خرابی احساس کمتری کی ہے ، ہر قبیلے اور قوم میں ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ اپنے نسب پر شرمندہ ہوتے ہیں. سو جو ہمارے دوست رنجیت سنگھ کو دھرتی پنجاب کا سپوت اور فخر قرار دے رہے ہیں، وہ محض احساس کمتری کا شکار ہیں یعنی اپنے سیاسی اور روحانی نسب پر شرمندہ شرمندہ ... اور تاریخ ایسے نہیں ہوتی کہ جو آپ کو پسند ہو اختیار کیجیے اور جو ناپسند ہو وہاں عقیدت کا سہارا لیجیے.
بلاشبہ رنجیت سنگھ ہیرو ہے ، لیکن وہ ہیرو ہے سکھوں کا ، سکھ قوم اگر راجہ سے محبت کرتی ہے تو ان کا حق ہے ، بلکہ مذہبی حق ، کیونکہ راجہ سے ان کی محبت کی بنیاد ہی مذھب ہے نہ کہ دھرتی ماں پنجاب ،کیونکہ یہ بہرحال حقیقت ہے کہ پنجاب میں وہ پہلا سکھ تھا جس نے ایک وسیع سلطنت قائم کی. بھلے اس کی بنیاد اس نے اپنی ہی بھائیوں یعنی سکھوں کے لہو سے سینچی.
میں خود بہت پکا پنجابی ہوں ، مجھے پنجابی زبان اور یہاں کی زمین سے عشق ہے ، لیکن میں ایسے شخص کو کیوں کر ہیرو قرار دوں کہ جس کی تلوار اغیار کے بجائے بیشتر وقت اپنے پنجابی ، بلکہ سوہنے پنجابی جوانوں کے خون سے تربتر رہی ، جس نے پورے پنجاب کو لہو رلا دیا ، جس نے لاہور شہر کے ہر ہر گھر میں بیوگی کی چادر اتار دی ، جس نے میرے سوہنے پنجاب کی لاکھوں سہاگنوں کے سہاگ اجاڑ دیے ، جس نے سسی کے چناب کو لہو رنگ کر دیا .
تاریخ سے نابلد "فیس بکی مہاشے " یہ سمجھتے ہیں کہ راجہ نے جیسے پنجاب کو کسی غیر ملکی طاقت سے واگذار کروایا تھا ، حالانکہ ایسی کوئی صورت نہیں تھی، بلکہ جب راجہ پیدا ہوا تھا، اس سے کئی عشرے پہلے ہی دلی کی سلطنت سکڑ چکی تھی.پنجاب طوائف الملوکی کا شکار تھا . بہت سی ریاستیں تشکیل پا چکی تھیں. ان میں کچھ ریاستیں سکھ تھیں جبکہ بہت سی مسلمان .
رنجیت سنگھ گوجرانوالہ کے مقام پر 1780ء میں پیدا ہوا۔ بچپن ہی میں اس کی بائیں آنکھ چیچک سے ضائع ہو گئی تھی۔ سکرچکیہ مثل کے سردار مہان سنگھ کا بیٹا تھا۔ بارہ برس کا تھا کہ اس کا باپ مر گیا اور وہ مثل کا سردار بنا۔1792ء میں راجہ نے اقتدار سنبھالا , سولہ برس کی عمر میں اس کی شادی کھنیا مثل میں ہوئی اور ان دو مثلوں کے ملاپ سے رنجیت سنگھ کی طاقت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ اور جلد ہی آس پاس کی ریاستوں پر اس نے تلوار کے زور سے قبضہ کر لیا - کیا آپ سمجھتے ہیں کہ یہ قبضہ اس نے مٹھائی کی ٹوکریاں بھیج کے کیا ہو گا ؟
نہیں حضور ! اس نے یہ سب تلوار کے زور پر کیا ، اور بے شمار لہو بہایا - پھر 1799ء میں جب اٹھارویں صدی ختم ہو رہی تھی تو وہ لاہور پر قابض ہوا. اس وقت لاہور بھی ایک سکھ ریاست تھا اور یہاں چیت سنگھ کی حکومت تھی - اور یہ قبضہ بھی خون ریز تھا ...تماشا یہ ہوا کہ لاہور میں موجود افغانوں یعنی پشتونوں نے راجہ کو بادشاہ کا خطاب دے دیا . اس سے راجہ کے من میں فتوحات کی جوت جاگی ، اور اس نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا . تیسرے ہی برس اس نے امرتسر پر قبضہ کیا یعنی 1802ء میں - وہاں تب گردیت سنگھ تارن حاکم تھا جو اس غاصبانہ قبضے کے بعد بمشکل جان بچا کے بھاگ نکلا. اسی طرح ایک ریاست رام گھڑھیا مثال تھی، وہاں کا حاکم بھی سکھ تھا ، حسبا سنگھ ، وہ فوت ہو گیا تو اس کے ولی عہد نے ڈرتے ہوے اطاعت قبول کر لی. 1806ء میں ایک اور سکھ ریاست پٹیالہ پر چڑھ دوڑا - لدھیانہ میں جنگ ہوئی، ہزاروں پنجابی دونوں طرف سے مارے گئے اور پٹیالہ ریاست بھی رنجیت سنگھ کے قبضے میں آ گئی. اگلے برس اس نے نکائی مثل کی ریاست پر قبضہ کیا - ریاست فرید کوٹ بھی سکھوں کی ریاست تھی ، یہ وہی فرید کوٹ ہے جہاں ہمارے اسحاق بھٹی صاحب رہتے تھے ، اس پر بھی قبضہ کیا - اس گلے برس نشان والیا مثل پر قابض ہوا - اب سارا پنجاب اس کے قبضے میں تھا .
یہاں آ کے انگریز اس کے آڑے آئے . بہادری کی خبر تو اب ہونی تھی.اگر دھرتی ماں کا پتر ہوتا تو طاقت جمع کرتا بدیشی قابضوں کو نکالنے کے لیے، لیکن انگریزوں نے اسے " حکم" دیا کہ بس ...اب بس ..ستلج سے آگے نہیں بڑھا تو راجہ کی بارات بمع رنگیلی رات واپس ہو گئی .. بلکہ ہمارے اس دھرتی کے سپوت نے انگریزوں کو پیشکش کی کہ وہ اگر کابل پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں تو پنجاب سے گذر سکتے ہیں.وقت کے پرویز مشرف نے پنجاب کا سر ذلت و رسوائی سے نیچا کر دیا .
جب ستلج کی طرف اس کو آگے بڑھنے کی اجازت نہ ملی تو ملتان کی طرف نکل گیا. 1818ء میں اس نے ملتان کا محاصرہ کیا اور قبضہ کر لیا اور اگلے ہی برس اس نے کشمیر کو جبار خان سے چھین لیا جو وہاں کا حکمران تھا. ملتان سے سری نگر اور اٹک سے امرتسر تک اپنوں کے لہو سے ندیا ں اور دریا سیراب کر کے اگر کوئی ہیرو ہوتا ہے تو وہ آپ کو مبارک . ہیرو تب مانا جاتا جب بدیشی سامراج انگریز کے خلاف کوئی ایک قدم ہی اٹھاتا. محض اپنے علاقے ، اپنی دھرتی ، اپنا پنجاب اپنے ہی بھائیوں سے چھین کے ہیرو کیونکر کہا جا سکتا ہے. کم از کم تاریخ اسے ہیرو نہیں سمجھ سکتی.
وہ علاقے فتح کر کے مفتوحین کی تذلیل ہی نہیں کرتا تھا، اس کے فوجی عصمتوں کے بھی قاتل تھے. لاہور کی فتح کے بعد اس نے یہاں کی بادشاہی مسجد کو بارود خانہ بنا دیا اور صحن میں گھوڑے باندھنے شروع کر دیے. اگر پنجاب کی بات کی جائے گی تو یہ کیسا دھرتی ماں پنجاب کا سپوت تھا کہ ایک عظیم اکثریت کے مذہبی جذبات کو پاؤں تلے روندتا رہا . اگر پنجاب کی محبت اس کے دل میں ہوتی تو ہر پنجابی کا وہ محافظ ہوتا نہ کہ جذبات اور مذہبی عقیدتوں کا قاتل.
جہاں تک سکھوں کی عقیدت کا تعلق ہے ، وہ اس کے سکھوں پر مظالم کے باوجود حق بجانب ہیں کہ بہرحال وہ ادھورا سکھ ہونے کے باوجود تھا سکھ ہی ، اور اس کی ریاست سکھوں کی تاریخ کی پہلی وسیع ریاست قرار پائی اور آخری بھی. آخری یوں کہ ظلم کی سیاہ رات اس کے ساتھ ہی ختم ہو گئی اور اس کے خاندان کا اقتدار اس کی پہلی نسل تک بھی نہ چل سکا اور سلطنت طوائف الملوکی کا شکار ہو گیا. جی ہاں اس کی وفات کے چار برس میں چار حکمران بدلے اور تخت کا تختہ ہو گیا .
تبصرہ لکھیے