اکتوبر 2005ء کا کوئی دن، تقریبا ساڑھے گیارہ بجے کا وقت۔ ہفت روزہ ایشیا میں اپنے ڈیسک پر موجود حسب معمول کام کر رہا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ فون اٹھانے والے ساتھی نے آواز دی "منصورہ سے آپ کے لیے فون ہے۔" فون سنا تو شعبہ تنظیم کے ناظم رشید احمد صاحب مخاطب تھے، " بھائی آپ کہاں ہیں؟ قاضی صاحب نے آپ کو ملاقات کے لیے یاد کیا ہے۔ نماز ظہر سے پہلے منصورہ پہنچیں" ایک لمحے کو تو یقین نہیں آیا کہ قاضی صاحب نے مجھے بلایا ہے۔ دوبارہ رشید صاحب کی آواز سماعت سے ٹکرائی۔ "بھائی کیا سوچ رہے ہیں؟" جواب دیا کہ میرے پاس تو سواری نہیں، لوکل ٹرانسپورٹ سے آتے دیر نہ ہو جائے۔ جواب ملا کہ بس نکلیں اور ظہر سے پہلے پہنچنے کی کوشش کریں۔ ہفت روزہ ایشیا کا دفتر لکشمی چوک کے پاس مشہور زمانہ رائل پارک میں واقع تھا، اور وہاں سے منصورہ آتے ایک گھنٹہ تو لگ ہی جاتا ہے۔ آفس سے نکلا، 9 نمبر پر بیٹھا اور پورا راستہ یہی سوچتا رہا کہ قاضی صاحب جیسی بڑی شخصیت کو مجھ جیسے چھوٹے بچے سے کیا کام آ پڑا ہے۔ کل ملا کر عمر اس وقت 21، 22 برس رہی ہوگی۔
ایشیا کے لیے ان دنوں لاہور میں جماعتی پروگروامات بالخصوص جن میں امیرجماعت شریک ہوں، کی رپورٹنگ میرے ذمہ تھی اور خیال یہی رہا کہ رپورٹنگ میں کوئی مسئلہ ہوگا، کہیں غلطی ہوگئی ہوگی اور آج خوب کھنچائی تو ہوگی ہی، آگے نہ معلوم کیا ہو؟ لاہور جماعت کے سیکرٹری اطلاعات کی ذمہ داری کو بھی ایک سال ہونے لگا تھا تو یہ خیال بھی آتا رہا کہ چونکہ لاہور صحافت کا مرکز ہے اور جماعت کا بھی۔ ضرور جماعت کی کوریج حسب توقع نہیں ہوگی اور اس پر کوئی ڈانٹ سننے کو ملے گی۔ سوچیں تھیں کہ امڈی چلی آتی تھیں، زیادہ تو یہی کہ مطئمن نہ کر سکا تو ذمہ داری اور ملازمت دونوں سے فراغت مقدر بنے گی۔ یہ خوف بھی دامن گیر تھا کہ وقت پر نہ پہنچا تو اس شخصیت کے ساتھ ملاقات سے محروم رہوں گا جس کے ساتھ ہاتھ ملانا ہی ایک کارکن کی بڑی خواہش ہوتی ہے۔ اسی شش و پنج میں وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلا اور منصورہ آ گیا۔
قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے دفتر میں قدم رکھا تو وہ جیسے پہلے سے منتظر تھے۔ بڑے تپاک سے ایسے ملے جیسے عرصے سے شناسائی ہو اور مسکراتے ہوئے فرمایا " شمس الدین؟ " دبے لہجے میں جواب دیا جی۔ وہ لمحات اب بھی آنکھوں کے سامنے ہیں- دل کی دھڑکن بہت تیز اور سوچوں کا طوفان۔ فرمایا "بیٹا تشریف رکھیں۔" سامنے بیٹھا تو ایشیا کے تازہ شمارے پر نظر پڑی- خیال آیا کہ راستے میں ٹھیک سوچا تھا، ضرور ڈانٹ پڑنے والی ہے۔ قاضی صاحب علیہ الرحمہ نے پہلے سے ہی ایک کاغذ کو الٹا رکھا تھا۔ کھولا تو سامنے نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی برسی کی تقریب کی رپورٹ تھی۔ ہمدرد سنٹر لاہور میں ہونے والی اس تقریب کے وہ مہمان خصوصی تھے۔ رپورٹ والا صفحہ کھول کے فرمایا "بیٹا میں آپ کی رپورٹنگ ایشیا میں دیکھتا رہتا ہوں، مجھے یہ پسند ہے اور بالکل ویسی ہے جیسی میں چاہتا ہوں- میری خواہش ہے کہ آپ میرے ساتھ کام کریں۔'' اللہ کریم۔ سوچا کیا تھا اور یہ کیا ہو رہا تھا۔ قاضی صاحبؒ نے ایک صحافی دوست کا حوالہ دیتے ہوئے مزید فرمایا کہ " ایک گھنٹے کی تقریر سے پانچ منٹ کا خلاصہ نکالنا بڑی مہارت کی بات ہے اور وہ بھی ایسے کہ کہنے والے کی بات میں ردوبدل نہ ہو اور مفہوم بھی سارا آ جائے۔ آپ کی رپورٹنگ میں یہ خاصیت موجود ہے۔" اپنے وقت کے ایک بڑے لیڈر کی طرف سے ایک کارکن کی ایسی حوصلہ افزائی اور ایسی پیشکش، سبحان اللہ، اس کا کبھی خیال کیا آنا وہم و گمان میں بھی نہ سوچا تھا مگر یہ ہو رہا تھا، اور امیر جماعت کا حکم ہو تو کون اس سعادت سے محروم ہونا چاہے گا۔
اس ملاقات کے بعد باہر نکلا تو عجب حیرانی اور خوشی کی کیفیت تھی، الفاظ اس کے بیان سے قاصر ہیں۔ مجھ جیسا گمنام اور دوردراز کے علاقے اور غریب خاندان کا بچہ، جس کا کوئی تنظیمی بیک گرائونڈ نہیں تھا، محض ٹوٹی پھوٹی صلاحیت کی بنا پر قاضی صاحب جیسے بلند مرتبہ اور عظیم قائد کے ساتھ کام کرے گا، اور وہ خود اس کا انتخاب کریں گے۔ یقین تھا کہ آ ہی نہیں رہا تھا۔ منصورہ میں اس وقت تک کسی سے خاص شناسائی نہ تھی، اس لیے ایشیا کے دفتر واپس چل دیا۔ آفس جا کے بتایا کہ قاضی صاحب نے اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے بلایا تھا تو کسی کو یقین نہ آیا، آنا بھی نہیں تھا۔ اسی شام لاہور جماعت کے دفتر میں امیر العظیم صاحب جو اس وقت لاہور جماعت کے سیکرٹری جنرل تھے، سے ذکر کیا کہ آج قاضی صاحب نے بلایا تھا تو ان کے بھی شاید وہم و گمان میں نہیں تھا، اس لیے پوچھا کہ کون، قاضی سہیل امین۔ جواب دیا کہ نہیں قاضی حسین احمد صاحب نے اور فرمایا ہے کہ میرے ساتھ آ کر کام کرو۔ تو وہ بھی حیرانی کے عالم میں خوش ہوئے اور کہا کہ یہ تو بڑی سعادت کی بات ہے۔ ایشیا اور لاہور جماعت کے چند دیگر بزرگوں اور دوستوں سے رابطہ کیا اور بتایا تو کسی نے اس فیصلے کی تائید نہ کی۔ کسی نے کہا کہ قاضی صاحب تو بہت جلالی طبعیت کے ہیں اور کوئی سیکرٹری ان کے ساتھ رکتا نہیں ہے۔ تین ماہ بعد آپ فارغ ہو گئے تو جماعت میں کہیں جگہ نہ ملے گی۔ کسی نے کہا کہ قاضی صاحب کے ساتھ تو پٹھان ہی چل سکتا ہے، آپ نہیں چل سکیں گے۔ لیکن ذہن میں یہی تھا کہ تین ماہ ہی سہی امیر جماعت کے ساتھ کام کرنے کا موقع تو مل جائے گا۔ ایک بزرگ سے مشورہ کیا تو ایک سینئر صحافی جنھوں نے قاضی صاحب کے ساتھ کام کیا تھا، ان کا حوالہ دیا اور کہا کہ انھیں یہ مراعات اور سہولیات دستیاب تھیں، آپ کو تو خود بلایا ہے، یہ مطالبات رکھیے گا، انھیں ضرورت ہے، مان جائیں گے۔ ہمارے بہت محترم بھائی زبیرمنصوری صاحب نے بھی کچھ عرصہ قاضی صاحب کے ساتھ کام کیا تھا، ان کا بھی حوالہ دیا۔ مگر یہ تو مقصد ہی نہیں تھا۔
دو دن کے بعد منصورہ آیا اور قاضی صاحب کے ساتھ ملاقات ہوئی تو انھوں نے مشاہرے کے حوالے سے پوچھا۔ جواب دیا کہ جو آپ مناسب سمجھیں۔ فرمانے لگے کہ بیٹا یہاں ابرار صاحب اتنے عرصے سے کام کررہے ہیں، ان کا مشاہرہ اتنا ہے، فلاں کا اتنا ہے، تو آپ کو فی الوقت 5 ہزار دے سکیں گے البتہ ذاتی طور پر میں آپ کا خیال رکھوں گا۔ یہ اگرچہ ہفت روزہ ایشیا کے مشاہرے سے کم تھا لیکن میرے لیے تو یہی کافی تھا کہ قاضی صاحب جیسی بڑی شخصیت کے ساتھ کام کا موقع مل رہا تھا، اگر کچھ نہ بھی ملتا تو بھی انکار کا کوئی سوال نہیں تھا۔ اس کے بعد تقریبا چار سال تک ان کے ساتھ خدمت کرنے کا موقع ملا۔ سب اندیشے غلط ثابت ہوئے، ان 4 سالوں میں سفر و حضر میں ساتھ رہا، ان کی تقاریر سے بیسیوں مضامین تیار کیے، ہدایت کے مطابق خطوط کے جواب لکھے، ان کی روزانہ کی خبریں تیار کیں جنھیں وہ جاری ہونے سے قبل خود دیکھتے تھے۔ 1987ء سے لے کر 2006ء تک کی جماعت کی مرکزی مجلس شوری میں ان کی تقاریر سے کتاب " حکمت عملی کا تسلسل" تیار کی۔ اور یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے حیرانی کا باعث تھی کہ 20 سالوں پر مشتمل شوری کا ریکارڈ اور ایک لحاظ سے جماعت کی تاریخ "ایک بچے" کے حوالے کرکے اسے جماعتی نشیب و فراز کی اندرونی کہانی سے واقفیت کا موقع دے دیا گیا ہے، نہ معلوم کل کیا کر دے۔ نہ صرف شوری کی کارروائی پڑھنے کا موقع ملا بلکہ مختلف اہم موضوعات اور ایشوز پر براہ راست قاضی صاحب علیہ الرحمہ سے تفصیلی تبادلہ خیال کا بھی۔ آج خیال آتا ہے کہ جماعت کے حوالے سے یکسوئی اور مختلف ادوار میں اس کی پالیسی کی تفہیم میں اس مطالعے اور ڈسکشن کا بڑا عمل دخل ہے۔ قاضی صاحبؒ کے تنظیمی، دعوتی و سیاسی پروگرامات اور میڈیا کے حوالے سے مصروفیات کو کور اور مینیج کیا لیکن کسی ایک دن اور کسی ایک لمحہ بھی ان کی زبان سے اف تک نہیں سننے کو نہ ملی، ڈانٹ تو بڑی دور کی بات ہے، کبھی یہ نہیں کہا کہ بیٹا یہ کیا کر دیا؟ یہ تو غلط ہو گیا۔ حیرانی ہی حیرانی ہے۔ کہاں مشہور زمانہ جلالی طبعیت اور کہاں اف تک سننے کو کان ترس گئے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث یاد آتی ہے کہ دس سال تک حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا موقع ملا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اف تک نہیں کہا۔ وہ ہر حوالے سے سچے عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور عملی پیروکار تھے۔
سمجھانے کا ان کا اپنا انداز تھا۔ آصف زرداری صدر بنے تو دبئی چلے گئے، پاکستان کے حالات خراب تھے تو ایک دن خبر کا انٹرو بنایا کہ پاکستان جل رہا ہے اور نیرو دبئی میں بانسری بجا رہا ہے، یہ بیان اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوا تو عصر کے بعد ان کا فون آیا اور ہنستے ہوئے فرمانے لگے "بیٹا بات اور نیوز سینس سے تو اختلاف نہیں ہے لیکن یہ نہ ہوتا تو زیادہ اچھا ہوتا۔" چار سالوں میں یہ بس واحد موقع تھا جب انھوں نے کام کے حوالے سے "توجہ" دلائی تھی۔ کام کیسے کرنا ہے، اس کو بھی ایک دن ائیرپورٹ کی طرف جاتے پوئے راستے میں غیر محسوس انداز میں سمجھا دیا۔ فرمایا '' شمس الدین، یہ جو ابرار صاحب ہیں نا، یہ میرے مزاج کو 90 فیصد سمجھتے ہیں، مجھے کیا پسند ہے، میں نے کیا پڑھنا ہے، میری طرف سے کیا اور کیسا جواب جانا ہے، یہ انھیں معلوم ہے مگر پھر بھی وہ کوئی چیز مجھے دکھائے بغیر نہیں بھیجتے۔'' براہ راست نہیں کہا کہ مجھے دکھا کر بھیجا کرو مگر طریقے سے سمجھا بھی دیا۔ خوشی و غم کے موقع پر وہ بھی کارکنان کا خیال رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی ضرورتوں کو پورا کرنے میں آگے رہتے تھے۔ ان کے ساتھ کام کرتے تھوڑا عرصہ ہی گزرا تھا تھا کہ ذاتی حوالے سے پیسوں کی ضرورت پڑ گئی، مبلغ 60 ہزار روپے، قرض حسنہ کی درخواست منظوری کےلیے ان کے سامنے رکھی۔ دیکھا تو فرمایا '' کسی کو یہ خیال نہیں ہونا چاہیے کہ آپ میرے سیکرٹری ہیں اس لیے نوازے جا رہے ہیں، ایسا کریں کہ ذاتی طور پر یہ رقم مجھ سے لے لیں اور حسب سہولت واپس کر دیں۔'' چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ آج خیال آتا ہے کہ ممکنہ طور پر ایک کارکن کی سفید پوشی کا لحاظ ہو اور ممکنہ طور پر دوسرے کارکنان کو اس احساس سے دور رکھنا بھی کہ سیکرٹری کو نوازا جا رہا ہے۔ الحمدللہ امانتوں کا درست جگہ استعمال اور کارکنان کا ایسے خیال جماعت اسلامی کا امتیازی وصف ہے۔
یہ انداز ان کا مسلسل رہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ محبت سے انھوں نے ایک غریب کارکن کو اہمیت دی اور ناتراشیدہ ہیرا سمجھ کر تراشا۔ اس ضمن میں ایک اور واقعہ بیان کرنا مفید ہوگا۔ ایم ایم اے کے وہ صدر تھے اور سپریم کونسل کا ایک اجلاس مولانا فضل الرحمن کے گھر ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونا تھا۔ پشاور میں واقع قاضی صاحب علیہ الرحمہ کے گھر سے نکلے ہی تھے کہ ان کی آواز کانوں سے ٹکرائی '' شمس الدین! سنا ہے آپ کوئی اخبار جوائن کرنا چاہتے ہیں'' ، ایک لمحے کو تو جیسے بندہ بت ہو جائے، ویسی کیفیت ہو گئی، اور حیرانی کہ یہ بات تو چند لوگوں کو معلوم تھی، جنھوں نے آفر کی تھی، یا اکا دکا جن سے مشورہ کیا تھا، یہ ان تک کیسے پہنچ گئی۔ جواب سوچ رہا تھا کہ انھوں نے خود کیفیت سے نکالا اور فرمایا '' آپ جانا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے، آپ زندگی میں ترقی کریں آگے بڑھیں تو مجھے خوشی ہوگی، مگر آپ جماعت میں رہیں تو اللہ آپ کو اس سے زیادہ عزت سے نوازے گا۔'' اور پھر جماعت کے ڈائریکٹر امور خارجہ عبدالغفار عزیز صاحب کی مثال دی کہ انھیں الجزیرہ والے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں لینا چاہتے تھے، رابطے پر عبدالغفار صاحب نے کہا کہ قاضی صاحبؒ سے اجازت لے لیں، قاضی صاحبؒ سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے جواب دیا کہ اگر وہ جانا چاہیں تو مجھے اعتراض نہیں ہے۔ عبدالغفار صاحب نے اسے انکار ہی سمجھا اور جماعت کے ہو رہے۔ قاضی صاحبؒ نے فرمایا کہ آج اللہ نے ان کو عزت دی ہے اور صرف پاکستان میں نہیں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں میں ان کا خاص مقام اور حیثیت مسلمہ ہے۔ تب کا سمجھایا ہوا اب تک کام آ رہا ہے۔ الحمدللہ
تحریر طویل ہو رہی ہے مگر قاضی صاحب کی آواز جیسے ابھی سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے
'' بیٹا آپ کم عمر ہیں، امیر جماعت کے ساتھ کام کرنے کی خواہش بہت سے لوگوں میں ہوتی ہے، تجربہ کار بھی ہوتے ہیں، ایسے میں حسد کا ہونا فطری ہے، کچھ ایسا ہو تو مایوس نہ ہونا، اپنا کام جاری رکھنا۔۔'' ، '' شمس الدین! آپ کے بارے میں یہ میسج آیا ہے کہ دو لائنیں لکھنے والے کو رکھ کر ایک اور محمد علی درانی پیدا کر رہے ہیں، دیکھو بیٹا تم میں کوئی کمی کوتاہی ہوئی تو بھی ساتھ رکھوں گا، مجھے امید رہے گی کہ ساتھ رہو گے تو بہتری آئے گی، دور کروں گا تو زمانے کے حوالے ہو جائو گے، پریشان مت ہو اور اپنا کام جاری رکھو۔''، ''شمس الدین! جماعت کی بہتری کےلیے جو اور جیسے مناسب سمجھو، ویسے کیا کرو، اور ہاں اپنے بلوں پر دستخط مجھ سے کروا لیا کرو۔''شمس الدین فلاں میڈیا گروپ کے مالک سے بات کر لو''، آنکھوں میں حیرانی دیکھی تو شاید بھانپ گئے جیسے بچہ کہہ رہا ہے میں اور وہ ، کیا پدی کیا پدی کا شوربہ، فرمایا '' آپ شمس الدین نہیں، جماعت اور امیر جماعت کے نمائندے ہیں، اسی حیثیت سے بات کریں گے۔ یہاں قاضی حسین احمد اور شمس الدین کی کوئی اہمیت نہیں، جماعت اسلامی کی ہے، اور اسے کوئی نظرانداز نہیں کر سکتا۔'' اور یہ بڑے صوفی سلسلے کے گھر پروگرام کے بعد کھانا ہے، لوگ جمع ہو رہے ہیں، شائبہ ہوتا ہے کہ کارکن باہر ہے۔ زور سے ایک آواز آتی ہے، ''شمس الدین! بیٹا اندر آ جائو، کھانا لگ گیا ہے،'' جی آغا جان میں تو موجود ہوں یہیں، '' اوہ، اچھا، میں سمجھا باہر ہیں، شاید اندر نہ آنے دیا ہو۔'' کراچی پہلی دفعہ ان کے ساتھ جانا ہوا ہے، دن بھر کا سفر کرکے رات آرام کےلیے ایک گھر پہنچے ہیں۔ آواز آتی ہے '' شمس الدین! کراچی پہلے آئے ہو؟'' جی آیا ہوں۔ '' اچھا، میں نے کہا پہلی دفعہ آئے ہو تو گاڑی لے جائو اور گھوم کر آ جائو۔'' اور یہ ہم سوات میں موجود ہیں، ناشتے پر احباب جمع ہیں ، پشتو میں گفتگو ہو رہی ہے، قاضی صاحبؒ کی نظر پڑتی ہے تو خیال آتا ہے کہ محفل میں شمس اکیلا ہے جو پشتو نہیں جانتا۔ اپنی مشہور زمانہ دلآویز مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے ہیں '' شمس الدین، میرے ساتھ چلنا ہے تو پشتو سیکھ لیں'' گفتگو اب اردو میں ہونے لگتی ہے، عرض کیا کہ اتنی تو سیکھ چکا کہ خبر بنا لیتا اور بات سمجھ لیتا ہوں۔
سماعتوں سے اور بہت کچھ ٹکرا رہا ہے، اور دور کہیں سے آواز آ رہی ہے '' بیٹا اسی طرح کام جاری رکھنا، دیکھو میرے انتخاب کی اب تک لاج رکھی ہے، آئندہ بھی ثابت قدم رہنا، کہ میری قبر پر آ کر کوئی دوسرے درانی کا طعنہ نہ دے''۔ ہم بیٹے کس کے قاضی کے، ان سے منسوب نعرہ ہے۔ ہماری راحیل باجی، اللہ انھیں تا دیر سلامت رکھے، بات ہوتی ہے تو اکثر کہتی ہیں کہ بابا کہتے تھے میرے تین بیٹے ہیں، شمس تمھارا بھائی ہے، اس کا خیال رکھنا۔ کارکنان نعرے لگاتے تھے اور یہاں ایک ادنی کارکن کی عزت افزائی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ راحیل باجی نے اب تک بڑی بہن کی طرح ہی خیال رکھا ہے اور قاضی باباؒ کی وصیت کو میری کوتاہی کے باوجود نبھایا ہے۔ اللہ انھیں جزائے خیر دے۔ آمین
بتانا بس یہ تھا کہ جماعت اسلامی کے دامن میں ایسے ہیرے ہیں، آج کے زمانے میں جو کسی اور کے نصیب میں نہیں۔ شخصیت، انداز اور مزاج جدا جدا ہے، مگر تحریک سے محبت اور کارکنان کا خیال مشترکہ وصف ہے جو ہر کسی میں بدرجہ اتم موجود رہا ہے۔
تبصرہ لکھیے