غامدی صاحب کو چونکہ میں نے بہت قریب سے دیکھا ہے، لہذا میں اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ غامدی صاحب کے ہاں ایمان کا مسئلہ نہیں۔ انھوں نے جو مسئلہ پیدا کیا ہے، وہ علمی نوعیت کا ہے۔ وہ دین کو فرد کا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ دین کا آفاقی پہلو ان کی نظروں سے یکسر اوجھل ہے۔ بلکہ ان کا بنایا ہوا نظام دین کے آفاقی ہونے کے مقدمہ کو کمزور کرتا ہے۔ وہ مدافعانہ منہج کے تحت دین کو سمجھتے سمجھاتے ہیں۔ حق کی دعویدار کسی بھی فکر میں غلبہ کے جو عزائم خلقی طور پر موجود ہوتے ہیں، وہ ان کی فکر میں مفقود ہیں۔ اسلام مطلق حقیقت کا دعویدار ہے۔ یہ کسی حق کا حامل نہیں، بلکہ The Only Truth کا واحد مستند نمائندہ ہے۔ اسلام کا یہ ضروری لازمی وصف غامدی صاحب کے پورے discourse میں ناپید ہے۔
دوسری اہم چیز ان کی ہر مانیوتک ہے۔ ان کی ہرمانیوتک منہجِ اسلاف سے ایک سو اسی ڈگری کے اختلاف پر کھڑی ہے۔ بالکل مخالف پول پر۔ قرآن مجید ان کے نزدیک سرگزشتِ انذار ہے۔ یہ ان کی ہرمانیوتک کا بنیادی ترین ستون ہے۔ اس اصول سے ان کی فکر کے بہت سے دھارے پھوٹے ہیں۔ قانونِ رسالت، قانون جہاد حتی کہ اسلامی سزاؤں اور تعزیرات پر ان کا موقف اسی اصول پر مبنی ہے۔ پھر قرآن مجید کی ترتیب و تدوین اور اس کی حفاظت اور اس کے متن کا باہمی ربط جسے وہ نظمِ قرآن سے تعبیر کرتے ہیں، وہ اسی اصول کی طرف راجع ہے۔ قرآن مجید کتابِ انذار ہے۔ اس سے مجھے اور آپ کو اختلاف نہیں۔ لیکن وہ ایک ”سرگزشت“ ہے، یہ غامدی صاحب کی دریافت ہے اور اس میں وہ صریح تفرد کا شکار ہیں۔ قرآن مجید کے سرگزشت ہونے کے تصور نے ان کے نظامِ فکر میں ایک فارن ایلمنٹ کو داخل کیا ہے۔ جس کا قرآن مجید سے کوئی تعلق ہے اور نہ قرآن مجید کی تفسیری روایت سے۔ سرگزشت کے ایک تصور نے ان کے پورے ڈسکورس کو روایتی ذہن کے لیے اجنبی بنا دیا ہے۔ وہ شاید کہیں گے کہ روایتی ذہن ان کا مخاطب ہی نہیں۔ اِس ذہن کا فنا ہونا ضروری ہے۔ دین کی بقا کی خاطر روایتی ذہن کو قربان کردیا جائے، یہ ان کے نزدیک کوئی خاص مہنگا سودا نہیں۔ وہ یہ ڈیل کر چکے ہیں۔ ورنہ اس اجنبیت کو محسوس کرنا ان کے لیے چنداں مشکل نہیں تھا۔
انھوں نے دین کو ایک بہت ہی سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت روایت سے منقطع کیا ہے۔ وہ اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ وہ جب کہتے کہ دین کو بے کم و کاست قرآن و سنت کی بنیاد پر بیان کیا جائے، تو ان کی مراد یہی ہوتی ہے۔ قرآن مجید کے سرگزشت ہونے کے تفسیری نتائج ہمارے سامنے ان کی ”البیان“ کی صورت میں موجود ہے۔ جس میں انھوں نے ان تمام احکامات کو جنہیں ہر آنے والے دورِ تک امتداد دیا جاتا تھا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتِ انذار کے کسی خاص دور اور اس کے مخاطبین تک محدود ہوگئے۔ اعلاء کلمتہ اللہ کی خاطر جہاد ممنوع ہوگیا۔ اس جہاد کو انھوں نے اتمام حجت کے ناقابلِ فہم اصول سے جوڑ دیا۔ یہ اتمام حجت محض ایک خط لکھ دینے سے ہو سکتا تھا۔ بعض صورتوں میں اس وقت خط کی بھی ضرورت نہ تھی اور یہ اتمام حجت محض مکہ و مدینہ میں ایک اسلامی ریاست کے قیام سے خودبخود ہوگیا تھا۔ لیکن آج کے اس انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں جب دین کا ظاہر و باطن سب کے سامنے موجود ہے، اس سے اتمام حجت کا ہونا محال ہے۔ بہرحال ان کی اس تعبیر سے امت کے کندھوں سے اس دینی فریضہ کی ادائیگی کا بوجھ اتر گیا۔ غامدی صاحب کے سامعین نے شکر کا سانس لیا کہ ہمیں اب غلبۂ دین کے لیے کسی مسلح جدوجہد کی ضرورت نہیں۔ دین ان کے ہاں فردِ واحد کا مسئلہ ہے۔ ان کے نزدیک معاشرہ اور نظمِ اجتماعی افراد کا مجموعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ فرد کی تعمیر سے معاشرے کی تعمیر کا رستہ کھلتا ہے۔ ہمیں اس سے اختلاف نہیں، لیکن جس چیز کو انھوں نے یکسر نظر انداز کیا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کا دین اجتماعیت کے حصار میں محفوظ رہتا ہے، ورنہ نہیں۔ لہذا اجتماعیت فرد کی corollary نہیں، کسی بھی کلی نظام (binding system of thought) کا الگ سے ہدف ہوتا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ ان کا ذوقِ قطعیت ہے۔ غامدی صاحب اوائلِ شباب ہی سے حد سے متجاوز قطعیت کا ذوق رکھتے تھے۔ یہ گویا ان کی علمی شخصیت کا خاصہ ہے۔ وہ ذاتی زندگی میں بہت تحمل مزاج اور نرم خو ہیں اور برداشت اور بردباری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ علمی زندگی میں وہ چیزوں کو بلیک اینڈ وائٹ دیکھتے ہیں اور چیزوں کو بے لچک قاعدوں میں categorise کرنے کا مزاج رکھتے ہیں۔ قطعیت کا ان کی فکر پر اس قدر غلبہ تھا کہ ان کی ہر دریافت قطعی ہوتی، جسے وہ ترک فرماتے وہ بھی قطعی ہوتی تھی اور جسے وہ اختیار کرتے وہ بھی قطعی۔ میں اکثر اس سوچ میں چلا جاتا کہ اگر پہلی رائے بھی قطعی تھی اور آج وہ متروک ہے، تو اس نئی قطعی رائے کو کیا سمجھا جائے۔ ظاہر ہے علم کی دنیا میں ایسی قطعیت جو خود قطعی لفظ کی سمائی سے بھی باہر ہو، کیسے میسر آسکتی ہے۔ غامدی صاحب نے اندرونی اور بیرونی تنقیدات کے زور کے تحت اور کچھ کبر سنی کے تقاضوں کی وجہ سے بھی اپنے ذوقِ قطعیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال قرآنِ مجید کے الفاظ کی دلالت کا مسئلہ ہو یا نظمِ قرآن کا مبحث یا حدیث کا قرآن و سنت سے تعلق کا مسئلہ ہو، ان سب میں ان کا موقف امت کے موقف سے محض ان کے ذوقِ قطعیت کی وجہ سے ٹکراتا ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں قرآن مجید کو اس کے عموم کی بجائے اس کے خصوص میں تفسیر کرنے کا اصول وضع کیا۔ انھوں نے کہا قرآن مجید کے معانی کو ان کے خصوص میں سمجھا جائے گا اور بعد میں دیکھا جائے گا کہ اس کی تعمیم ممکن ہے یا نہیں۔ احکامات کی تخریج کا پورا منہج ان کے ہاں contextual ہے۔ کلام کی قطعی دلالت اس وجہ سے ناگزیر ہے۔ کلام کو جب تک اس کی محدود حدود میں بند نہ کیا جائے، قطعیت کا واہمہ پیدا نہیں کیا جا سکتا اور جب تک منشائے متکلم کی تفھیم سے زیادہ intentionality of the text کو مقصود نہ بنایا جائے۔
متکلم کے منشاء کا فہم متکلم کو متن سے جوڑتا ہے۔ اس ہرمانیوتک میں متکلم غالب اور متن مغلوب ہوتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم متن کے سابق الی الفہم کو حجت مانتے ہیں۔ لیکن جب متکلم کا منشاء ہمیں معلوم ہو جائے، تو ہم متن سے وہ معنی مراد لیتے ہیں، جو متکلم کے پیشِ نظر ہیں۔ ظاہر ہے یہ پورا منہج قطعیت کے علی الاطلاق اور بے لاگ تصور کو ملیا میٹ کردیتا ہے۔ لیکن متکلم کی متن پر اولیت قائم رہتی ہے، بلکہ مزید مضبوط ہو جاتی ہے۔ حنفی ہو یا شافعی متکلم ان کے نزدیک واحد حجت ہے۔ وہ متن کی حدود میں متکلم کو لازمی شرط کی حیثیت میں شامل رکھتے ہیں۔ عام اور خاص کی دلالت کے مبحث میں دونوں مکاتبِ فکر کا اختلاف معروف ہے۔ عام کی دلالت شوافع کے نزدیک ظنی اور احناف کے نزدیک قطعی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ شوافع عام کی تخصیص ظنی دلیل سے کرنے کا موقف رکھتے ہیں۔ احناف اس تخصیص کے لیے قطعی دلیل کا تقاضا کرتے ہیں۔ لیکن اگر یہ تخصیص ایک دفعہ واقع ہو جائے، تو احناف بھی ظنی سے تخصیص کو قبول کرلیتے ہیں۔ اسے وہ عام خص منه بعض قرار دیتے ہیں۔ تاویل واحد کو زبردستی کلام کا نافذ کرنا اس کی دوسری مثال ہے۔ قرآن مجید کے کلام سے استفادہ کرنے میں دو باتوں کا خیال رہنا چاہیے۔ وہ یہ کہ ہمارا قرآن مجید سے معانی کا استنباط قلتِ علم اور قلتِ تدبر کا شکار نہ ہو۔ یہ ایک ناصحانہ بات ہے اور کسی بھی طرح سے تاویل واحد کی دلیل اور احتمالِ ثانی کے امکان کو ماننے والوں کے خلاف حجت نہیں بن سکتی۔ اجزاء میں غلطی کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ لیکن امت کا صدیوں کا تعامل اپنی سرشت میں غلط ہو، یہ غامدی صاحب کی ہرمانیوتک کا فلکرم ہے۔ وہ اس مقام سے بیٹھ کر امت کے پورے علمی ورثہ کو دیکھتے ہیں اور ظاہر ہے اس میں وہ صریح غلطی پر ہیں۔
تبصرہ لکھیے