سینیٹ آف پاکستان نے 2017ء میں ایک متفقہ قرارداد (نمبر 335) منظور کی جس میں کہا گیا کہ ”طلبہ یونین ایسا فورم ہے جس کے ذریعے طلبہ اپنے تعلیمی حقوق کےلیے مؤثر انداز میں آواز بلند کرسکتے ہیں؛ یہ طلبہ کے منتخب نمائندوں کو مختلف الانواع تعلیمی، ثقافتی اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے کا موقع فراہم کرتی ہے؛ اس نے پسماندہ اور متوسط طبقات سے ابھرنے والے سیاسی رہنماؤں کو مراعات یافتہ طبقات اور سیاسی اشرافیہ سے آنے والے سیاسی رہنماؤں کے برابر لاکھڑا کیا؛اس نے آمریت کے خلاف جدوجہد میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا؛ یہ درست ہے کہ ماضی میں بعض مواقع پر سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں نے جامعات کے اندر پرتشدد کارروائیوں میں حصہ لیا، لیکن اس کا حل طلبہ یونین پر پابندی لگانا نہیں، بلکہ مؤثر ضابطۂ اخلاق کا نفاذ یقینی بنا کر تعلیمی اداروں کو مضبوط کرنا تھا۔“ طلبہ یونین کی بحالی کےلیے اس سے اچھا مقدمہ شاید ہی پیش کیا جاسکے!
9 فروری 1984ءکو، جبکہ ملک میں مارشل لا نافذ تھا، آمر کے دو حکمناموں کے ذریعے طلبہ یونین پر پابندی لگائی گئی۔ تاہم 1989ء میں پارلیمان نے باقاعدہ قانون منظور کرکے ان حکمناموں کو منسوخ کردیا۔ اس کے بعد ملک بھر کی جامعات میں طلبہ یونین کی بحالی ہوجانی چاہیے تھی۔ تاہم صرف پنجاب میں طلبہ یونین کے انتخابات کرائے گئے اور اس کے بعد مختلف عذر پیش کرکے یہ سلسلہ روک دیا گیا۔ کافی کھینچا تانی کے بعد یہ معاملہ بالآخر سپریم کورٹ تک پہنچا جس نے 1993ء میں ”اسماعیل قریشی بنام اسلامی جمعیت طلبہ“ کے مقدمے میں اس موضوع پر تفصیلی فیصلہ دیا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ نے اس فیصلے کے ذریعے طلبہ یونین پر پابندی لگائی۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے طلبہ کے سیاست میں حصہ لینے سے تو روکا لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت جاری کی کہ ایک مہینے کے اندر جامعات میں ایسا انتظام کیا جائے کہ طلبہ صحت مند سرگرمیوں میں حصہ لے سکیں، ”خواہ اس انتظام کو کوئی بھی نام دیا جائے“، اور اس مقصد کےلیے انتخابات بھی منعقد کیے جائیں۔ حیرت ہے کہ سپریم کورٹ کے اس صریح حکم کو بھی مسلسل 3 عشروں سے پامال کیا جارہا ہے!
دسمبر 2019ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایک طالب علم کا قتل ہوا۔ اس قتل کی انکوائری رپورٹ سے معلوم ہوا کہ کیسے جامعات میں اعلی عہدوں پر موجود بعض لوگ طلبہ کو اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ میں جامعات میں سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں کی موجودگی پر بھی اعتراض کیا گیا ۔ اکتوبر 2021ء میں جب یہ رپورٹ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں پیش کی گئی، تو اس نے متفقہ طور پر طے کیا کہ سیاسی جماعتوں سے منسلک طلبہ تنظیموں پر پابندی کا مطلب طلبہ یونین پر پابندی نہیں ہے ۔ قائمہ کمیٹی میں پیپلز پارٹی، نون لیگ، تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سب کی نمائندگی تھی۔
2017ء میں سینیٹ کی متفقہ قرارداد ہو یا 2021ء میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی متفقہ رپورٹ، دونوں کو سینیٹ کے لازمی فیصلے کی حیثیت حاصل ہے لیکن دونوں پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ ستمبر 2023ءمیں قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطورِ رکن شرکت کی، تو انھوں نے طلبہ یونین کے متعلق استفسار کیا۔ وفاقی سیکرٹری تعلیم وسیم اجمل چودھری نے طلبہ یونین کی بحالی پر زور دیا جس سے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور سینڈیکٹ کے دیگر ارکان نے بھی اتفاق کیا۔ 1984ء کے مارشل لا حکمناموں، 1989ء کے ایکٹ آف پارلیمنٹ اور 1993ء کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لینے کے بعد سینڈیکیٹ نے طلبہ یونین کی بحالی کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کےلیے ضابطۂ اخلاق اور انتخابات کے قواعد طے کرنے کےلیے ڈاکٹر حافظ عزیز الرحمان، ڈائریکٹر سکول آف لا، کی سربراہی میں کمیٹی بنائی گئی۔ فروری 2024ء میں سینڈیکیٹ کے اجلاس میں اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی اور یونیورسٹی انتظامیہ نے سینڈیکیٹ کو آگاہ کیا کہ اگلے سمسٹر (خزاں 2024ء) میں طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
ستمبر 2024ء میں سپریم کورٹ میں جامعات کے مسائل کے متعلق مقدمے (آئینی درخواست نمبر 7 بابت 2024ء) کی سماعت کے موقع پر قائدِ اعظم یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر نیاز اختر نے اس عزم کا اعادہ کیا اور سپریم کورٹ نے ان کے اس عزم کا اپنے فیصلے میں ذکر بھی کیا اور دیگر جامعات کو طلبہ یونین کے انتخابات کے متعلق قائدِ اعظم یونیورسٹی کے قواعد اور ضابطۂ اخلاق کی پیروی کی ہدایت کی۔ اپنے حکمنامے میں سپریم کورٹ نے ملک بھر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تحت کام کرنے والی تمام سرکاری جامعات اور تعلیم کی وفاقی و صوبائی وزارتوں کے علاوہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن اور صوبائی اعلی تعلیمی محکموں کو جو احکامات جاری کیے،ان میں طلبہ یونین کی بحالی کا حکم بھی شامل تھا۔ اس فیصلے کے بعد اب کسی کے پاس طلبہ یونین کی بحالی سے گریز کےلیے کوئی عذر باقی نہیں رہا ہے۔
سپریم کورٹ کا یہ حکم ہر سرکاری جامعہ کےلیے ہے اور اب یہ ہر سرکاری جامعہ کی الگ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہاں طلبہ یونین کے انتخابات کرائے۔ کسی سرکاری جامعہ کی انتظامیہ یہ عذر پیش نہیں کرسکتی کہ وہ اس ضمن میں حکومت یا وزارتِ تعلیم کی اجازت یا ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے رہنمائی کی منتظر ہے۔ ہایئر ایجوکیشن کمیشن نے جامعات کو ایک مراسلہ جاری کرکے جامعات کو طلبہ یونین بحالی کو مؤخر کرنے کا بہانہ فراہم کردیا ہے، لیکن ہم پچھلے کالم میں واضح کرچکے ہیں کہ جامعات پر ہایئر ایجوکیشن کمیشن کی سفارشات ماننا لازم نہیں ہے۔ جس سرکاری جامعہ کی انتظامیہ اس حکم پر عمل درآمد سے گریز کررہی ہے، اس کے اور تعلیم کی وفاقی و صوبائی وزارتوں اور ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے خلاف سپریم کورٹ کے آئینی بنچ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی طلبہ یونین کی بحالی ممکن ہوسکے گی۔
جامعات میں طلبہ یونین کی جگہ ہم نصابی سرگرمیوں کےلیے طلبہ کی”سوسائٹیز “کو دینے والے وہی کام کررہے ہیں جوآمریت کے دور میں صوبائی و قومی اسمبلیاں ختم کرکے یونین کونسل کی سطح پر انتخابات کرانے والے کرتے تھے۔ پوری جامعہ کی سطح پر تمام طلبہ کی ایک منتخب یونین سے جامعات کی انتظامیہ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کیوں خوفزدہ ہیں؟ اس سوال کے جواب کےلیے دیکھیے کہ وفاقی حکومت سے سب سے زیادہ گرانٹ لینی والی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے بورڈ آف گورنرز اور بورڈ آف ٹرسٹیز میں طلبہ تو کیا، اساتذہ کے منتخب نمائندوں کو بھی بیٹھنے کا حق نہیں حالانکہ دسمبر 2023ء میں جامعہ کا بورڈ آف ٹرسٹیز خود اپنی 18 خالی نشستوں میں 4 نشستیں اساتذہ کے منتخب نمائندوں کےلیے مختص کرچکا ہے۔ جامعات طلبہ اور اساتذہ کےلیے ہوتی ہیں، لیکن جامعات کی انتظامیہ اساتذہ اور طلبہ کے سامنے جوابدہی سے بچنا چاہتی ہے۔ چنانچہ ہایئر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر مختار احمد پچھلے دو ماہ سے اس جامعہ کے ریکٹر کی کرسی پر براجمان ہیں لیکن بورڈز کے اجلاس میں اساتذہ کے منتخب نمائندوں کی شرکت کےسب سے بڑے مخالف وہی ہیں۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد، کجا ماند مسلمانی!
تبصرہ لکھیے