ ہی نہیں کہ یہ ساری ان "پچادھی" محلے والیوں کی سازش ہے سو بچنا اے حسینو ۔

Comments

رقیہ اکبر چوہدری

رقیہ اکبر چوہدری شاعرہ، کالم نویس اور کہانی کار ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے لکھنے کا آغاز بچوں کی کہانیوں سے کیا۔ پھول، پیغام اور بچوں کے دیگر کئی رسالوں اور اخبارات میں کہانیاں شائع ہوئیں۔ نوائے وقت، تکبیر، زندگی، ایشیا، ہم قدم اور پکار کے لیے مضامین لکھے۔"نکتہ داں کے قلم سے" کے عنوان سے کالم کئی برس تک پکار کی زینت بنا۔ معاشرتی اور سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے حقوق ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ادبی رسائل میں شاعری اور تنقیدی مضامین تواتر سے شائع ہوتے ہیں۔ دو کتابیں زیر طبع ہیں

Click here to post a comment