فکشن پڑھتے ہوئے جو چیز مجھے سب سے زیادہ ہانٹ کرتی ہے، وہ فکشن کی زبان ہے۔ لوگ پانچ سو صفحے کا ناول لکھ لیتے ہیں، اس میں ایک بھی فقرہ فکشن کا نہیں ہوتا۔ جیسے وزن بحر کے بنا شاعری نہیں ہوتی، ویسے ہی افسانوی زبان کے بنا افسانہ نہیں بنتا۔ کتاب "فریم سے باہر" کے پیش لفظ کے بطور لکھے گئے اولین دو صفحات ہی یہ یقین دلاتے ہیں کہ یہ افسانوں کی کتاب ہے اور ایسے مصنف نے لکھی ہے جسے افسانے کی زبان لکھنا آتی ہے۔
دعا عظیمی صاحبہ سے میری کوئی واقفیت نہ تھی۔ مجھے یہ کتاب ہماری ایک اور لاہور نشیں وسیب زادی محترمہ کنول بہزاد کے توسط سے وصول ہوئی۔ میں پیش لفظ کے حصار سے نکلنے کے بعد حسب عادت بیچ بیچ میں سے کہانیاں پڑھتا رہا اور محظوظ ہوتا رہا۔
کچھ روز قبل کانکنوں کی زندگی پر ایک وڈیو شیئر کرتے ہوئے پوچھا تھا کہ اردو میں اس پر افسانے کیوں نہیں لکھے گئے تو کنول بہزاد صاحبہ نے ہی توجہ دلائی کہ اس کتاب میں اس پر ایک افسانہ ہے۔ ڈھونڈا تو دیکھا کہ یہ تو کتاب کا پہلا افسانہ ہے، جو میں نے تقریباً آخر میں پڑھا۔ گو کہ تین صفحات کا یہ افسانہ کانکنوں کی ہیبت ناک زندگی کا گہرا عکس نہیں دکھا پایا مگر یہ اس موضوع پر کمیاب کہانیوں میں سے ایک ضرور ہے۔ یہ اس لیے بھی نظروں سے شاید اوجھل رہا کہ کتاب میں بیشتر کہانیاں محبت کے موضوع پر ہیں۔
میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ دعا عظیمی کی نثر شاعرانہ ہے، بلکہ وہ خالص افسانوی نثر لکھنے پر قادر ہیں ہاں البتہ ان کا تخیل شاعرانہ ہے، جس کا اظہار ان کے لگ بھگ ہر افسانے میں موجود ہے۔ جیسے کانکن والی کہانی کی اختتامی سطر ہے: "آہ! کتنے ہیروؤں کو کوئلے کی کان کھا گئی۔" اور اس کی مثالیں جا بجا ہیں۔ مثلاً اگلے ہی افسانے کی آخری سطر ہے: "ایک اجنبی دیوار آگے بڑھی اور اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔"
"میرے پاؤں میں بھنور تھا اور دل میں مغربی ستارے کی آرزو جو مجھے ہر دم اڑائے رکھتی تھی۔" (افسانہ: دوسری محبت مغربی ستارے سے")
"وہ میرے قریب آئی تو میرے صدیوں کا انتظار کھل اٹھا۔" (افسانہ: صدیوں کا مسافر)
"اسی جگہ میں نے پاؤں پھیلائے اور تارے گننے لگا۔ میرے سرہانے اکتارا بجتا رہا۔" (افسانہ: اور اکتارا بجتا رہا)
"مجھے ادراک ہوا کہ حسن کا سورج تو نصف النہار پہ ہے البتہ میری آنکھ کا چراغ گل ہونے کو ہے۔" (افسانہ: ناریل پانی)
شاید اسی لیے کانکن مزدور سے شروع ہونے والے اس افسانوی مجموعے کا مرکزی موضوع محبت ہی ہے۔ گو کہ بیچ بیچ میں سماجی موضوعات بھی جھلک دکھلاتے ہیں۔ جیسے کہ افسانہ "خالی ہاتھ کا بابا"، "بھوری"، "پرائیویٹ" وغیرہ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ محبت کے بیان میں ہی مصنفہ کا قلم زیادہ کھلتا ہے۔ اس لیے کہیں کہیں وہ محبت اور سماجی مسائل کو یکجا بھی کر دیتی ہیں جیسے کتاب کی مرکزی کہانی "فریم سے باہر" میں ہوا ہے۔
ویسے اس عنوان سے دو کہانیاں شامل ہیں، ایک افسانوں کے حصے میں اور ایک آخری حصہ جسے انہوں نے نثرانے کا نام دیا ہے۔ حالانکہ میری نظر میں یہ بھی کہانیاں ہی ہیں... چھوٹی چھوٹی مختصر کہانیاں۔ جنہیں اردو میں فلیش فکشن یا مائیکرو فکشن بھی کہا جاتا ہے۔ میں انہیں مختصر کہانیاں ہی کہتا ہوں جس کا رواج منٹو نے "سیاہ حاشیے" سے ڈالا تھا۔ بھئی جب سو صفحات سے ہزار صفحات تک کی کہانی تکنیک کے لحاظ سے ناول ہو سکتی ہے تو بیس صفحات سے دو سطروں تک کی کہانی تکنیکی لحاظ سے افسانہ کیوں نہیں ہو سکتی، اسے افسانچہ، نثرانہ کیوں کہیں!
مختصر یہ کہ اردو افسانے کے احیا والے اس سال میں آنے والے افسانوی مجموعوں میں یہ ایک اچھا اضافہ ہے۔ دعا عظیمی صاحبہ کا یہ پہلا افسانوی مجموعہ ہے مگر ان کی افسانوی نثر شاندار ہے۔ موضوعات متنوع نہ ہونے کے باوجود دلپزیر ہیں، دل گداز ہیں، اثر انگیز ہیں۔ بیک فلیپ پر موجود خالد سہیل صاحب کی رائے کا یہ اولین فقرہ ان افسانوں کی تخلیقی سطح کا نچوڑ ہے کہ، "دعا عظیمی کے افسانوں میں محبت، خواب اور دانائی آپس میں بغل گیر ہو جاتے ہیں۔"
بطور افسانہ نگار مجھے افسانے کی جادوئی دنیا میں اس نئے تخلیق کار کی آمد اچھی لگی۔ خدا انہیں طویل سفر کی استقامت دے۔
تبصرہ لکھیے