ہوم << ہمارا 2024ء ٹھہر گیا ہے!محمد فیصل شہزاد

ہمارا 2024ء ٹھہر گیا ہے!محمد فیصل شہزاد

آج شام ایک دوست ملنے آئے تو آتے ہی بعد سلام کہنے لگے:
’’۲۰۲۵ء مبارک ہو فیصل بھائی!‘‘
ہم نے خوشدلی سے کہا:
’’خیر مبارک، دل سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھارے اور سبھی پیاروں کے لیے یہ سال بابرکت بنائے۔ (آمین) ہمارا تو مگر ابھی ۲۰۲۴ء ہی چل رہا ہے دوست!
بلکہ آٹھواں مہینہ کہ سات اگست رات ایک بجے پر ہی ہماری گھڑی کی ٹک ٹک رکی گئی تھی۔‘‘
اور سچ مانیے یہ بےساختگی میں کہا، کوئی دانش وری جھاڑنا مقصود تھی نہ خدا نخواستہ کوئی نحوست پھیلانا۔
یہ دل سے کہے گئے الفاظ تھے، جو صرف اپنی ذات کے نہیں بلکہ ہزاروں نفوس کا ترجمان تھے۔
اس یکم جنوری کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ ایک فرد کی زندگی کا نیا سال ہو یا اپنے محور پر گھومتی ہماری اس نیلی زمین کا نیا سال، وقت کے گزرنے کا احساس دراصل ہر شخص کا ایک بہت ہی ذاتی قسم کا تجربہ ہوتا ہے۔
بلکہ سال تو ایک قدرے بڑی اکائی ہے، مہینے، ہفتے ہی نہیں کبھی تو چوبیس گھنٹوں پر مشتمل ایک دن بلکہ ایک رات بھی کسی سیاہ بخت کے لیے سال بھر پر محیط ہو جاتی ہے۔
یہ دراصل زمان و مکان کے مسائل ہیں۔
زمان یعنی وقت، مکان کے ساتھ کچھ یوں پیوست ہے جیسے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں باہم ملی ہوتی ہیں۔
مکان بدل جائے تو زمان کے پیمانے بھی بدل جاتے ہیں اور یہ ہرگز طبیعات کا کوئی مشکل مسئلہ نہیں۔ نظریہ اضافیت کو لوگ بہت مشکل سمجھتے ہیں حالانکہ یہ سارا تناظر ہی کا تو مسئلہ ہے، بہت آسان!
آپ جیسے بہت سارے پیاروں کا ’’مکان‘‘ ایسا ہے کہ ان کے لیے آج چار جنوری ۲۰۲۵ء ہے، لیکن بہت سارے پیاروں کا ’’مکان‘‘ ایسا بھی ہے کہ ان میں سے کسی کے لیے آج بھی فروری ۲۰۲۲ء ہے، کسی کے لیے ۲۰۲۳ء ہے، اور جیسے ہمارے لیے ۲۰۲۴ء!
ایسوں کے لیے ایک برس بارہ مہینوں اور تین سو پینسٹھ دنوں پر مشتمل سال نہیں بلکہ ایک ایسی عفریت نما شب بن جاتی ہے جس کے سیکڑوں ہاتھ پیر ہیں اور وہ خود وقت کی قید سے آزاد ہے۔
بات آسان ہے، آپ تاحد نگاہ پھیلے نیلے آسمان کی چھتری تلے کھڑے ہیں تو آپ کے لیے وقت گزرنے کا احساس ایک بالکل الگ ہی تجربہ ہے اور آپ کے ایک دوست کو کسی دیو نے کسی کنویں میں یا کسی جادوگر نے پرندہ بنا کر کسی پنجرے میں قید کر دیا ہے تو اس کے لیے وقت ایک بالکل الگ تجربہ ہوگا!
کیونکہ تہہ خانوں میں یا کنویں میں گھڑی ہوتی ہے نہ ہی کیلنڈر دیوار پر آویزاں ہوتا ہے۔
اپنا کیلنڈر پھر وہ لوگ خود بناتے ہیں،
اپنے گندے اور بڑھے ہوئے ناخنوں سے دیوار کو کھرچتے وہ وقت کی گھڑی جس دن رکی تھی، وہ تاریخ لکھ کر پھر روزانہ ایک نشان ڈالتے جاتے ہیں، لیکن تابکے؟
یا تو ناخن نہیں رہتے یا دیوار کی گنجائش۔
اپنی گھڑی بھی وہ خود ہی ایجاد کرتے ہیں، تہ خانے کی کسی باغی درز سے یا کنویں کی منڈیر سے جو روشنی کی ایک آدھ کرن جادوگر کی نگاہ بچا کر اندر آجاتی ہے تو انھیں وقت کا ایک لمحہ نصیب ہوجاتا ہے، اور یوں ان کا وقت ایک دو لمحے آگے بڑھ جاتا ہے اور بس۔
قصہ مختصر؛ قیدی وقت کی قید سے آزاد ہوتا ہے!
وہ پھر وقت کے قیدی اسی وقت بن پاتے ہیں جب وہ ایک بار پھر آزاد ہو جائیں!
تو سجنو! ہمیں اور ہم جیسے کچھ نفوس کو تبھی مبارک باد دینا جب ہمارا ۲۰۲۵ء شروع ہو جائے۔ امید ہے اسی مہینے!
٭
ریل کے انتظار میں پلیٹ فارم پر بیٹھے بیٹھے دوست کی بات یاد آئی تو یہ چند الفاظ لکھ دیے، باردگر پڑھا تو دماغ کی طرح الفاظ بھی الجھے ہوئے لگے۔ خیر ہمارا تو یہ کتھارسس ہے، جس کو سمجھ میں آوے اس کا بھی بھلا، جسے نہ آوے اس کا بھی بھلا۔ 🥰
خوش رہو اور ہاں
دعائے عافیت کی درخواست ہے کہ سنا ہے گاڑی تین گھنٹے لیٹ ہے!💕