ہوم << یہ دیہاڑی دار مزدور - زارا مظہر

یہ دیہاڑی دار مزدور - زارا مظہر

گھر ہو یا گھونسلہ بنتے ہوئے دیکھنا مجھے بے حد پسند ہے اور قدرت یہ موقع مجھے وافر اور متعدد بار فراہم کرتی ہے. میں گھنٹوں مزدوروں اور پرندوں کی محنت دیکھتی رہتی ہوں۔ میں نے گذشتہ بیس برسوں میں بے تحاشا تعمیرات قریب سے دیکھی ہیں بلکہ بحریہ لائف سٹائل کا طویل کمرشل پراجیکٹ میرے گھر کی پچھلی طرف زیر تعمیر تھا. بیچ میں صرف چھ فٹ کا فاصلہ تھا .اتنے بڑے پراجیکٹ کو روز بنتے دیکھنا بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا ۔۔۔ تنکا تنکا چننے کے لئے بار بار اڑان بھرنا اور اسے گھونسلہ بنانا ۔۔ یا اینٹ پہ اینٹ جمانا ایک ہی جیسے دلچسپ عمل لگتے ہیں۔
آج کل آمنے سامنے تین گھر تیزی سے تکمیل کی جانب ہیں. اکثر اوقات ان کی نقل و حمل دکھائی اور سنائی دے جاتی ہے. شدید ککّر جیسی ٹھنڈ پڑ رہی ہے ۔۔ گرم غذاؤں اور گرم کپڑوں جرسی، جیکٹس اور شالز کی موجودگی میں بھی بستر چھوڑنے کو دل نہیں چاہتا لیکن یہ مزدور سردی سے بے پرواہ گرم کپڑے اتارے اپنی دیہاڑی پہ لگے ہوئے ہیں ۔ ریسٹ کے اوقات میں ان میں سے کوئی اینٹوں کے چولہے پہ چائے کی پتیلی چڑھا دیتا ہے. یہ سب انجانے آگ کے گرد بیٹھ کے گپ شپ کے ساتھ چائے پیتے ہیں ۔۔ شام کو نہاتے دھوتے ہیں، جمعہ پڑھتے ہیں اور سر شام سو جاتے ہیں ۔ کبھی قریبی پلازے سے پولی تھین کی تھیلیوں چائے لے آتے ہیں اور کپوں میں انڈیل کے پی لیتے ہیں۔ کچھ عرصے میں یہ سب پھر سے ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جائیں گے۔
ایک گھر میں دوسری منزل کے لینٹر کا جال بندھ رہا ہے، ایک میں پلستر ہو رہے ہیں اور تیسرے کی ڈی پی سی کے بعد دیواریں اٹھ رہی ہیں. پچھلے دنوں سورج کا دور دور تک پتا نہیں تھا لیکن یہ مزدور ہر قسم کی سردی سے بے پرواہ جتے ہوئے تھے ۔۔۔ الٹی سیدھی جگہوں پہ لٹک لٹک کے تعمیر اور پلستر کرنا، انھی کی مہارت اور جی داری ہے. تعمیر میں ایک ایسا مقام بھی آیا، مزدور تیسری منزل سے بانس سے سرکتا ہوا نیچے اترا اور یہ منظر میرے ذہن کے پردے میں محفوظ ہوگیا ۔
ان میں سے بیشتر لوگوں کے اپنے گھر نہیں ہوتے، اپنا بوریا بستر ساتھ رکھتے ہیں، جہاں دیہاڑیاں لگتی ہیں وہیں قیام کا بندوبست کرتے ہوئے بستر کھول لیتے ہیں ۔۔۔ اپنے حلیے کے برعکس اپنے کام میں ماہر ہوتے ہیں، نفاست بتاتی ہے، مانو کسی ریشم سے نرم و نازک ہاتھ کی کاریگری ہے، لیکن اس تمام نفاست کے پیچھے کٹے پھٹے کھردرے ہاتھ ہوتے ہیں۔
ہمارے بچپن میں گھر بالکل اور طرز پہ بنتے تھے. ایک تو ہاؤسنگ سوسائٹیز کا پتہ نہیں تھا .محلوں میں گھر بنتے تھے. اینٹیں، ریت، سیمنٹ، بجری جمع کر کے مہینے دو مہینے میں عمارت کھڑی ہو جاتی اور مکین ایک دو دروازے بتیاں لگا کے گھر میں گھس جاتے۔ سوسائٹیز کے بائی لاز نہیں تھے ۔۔ پلمبر اور ٹیکنیشن کی بالکل ضرورت نہیں تھی۔ فلش/ باتھ روم کے لیے گلی میں ایک گڑھا کھود کے لینٹر ڈال دیتے، پلمبرنگ کے جال کی ضرورت ہی نہیں تھی. عمارت کھڑی ہو جاتی تو ترکھان دروازے لگا دیتا، ایک ادھر ادھر سے پائپ کھینچ کھانچ کے دیواروں کے وائرنگ ہوجاتی، ساتھ ساتھ ٹونٹیاں کس دی جاتیں، ایسے ہی بجلی کے تار گٹیوں کی مدد سے دیواروں پہ منڈھ کے ٹیوب لائٹیں بلکہ پیلے بلب لٹکا لیے جاتے ۔۔ پلستر اور چونے سے سفیدی کے بعد گھر تیار ۔۔ بڑے سے بڑے گھر اور فارم ہاؤسز اسی طرح تعمیر ہوتے تھے .
اب تو ڈھائی تین مرلے کا گھر بنانا بھی ایک پراجیکٹ ہے. نقشے , پلمبر , ٹیکنیشن سب مل کے گھر تعمیر کرتے ہیں. ایک کا کام دوسرے سے جڑا ہوا ہے ۔۔ گھر کے فرشوں پہ زیر زمین تاروں کا جال بچھا ہوا ہے اور آپ مذکورہ پلمبر اور ٹیکنیشن سے ساری زندگی کے لیے جڑے رہنا چاہتے ہیں تاکہ کسی بھی زیر زمین خرابی کی صورت میں آپ اسے ہی بلائیں اور کھل جا سم سم کے مصداق صرف متاثرہ کونا کھولا جائے ۔ ہو سکتا ہے ان کاموں کی کوئی ڈرائنگز بھی ہوں، تاکہ وقت ضرورت کسی بھی پلمبر یا ٹیکنیشن کو ہائر کیا جا سکے یا وائرنگ کے کوئی جنرل اصول ہوں جن کی مدد سے متاثرہ جگہ ڈیٹیکٹ یا ڈی کوڈ کی جاتی ہو ۔۔
کل کو یہ گھر بن جائیں گے، تکمیل کے بالکل قریب ہیں ۔۔ یہ تمام مزدور مستری بوریا بستر سمیٹ کے یہاں سے نکل جائیں گے. ان گھروں میں مکین آجائیں گے. انہیں پرواہ بھی نہیں ہوگی کہ مزدوروں نے کتنی محنت اور جانفشانی سے گھر بنایا ہے. انہوں نے تو اسے کاغذ کے ٹکڑوں کے عوض خرید لیا ہے۔ کسے غم ہوگا کہ یہ سارے مزدور خود تو بے گھر ہیں لیکن دوسروں کو خوبصورت گھر بنا کے دیتے ہیں۔ میں یہ بھی سوچتی ہوں بلکہ دیکھتی ہوں کہ گھر کتنے ہی لیوش اور قیمتی ہوں، یہ مزدور انہیں کبھی لالچی اور ملکیتی نظروں سے نہیں دیکھتے ، بلکہ تعمیر کے بعد منظر سے ہمیشہ کے لیے غائب ہو جاتے ہیں۔۔ پھر کبھی واپس نہ آنے کے لیے

Comments

Avatar photo

زارا مظہر

زارا مظہر گذشتہ دس سال سے پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا خاصا جانا پہچانا نام ہیں دونوں پہ بیک وقت لکھ رہی ہیں۔ اردو ادب سے بےحد دلچسپی رکھتی ہیں اور اپنے قلم سے آبیاری کرتی ہیں۔ صاحب کتاب مصنفہ ہیں۔ ان کی تصنیف ''دلم'' اپنے معاشرتی موضوعات کی وجہ سے ان کی کتاب ادبی اور عوامی حلقوں میں خوب پذیرائی حاصل کر چکی ہے۔ مختلف لائیبریریز نے بھی بہ اصرار رکھوائی ہے۔

Click here to post a comment