خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو نوجوانوں کے سبحان اللہ!والدین کہلاتے ہیں۔ دراصل یہی نوجوان ہمارا مستقبل اور قوم کا سرمایہ ہیں ان کی قوت حوصلہ اور آگے منزل اور وہ بھی کامیاب منزل کی طرف بڑھتے قدم کتنا بھرپور اور خوشگوار تاثرلئے ہوتے ہیں۔ان کی ہر قیمت پر مدد کرنا اور ان کے راستے ہموار کرنا ان کی ہر لحاظ سے معاونت کرنا ہی دراصل ان کی بڑی خدمت اور حوصلہ افزائی ہے۔ہر لیول پر انہیں پرامید مثبت روئیے کے ساتھ آگے بڑھانا ہی والدین اور دیگر معاشرے کے لوگوں کے اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔ لاکھ مصائب اور مشکلات صحیح لیکن جو لوگ،جو نوجوان اپنے ارادے مستحکم رکھتے ہیں اپنی تعلیمی قابلیت کو مسلسل بڑھاتے ہیں،وقت اور ذمہ داری کا احساس کرتے ہیں کامیابی ضرور ان کے قدم چومتی ہے۔ اس دنیا میں ہر فرد کا اس کے اپنے دائرے میں امتحان ہوتا ہے بس ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ اسے کس طرح صبر برداشت اور ہوشیاری، چا لاکی سے انہیں ہر وقت بہترین طریقے سے دیا جائے کیونکہ انہیں اپنے والدین و معاشرے کی قدر ہوتی ہے لیکن جو ایسا نہیں کرتے وہ اتنی اچھی کامیابی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ وہ مشکلات کو چیلنج سمجھ کر حل کر جاتے ہیں،سستی کاہلی نہیں دکھاتے کیونکہ اگر گھر کی تعلیم و تربیت اس نہج پر ہو کہ رب کی جواب دہی کے احساس سے ان کے ایمان میں پختگی ہو اور ان کا اللہ پر بھروسہ بڑھتا ہی رہے تو سمجھیں یہی نوجوان ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں،انہیں اپنا مستقبل سمجھیں انہیں تہذیب تمیز خود رول ماڈل بن کر سیکھائیں۔اغیار کی نقالی اور دنیا کی چمک سے دور رکھیں۔ محنت کی عظمت،صبر اور شکر گزاری کا احساس دیتے ہوئے محبت اور پیار سے تربیت دیں۔ اپنا قیمتی وقت ان کے ساتھ اچھے روئیے سے گزاریں تو یقین مانیں یہی نوجوان ہماری دنیا اور آخرت میں ہمارا کل سرمایہ ہیں۔ ہماری نسلوں کے معمار اور وطن کے مضبوط ستون ہیں یہ انہیں مشکلات سے لڑنے کا عادی بنائیں وہ سمجھ جائیں گے کہ:
چھوڑ دے دشوار رستہ مشکلیں آسان کر
جس طرف دریا چڑھاہو اس طرف سے پار کر
بچوں کو سب کچھ ان کی خواہش سے پہلے ہی دے دے کر انہیں پیمپر کر کے اپنا عادی نہ بنائیں بلکہ خود اعتماد، باوقار،محنتی، جفاکش، چاق و چوبند بنائیں کیونکہ واقعی زندگی ایسی نہیں کہ میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو بلکہ یوں وہ سوچیں کہ:۔
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
محنت کی عظمت برکت الٰہی ہے دنیا میں ہمیشہ ایڈجسٹ ہونا چاہیے اکڑو نہیں بلکہ عاجزی سے رہو اور ایسے بریجز بناؤ جس پر ہر ایک کا چلنا آسان ہو کیونکہ اس مختصر زندگی میں کام ایسے ہونے چاہئیں جو پائیدار ہوں، امر ہوں اور قابل تعریف ہی نہیں قابل تقلید بھی ہوں،پیسے کمانا بڑی بات نہیں، انسانیت اپنانا بڑی بات ہے! ماں باپ کا سینہ چوڑا ہو جاتا ہے جو ان اولاد کو دیکھ کر اس کی وجہ طاقت نہیں بلکہ ایک احساس ذمہ داری و تحفظ معاشرہ ہوتا ہے! جب ہی نوجوان ہمارا سرمایہ کہلاتے ہیں۔ اللہ اس سرمایہ میں اضافہ فرمائے اور حفظ و امان میں رکھے اور انہیں اس کا حق ادا کرنے کی توفیق دے۔آمین
تبصرہ لکھیے