زندگی کی وہ گھڑیاں جنہیں ہم جی رہے ہیں انہیں وقت کہا جاتا ہے یہ اللہ تعالٰی کی ایک ایسی نعمت ہے جس میں شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا ہر ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا، جوان ہو یا بوڑھا، مسلمان ہو یا کا فر، امیر ہو یا غریب، الغرض سب یکساں اور برابر کے شریک ہیں کسی کو اس طرح کے حقیر بہانے سے کبھی بھی راہ فرار کا اختیارا نہیں کہ دوسرے کو وقت زیادہ ملا مجھے کم۔ مثلاً دو مقابل افراد میں سے ایک جیت جاتا ہے دوسرا ہار تو اس کی بھی معقول اور صاف وجہ وقت کا درست اور غلط استعمال کرنا ہے جیتنے والے نے مقابلے کے دوران اور اس سے پہلے اپنے وقت کو خوب سوچ و سمجھ کر ، بے کار کاموں میں ضائع کیے بغیر، مقابلہ کی مشق اور تیاری میں کماحقہ صحیح اور درست استعمال کیا اس لیے وہ جیت گیا جبکہ شکست خوردہ مقابلے کے دوران جذباتیت میں بہہ کر یا اس سے پہلے اس کا غلط تصرف کرکے شکست و ریخت سے دوچار ہوا۔
وقت کی مثال برف کے ساتھ دی جاتی ہے کہ جس طرح برف پگھلتی رہتی ہے حتی کہ پانی بن کر اس کا نام و نشان تک نہیں رہتا، اب اگر کسی عقلمند نے اس کو پگھلنے سے پہلے پہلے اپنے کام میں لایا تو کامیاب ہوا اگر کسی نے اسے پگھلنے اور پگھلتے رہنے دیا تو ظاہر سی بات ہے چند ہی لمحوں کے بعد سوائے افسوس کے اس کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح وقت کو برف کی جگہ پر رکھ سوچئے تو مثال سمجھنے میں دشواری نہیں ہوگی۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وقت تلوار کی طرح ہے جس نے تلوار کو اپنے دشمن کے خلاف استعمال کیا اس کا سر تن سے جدا کیا تو ہمیشہ کےلیےاس کے شر سے محفوظ رہا ، اس کے برعکس اگر کسی نے تلوار کا غلط استعمال کرکے اپنا کوئی نقصان کیا یا اپنے کسی دوست یا رشتہ دار پر اس کی غلط آزمائی کی تو یقینا اس کا خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی اپنے وقت کو مثبت کاموں میں دوسروں کی خدمت میں صرف کرتا ہے تو اس کا بیڑا پار، بجائے اس کے اگر کوئی اپنے وقت کو منفی اثرات کے پھیلاؤ، معاشرتی بگاڑ اور لوگوں کو نقصان پہنچانے یا اس جیسی خیالات میں ضائع کرتا ہے تو اس کا اپنا ہی نقصان ہونا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اگر ہم وقت کی اہمیت کا جائزہ لیں تو اس میں بھی دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار وقت کے درست استعمال میں رکھا نظر آتا ہے کہیں پہ "والعصر" زمانہ کی قسم کھاکر اللہ تعالٰی ہمیں وقت کی اہمیت سے روشناس کراتا ہے اور کبھی ، لعمرك إنهم لفي سكرتهم يعمهون( سورة الحجر، آیت نمبر 72،) تیری عمر کی قسم وہ نشے میں سرگرداں(دھت) ہیں، فرماکر وقت کو ضائع کروانے والے بے سود چیزوں کے نقائص و مضرات بیان کرکے بچنے کی ترغیب کا سامان کرتا ہے ۔
اسی طرح آقا علیہ السلام کی زندگی کا ہر لحظہ و ہر آن، ہر ساعت و ہر گھڑی ہمارے ہر ہر شعبہ ء زندگی کےلیے اسوہ حسنہ اور بہترین رہنما تو ہے ہی، لیکن یہاں ہم وقت کی اہمیت کے متعلق صرف چند احادیث مبارکہ ذکر کریں گے جن سے واضح ہوگا حضور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی نظر میں وقت کتنی اہمیت کا حامل ہے اور کس اہتمام کے ساتھ اپنی امت کو وقت ضائع کرنے سے اجتناب اور بہتر سے بہتر بنانے کی تعلیم دے رہے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ
اغتنم خمسا قبل خمس: شباك قبل هرمك، وصحتك قبل سقمك، وغناك قبل فقرك، فراغك قبل شغلك، وحياتك قبل موتك
ترجمہ: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو؛ اپنی جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ،اپنی صحت کو بیماری سے پہلے، اپنی ثروت(امیری) کو فقر سے پہلے، اپنی فرصت کو مشغولیت سے پہلے اور اپنی زندگی کو مرگ سے پہلے۔
ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں کہ
نعمتان مغبون فيهما كثير من الناس: الصحة و الفراغ
ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بیشتر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے.
ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جنت میں اہل جنت سب زیادہ ان ،،لمحوں،، پر پچھتائیں گے جو انہوں نے ذکر اللہ کے بغیر گزارے ہیں۔
قارئین کرام، متذکرہ بالا قرآنی تعلیمات و احادیث مبارکہ اور امثال کی روشنی میں وقت کی اہمیت کا احساس و ادراک تو ہوا ہوگا لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنا وقت کس طرح قیمتی بناسکتے ہیں؟ تو اس کے جواب میں عرض یہ ہے کہ ہمیں اپنے وقت کو قیمتی بنانے کے دو کام کرنے ہوں گے۔ ایک تو ہمیں اپنی زندگی کو ایک رخ دینا ہوگا اپنی منزل کا تعین کرنا اور ایک بہت بڑے مقصد کا حصول ذہن نشین کرنا ہوگا پھر اسی رخ پر چلتے ہوئے اپنی منزل کی طرف روبہ سفر اور اپنے مقصد کے حصول کےلیے مکمل یکسوئی اور کامل اخلاص کے ساتھ تگ و دو کرنی ہوگی۔ وگرنہ بغیر کسی منزل کے اور بے مقصد زندگی میں وقت کا درست استعمال اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔
دوسرا ہمارے کرنے کا کام یہ ہے کہ ہمیں اپنے وقت کو منظم کرنا ہوگا ہمیں ،الأهم فالأهم ( اہم کام کو سب سے زیادہ وقت اور سب سے پہلے۔ پھر دوسرے نمبر کا اہم کام) کے قاعدہ کی رعایت رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو دنوں سے گھنٹوں اور گھنٹوں سے منٹوں پر تقسیم کرکے پھر ہر ہر کام کو اپنے مقررہ وقت میں انجام دینا ہوگا.وقت کی تنظیم سازی کے حوالے سے ایک دفعہ جامعہ الرشید کے استاد مفتی احمد افنان صاحب نے عالمگیر مسجد کراچی میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی مبارک زندگی کا بہت ہی خوبصورت نقشہ کھینچا، فرمایا کہ حضور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ کو تین حصوں میں تقسیم فرمایا تھا ایک حصہ اللہ تعالٰی کی انفرادی، عبادت کےلیے مختص کیا ہوا تھا دوسرا حصہ تبلیغ کےلیےجبکہ تیسرا حصہ اپنی ذات کےلیے مقرر کیا ہوا تھا۔اور پھر آخر میں اپنی ذاتی حصے کے مقررہ وقت میں سے بھی ایک حصہ تبلیغ کو دے کے ہمیں ،الأهم فالأهم کے قاعدے کا ہمیں عملی درس دے دیا۔قصہ کوتاہ یہ کہ وقت ایک عظیم نعمت ہے جوکہ کسی بھی صورت کسی کےلیے رکنے والا نہیں ہے ہمیں اپنے وقت کی قدر اور خوب سے خوب قیمتی بنانے کی حتی الوسع کوشش کرنی چاہیے ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
اللہ تعالٰی ہمیں وقت کی قدر دانی اور اسے قیمتی بنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تبصرہ لکھیے