ہوم << مسلمان امریکہ سے بدگمان کیوں؟ اسامہ عبدالحمید

مسلمان امریکہ سے بدگمان کیوں؟ اسامہ عبدالحمید

laba.ws_USA_Independence_Day

اسامہ عبدالحمید دنیا بھر کے مسلمانوں میں بالعموم اور اہل پاکستان میں بالخصوص امریکہ سے نفرت کا رویہ پایا جاتا ہے۔ اس کے مظاہر ہمیں اپنے اردگرد ہر روز دیکھنے کو ملتے ہیں، جب عام آدمی ہر غیر معمولی واقعے کے تانے بانے بنتے ہوئے اس میں امریکی سازش کا عنصر ضرور تلاش کرتا ہے۔ امریکہ میں مقیم مسلم کمیونٹی کو صبح شام اس سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ امریکہ تو آزادی اظہار رائے، جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بردار ہے، پھر مسلمانوں میں امریکہ کے لیے اتنی نفرت کے جذبات کیوں؟ ایک راستہ تو یہ ہے کہ اسے ہر چیز میں امریکی ہاتھ تلاش کرنے والے مذہبی طبقے کی پسماندہ و شکست خوردہ ذہنیت قرار دیتے ہوئے آگے بڑھ جایا جائے جیسا کہ ہمارے اکثر لبرل اوراپنے تئیں روشن خیال دوست کرتے ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ بے لاگ تجزیہ کیا جائے کہ یہ رویہ کیوں ہے؟ دیگر طاقت ور غیرمسلم ممالک بھی موجود ہیں لیکن یہ نفرت امریکہ کے حصے میں ہی کیوں آتی ہے؟ اسلامی ممالک میں یو ایس ایڈ جیسے پروگراموں کی مد میں لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ رائے عامہ کو اپنے حق میں تبدیل کیوں نہیں کر پایا؟
اگرچہ یہ بات بھی درست ہے کہ یہ مسلم سماج کی قومی عادت بن چکی ہے کہ اپنی کمزوریوں سے زیادہ غیروں کی سازشوں کو اپنے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ ہر واقعے کی جڑ میں امریکہ کو ملوث کیا جائے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس کے پس منظر میں ہمیں امریکہ کے خوفناک تضادات کا ایک انبوہ نظر آتا ہے جو اس نے مسلمانوں کے حوالے سے روا رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم دنیا میں پیدا ہونے والے ہر بحران پر امریکی رد عمل کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس نفرت کی وجوہات کو سمجھنا مشکل نہیں رہتا۔
1980ء کی دہائی میں صدام حسین امریکہ کی آنکھ کا تارا تھا۔ بہت کم امریکیوں کو 1983ء میں صدام حسین اور ڈونلڈ رمزفیلڈ کے درمیان ہونے والی طویل ملاقات یاد ہوگی جس کے اختتام پہ رمزفیلڈ نے عراق کو امریکہ کا اتحادی اور مشرق وسطی میں امریکی مفادات کا نگہبان قرار دیا۔ تاہم اکیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ پہ انکشاف ہوا کہ صدام تو ایک ڈکٹیٹر ہے جس نے عراقی عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ چنانچہ صدام حسین کی آمریت کو وحشیانہ قرار دے کر دنیا بھر میں عراق پہ حملے کے لیے رائے عامہ کو ہموار کیا گیا۔ 20 مارچ 2003ء کو امریکہ نے عراق پر حملہ کیا۔ صدام حسین کو پھانسی کا پھندا پہننا پڑا۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کی بحالی کے سبز باغ دکھا کر لاکھوں عراقی مسلمانوں کو تہ تیغ کر دیا گیا۔ جمہوریت کا سراب تو ہاتھ نہ آیا، نہ ہی حقوق مل سکے، البتہ تاریخی اہمیت کا حامل ایک سرسبز و شاداب مسلم ملک مستقل خانہ جنگی اور فرقہ واریت کے مہیب شعلوں کی نذر ہو گیا۔ اسی طرح دہائیوں تک امریکہ لیبیائی آمر کرنل قذافی کی آمریت کے لیے چھتری بنا رہا۔ تاہم چند سال قبل اچانک امریکہ پہ یہ عقدہ کھلا کہ قذافی نے لیبیا میں بنیادی انسانی حقوق غصب کر رکھے ہیں۔ امریکہ کے نزدیک یہ حقوق لیبیائی عوام کو صرف جمہوریت کے سایہ رحمت میں آنے سے ہی مل سکتے تھے۔ چنانچہ اپنے سابقہ اتحادی قذافی کو مروا کر جمہوریت کے نام پہ ہنستا بستا ملک اجاڑ کر رکھ دیا گیا۔ مصر کی حالیہ مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ سوچنے سمجھنے والے امریکی شہری اب اس بات کا برملا اظہار کرنے لگ گئے ہیں کہ جب امریکہ کو تیل درکار ہو یا دیگر تجارتی مقاصد ہوں تو وہ آمروں کی کھلم کھلا حمایت کرتا ہے اور جب ضرورت پوری ہوجائے تو جمہوریت اور شخصی آزادی کے نام پر انھی آمروں کو مروا دیتا ہے۔
آزادی اظہار کا امریکی ماڈل بھی انوکھا اور مسلمانوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔کسی بھی زندہ شخصیت کی توہین کا الزام ثابت ہونے پہ امریکہ میں قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کی دلآزاری کرنے والی گستاخانہ فلم اور کارٹونوں کے سدباب کی کوئی صورت موجود نہیں ہے۔ اس حوالے سے امریکی حکام کی جانب سے زبانی کلامی افسوس کا اظہار ہی کیا جاتا ہے۔
اسلام کے پردے میں اپنا ایجنڈا پورا کرنے والے گمراہ گروہوں کی مسلسل سرپرستی بھی امریکی کردار کو مسلمانوں کے نزدیک مشکوک ٹھہراتی ہے۔ یہ گروہ امریکی وسائل اور سفارت کی چھتری تلے سادہ لوح مسلمانوں تک پہنچ کر اپنا منجن بیچتے اور انھیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اس سال جون میں امریکہ میں "اسلام اور عالمی امن" کے موضوع پر ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ مسلمان علماء و مشائخ کے نام پر اس کانفرنس میں قادیانی مبلغوں کو مدعو کیا گیا۔ کرسیء صدارت پہ مرزا مسرور احمد (قادیانی خلیفہ) متمکن تھے۔ کانگرس کے ارکان کیتھ ایلیسن، فرینک وولف اور امریکی ایوان نمائندگان میں اقلیتی گروپ کی سربراہ نینسی پلوسی کی موجودگی میں صدارتی خطبہ دیتے ہوئے مرزا مسرور احمد نے انکشاف کیا کہ اسلامی ممالک میں جاری بدامنی اور دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری خود مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے اور امریکہ و یورپ اس معاملے میں بالکل معصوم ہیں۔ اختتامی اعلامیے میں امریکی حکومت کی جانب سے مرزا مسرور کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ اسلامی انتہاپسندی کے تدارک کے لیے اپنے پیروکاروں کو اسلامی ممالک میں منظم کریں۔ اس کے لیے امریکہ ان سے مکمل سفارتی و مالی تعاون کرے گا۔ اسلامی انتہاپسندی کے تدارک کے نام پر مسلمانوں میں گھس کر کون سا ایجنڈا پورا کیا جائے گا، یہ سمجھنا مشکل نہیں۔
فلسطین اسرائیل قضیے میں امریکہ کا جھکاؤ ہمیشہ غاصب گروہ کی جانب رہا ہے۔ گزشتہ ادوار میں جمی کارٹر، سینئر بش اور بل کلنٹن سمیت کئی امریکی صدور نے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان جاری تنازعے کے خاتمے کی کوشش کی لیکن اس کوشش میں چونکہ فلسطین کہیں نہیں تھا لہٰذا اس تنازعے کا مستقل حل نہیں نکل سکا۔امریکہ کو یہ توفیق تو کبھی نہیں ہوئی کہ غزہ کے باسیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ مظالم اور مغربی کنارے کی زمینوں پر بڑھتے قبضے کی زبانی کلامی مذمت ہی کرسکے البتہ ان مظالم اور قبضوں کے خلاف جدوجہد کرنے والی حماس کو اس نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ نوم چومسکی جیسے سینکڑوں امریکی دانشور اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ خطے میں اسرائیل کو ٹھیکے دار بنانے میں امریکہ کا پورا ہاتھ ہے اور وہ یہ کام صرف عربوں کو کمزور رکھنے اور روس کو خطے سے باہر رکھنے کے لیے انجام دے رہا ہے۔
جارج بش کے دور میں افغانستان، یمن اور پاکستان میں ڈرون حملے شروع ہوئے جو کہنے کو تو دہشت گردوں کے خلا ف تھے لیکن خود امریکی تھنک ٹینکس کے اعداد و شمار اس بات کی چغلی کھا رہے ہیں کہ ان حملوں کا ٪90 سے زائد نشانہ سویلین ہی بنے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان حملوں پہ ہونے والے شدید رد عمل کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے کبھی اپنی پالیسیوں پہ غور کرنے کی زحمت نہیں کی اور مزید انانیت اور ہٹ دھرمی سے اس آگ کو مزید سلگایا ہی ہے۔ لیبیا کے لیے امریکی پالیسیوں کے ردعمل میں بن غازی سفارت خانے پہ حملہ ہوا اور امریکی سفیر کرس سٹیونز موت کے منہ میں چلے گئے۔ جواب میں امریکہ نے لیبیا میں اپنے میرینزکی تعداد مزید بڑھا دی اور کار روائیوں کو تیز کر دیا گیا۔
یہ چند عوامل ہیں جو مسلم معاشروں میں امریکہ کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔ یو ایس ایڈ جیسےمنصوبوں اور تعلیمی سکالرشپس کے ذریعے امریکہ کا سافٹ امیج تب ہی بن سکے گا کہ امریکہ اپنی پالیسیوں پر بھی نظر ثانی کرے اور جمہوریت، دہشت گردی اور آزادی رائے کے حوالے سے اپنے تضادات کے خاتمے کی جانب قدم بڑھائے۔