ہوم << افسانہ اباجی-ڈاکٹر میمونہ حمزہ

افسانہ اباجی-ڈاکٹر میمونہ حمزہ

سنو بیگم! کھانا اچھا سا تیار کرنا، آج شام میرا بہت پیارا دوست آ رہا ہے گھر۔ملک صاحب نے سائیکل کھڑی کر کے سامان کے شاپر اتارتے ہوئے کہا۔
۔ کون سا دوست؟ انہوں نے شوہر کے چہرے کی چمک سے اندازہ لگانے کی کوشش کی۔
۔ ہے ایک ۔۔ نام بتانا ضروری نہیں۔ بس کھانا زبردست ہونا چاہیے۔ انہوں نے کلائی پر باندھی گھڑی پر ایک نظر ڈالی اور اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔
شام کو باورچی خانے سے اٹھنے والی خوشبوئیں صحن ہی نہیں محلے کے کئی گھروں کے مکینوں کی اشتہا میں اضافہ کر رہی تھیں۔ خورشید بیگم کا پسینہ چوٹی سے ایڑی تک بہہ رہا تھا، مگر انہیں کیا پرواہ۔ بس ایک دھن سوار تھی کہ اپنے شوہر کے مان پر پورا اترنا ہے۔شام کو گلی کی نکڑ سے رکشے کے اندر داخل ہونے کی آواز کے ساتھ ہی ملک صاحب باہر بھاگے، رکشہ بیرونی دروازے پر پہنچنے سے پہلے ہی میزبان نہ صرف دروازہ کھول چکے تھے بلکہ بازو پھیلائے کھڑے تھے۔
شناسا آوازوں اور قہقہوں سے انہوں نے صحن میں جھانکا، دو چمکتے چہرے اور ان کے ارد گرد سب بچے کھڑے تھے۔
۔حماد بھائی جان آپ؟ اشتیاق نے آواز لگائی۔
۔ ہائے میرا سوہنا۔۔۔ خورشید بیگم نے بھاگ کر پلوٹھی کے بیٹے کا ماتھا چوما۔شکوے کے انداز میں میاں کو گھورا جس میں غصّے کی جگہ مسکراہٹ دبی تھی۔
آپ تو کہہ رہے تھے میرا پیارا دوست، بڑے دنوں بعد ملنے آ رہا ہے! انہوں نے صبح کا مکالمہ یاد دلایا۔
۔ ارے کوئی شک ہے۔۔ پیارا نہیں ہے یا دوست نہیں ہے۔ پورے دو مہینے بعد شکل دیکھ رہا ہوں اس کی۔ انہوں نے بیٹے کی طرف دیکھا۔
خوش گپیوں کے درمیان کھانا کھایا گیا۔ اس سرپرائز کو سب نے ہی انجوائے کیا تھا مگر خورشید بیگم کی خوشی کی کیا ٹھکانا تھا۔
ملک صاحب دوست نواز تھے مگر اس دن کے بعد ہر دعوت پر انہیں یہی گمان گزرتا کہ شاید آج پھر حماد ہی نے آنا ہو۔ حماد بھی چھٹیاں ہوتے ہی گھر کی راہ لیتا، پہلے خط میں آمد کی اطلاع دیا کرتا تھا، اور پھر جب گھر میں ٹیلیفون لگ گیا تو وہ امی جی کو بھی ضرور ہی بتا دیتا۔
خورشید بیگم کو اندازہ ہی نہ تھا کہ بچے جب گھر سے باہر قدم نکالتے ہیں تو باہر ہی کے ہو جاتے ہیں۔ وہ حماد کی تعلیم مکمل ہونے کے انتظار میں تھیں کہ اشتیاق، عمران اور پھر اعجاز بھی دوسرے شہر کی یونیورسٹیز میں پہنچ گئے۔اور جب حماد تعلیم مکمل کر کے لوٹا تو بڑی بیٹی شبنم کی رخصتی کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ حماد نے بڑے بیٹے کا کردار بھرپور طریقے سے ادا کیا۔ساتھ ہی وہ مختلف جگہ ملازمت کے لئے بھی ہاتھ پاؤں مار رہا تھا، اسے پہلی ملازمت ہی شہر سے باہر ملی۔اس نے اماں ابا کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھا۔ جنھوں نے بادلِ نخواستہ اسے اجازت دے دی۔ کراچی سے لاہور تک کا سفر اسے ایک نئی زندگی کا احساس دلا رہا تھا۔ پہلی تنخواہ ملنے پر اس نے تنخواہ کا بڑا حصّہ ابا کے نام منی آرڈر بھجوا دیا۔ ہر دوسرے مہینے وہ گھر بھی جاتا۔ اور اپنی جیب کے مطابق سب کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ بھی لیتا۔ تینوں بہنیں اور بھائی اس کے گرد جمع ہو جاتے اور چھٹی کے چند روز پر لگا کر اڑ جاتے۔ وہ سب سے الگ ہوتے ہوئے ہمیشہ اداس ہو جاتا، امی جی کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور ابّا جی اتنے بہادر ہو کر بھی اسے رخصت کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتے۔
اس مرتبہ وہ گھر آیا تو سب کے چہروں پر الگ سی مسکان تھی۔ گڑیا نے بتایا کہ اب تو گھر میں بھابھی لانے کی بات ہو رہی ہے۔ ابّا جی نے برادری میں ہی کہیں بات بھی چلائی تھی۔ اس کے آتے ہی نسبت بھی طے کر دی گئی۔ شادی اگلے برس ہونا قرار پائی۔ اس مرتبہ وہ لاہور آیا تو اپنے اندر عجب تازگی محسوس کر رہا تھا۔ اپنا گھر بنانے کے لیے تنکا تنکا اکٹھا کر رہا تھا۔ اس نے ابّا جی کو رقم بھیجنے میں تو کوئی کمی نہ کی، ہاں مزید کمائی کے کچھ اور حلال ذرائع اختیار کر لیے تھے۔ اسے گورنمنٹ کی جانب سے ایک اپارٹمنٹ بھی مل گیا تھا۔
اگلے برس جب رابعہ اس کی دلہن بنی تو وہ چھٹی ختم ہوتے ہی اسے اپنے ساتھ لاہور لے آیا۔ رابعہ بڑی کفایت شعار اور قناعت پسند تھی، اور سلیقہ شعار بھی۔ جس نے اس چھوٹے سے گھر کو جنت بنا دیا تھا۔اگرچہ وہ بھی فضول خرچ نہ تھا مگر رابعہ کی دور اندیشی کا کیا کہنا۔ اس نے گھر میں سبزیاں لگانے کا آئیڈیا دیا، جس سے صحت بخش غذا بھی ملنے لگی اور بچت بھی۔ اسی طرح چند مرغیاں ان کی پولٹری کی ضروریات کی بھی کفیل بن گئیں۔
وہ جب بھی کراچی جاتے، رابعہ امی جی اور بہنوں کے ساتھ گھل مل جاتی۔ کچن سے خوب خوشبوئیں اٹھتیں۔ وہ چھوٹی نندوں کو نئی نئی تراکیب سکھاتی، کبھی سینا پرونا، کبھی نٹنگ۔امّی جی اپنے دل کی باتیں اسی سے کرتیں۔ اور اب تو پوتے پوتیوں نے گھر کی رونق بڑھا د…
وہ جب بھی کراچی جاتے، رابعہ امی جی اور بہنوں کے ساتھ گھل مل جاتی۔ کچن سے خوب خوشبوئیں اٹھتیں۔ وہ چھوٹی نندوں کو نئی نئی تراکیب سکھاتی، کبھی سینا پرونا، کبھی نٹنگ۔امّی جی اپنے دل کی باتیں اسی سے کرتیں۔ اور اب تو پوتے پوتیوں نے گھر کی رونق بڑھا دی تھی۔ اماں اباکھنچے ہوئے لاہور آتے، اگرچہ چند دن سے زیادہ ٹھہر نہ پاتے۔
ایک دہائی بھی نہ گزری تھی کہ سب بہن بھائیوں کی شادیاں ہو گئیں۔گھر میں تین بہوئیں اور آگئیں، گویا تین گھرانوں کی روایات و عادات و اطوار بھی دبے پاؤں داخل ہو گئیں۔ رابعہ جیسی کم گو اور فرمانبردار بہو ایک ہی تھی۔ امی جی ہر بہو میں رابعہ ہی کو تلاش کرتی تھیں، وہی ان کی بہترین بہو تھی، مگر نادیہ، سمیرا اور فرحانہ مل کر بھی رابعہ نہ بن پائی تھیں۔ گھر کے نظام کو گھڑی کی سوئیوں کے ساتھ چلانے والی امی جی بڑھاپے کی دہلیز پر تھیں، اور کاموں کی تاخیر، اور بے جا کاہلی پر ان کے ماتھے پر بل آ جاتے، کبھی وہ تینوں کو بٹھا کر سمجھاتیں، جو ان کی بات سن تو لیتیں مگر اس کانتیجہ بڑبڑاہٹ کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور جب رابعہ بچوں کے ہمراہ کراچی آتی تو امی جی بچھ بچھ جاتیں، اور رابعہ ! وہ تو امی جی کی خدمت کو اپنا اعزاز سمجھتی۔ امی جی کے کپڑوں اور بستر سے لے کر ہر معاملے میں رابعہ کا ہنر اور سلیقہ بولنے لگتا۔ اباجی کے استری شدہ کپڑے الماری میں ٹنگے رہتے۔ کھانے کے وقت رابعہ انہیں سب سے پہلے کھانا پیش کرتی، ان کے آرام کے وقت بچوں کو ان سے دور مشغول رکھتی۔ امی جی اور ابا جی کی آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی، لیکن باقی بہؤوں کے ماتھے پر بل آ جاتے، وہ زیر لب اور کبھی رابعہ کو سنانے کو تبصرے کرتیں:
۔ نمبر بن رہے ہیں۔
۔ خوشامدن بھابھی ۔۔
اور کبھی بڑی سفاکی سے یہ بھی سننے کو ملتا:
۔ حماد بھائی کے لیے انگوٹھا تو نہیں لگوا رہی۔
ایک روز تو فرحانہ نے رابعہ کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے:
۔ بھابھی پلیز، اتنی عادتیں بگاڑ جاتی ہے آپ ان دونوں کی، کہ سارا سال ہمیں باتیں سننی پڑتی ہیں۔ ایک مہینہ خوش کرنا آسان ہے۔ سارا سال خدمت کرنی پڑے تو پتہ لگے آپ کو۔ اتنا آسان نہیں ہے ان کو خوش کرنا۔
رابعہ نے سرد آہ بھری اور فرحانہ کی تلخ باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا۔ اتنی نیچ سوچ کا تو وہ سوچ بھی نہ سکتی تھی۔
وقت گزرنے کے ساتھ گھر کا ماحول کشیدہ ہو رہا تھا۔ اب تو امی جی اور ابا جی کی ناقدری سے بڑھ کر بہؤوئیں اور نتیجے کے طور پر بھائی بھی باہم دست و گریباں ہو رہے تھے۔ہر روز کسی چھوٹی سی بات پر گھر معرکہ کار زار بن جاتا۔اشتیاق اپنی بیوی بچے لے کر امریکہ آباد ہو گیا اور اعجاز کینڈا۔ البتہ عمران نے کراچی ہی میں اپنا کاروبار سیٹ کر لیا۔ اباجی ریٹارمنٹ کے بعد بھی کنٹریکٹ پر ملازمت کر رہے تھے۔گھر سے بیٹیاں رخصت ہو گئیں تو امی جی نے ابا جی کی زیادہ تر ذمہ داریاں خود ہی سنبھال لی تھیں۔ مگر کب تک؟ امی جی کو چند دن بخار ہوا اور وہ خاموشی سے اگلے گھر سدھار گئیں۔
نائن الیون کے حادثے نے پوری دنیا کو ہی ہلا کر رکھ دیا تھا، خاص طور پر امریکہ اور یورپ میں رہنے والے مسلمان! اشتیاق اور اعجاز تو ابھی قدموں پر کھڑا ہونے کے مراحل میں تھے مگر انہیں ناگفتہ بہ حالات میں واپس پاکستان آنا پڑا۔ اپنی جمع پونجی کو انہوں نے اپنے اپنے کاروبار میں لگایا، اور دوبارہ اسی گھر میں رہنے لگے۔ گھر کی دیواریں کچھ اور سکڑ گئی تھیں یا انہیں ہی تنگی کا احساس ہو رہا تھا۔ سب کے چولھے جلد ہی الگ ہو گئے، مگر ابا جی کس کے ساتھ رہیں گے؟ انھوں نے بڑی آہستگی سے ابا کی تین وقت کے کھانے کو تین بھائیوں میں تقسیم کر دیا اور یوں زوجہ عمران نے سکھ کا سانس لیا۔ ابا جی بھی اس انتظام پر مطمئن دکھائی دیے۔

آج کل تینوں صاحبزادے ایک ہی ایجنڈے پر کام کر رہے تھے، اباجی کو اپنی محبتوں کا احساس دلانا اور حماد بھائی کے خلاف بھڑکانا۔ جو ساری عمر ہی آزادی سے الگ رہے۔ اور بس چند دن ہی خدمت کر کے خوش کرتے رہے۔ بوجھ تو ہم نے اٹھایا ہے سارا، عمران اپنی بیوی کی جانب اشارہ کر کے کہتا۔ اور پھر تینوں نے اباجی کو نجانے کیسے شیشے میں اتارا کہ اباجی نہ صرف اس کشادہ اور بڑے آبائی گھر کو بیچنے پر آمادہ ہو گئے بلکہ انہوں نے حماد کو فون کر کے بتا دیا :
۔ میں مکان بیچ کر اس کی رقم اپنی مرضی سے تینوں بیٹوں میں تقسیم کر رہا ہوں۔ تم نے ساری زندگی مجھے دیا ہی کیا ہے؟ نہ تمہیں کچھ دوں گا نہ بیٹیوں کو۔
حماد خاموش رہے۔ بس اتنا کہا:
۔ بیٹیوں کو ان کے حق سے محروم نہ کریں، اور ۔۔
اور کیا؟ وہ جاننا چاہتے تھے اس کی کیفیت۔
۔ اور مجھے اپنی دعاؤں سے محروم نہ کریں۔ مجھے خود احساس ہے کہ میں آپ کا حق ادا نہیں کر سکا۔
اباجی مکان بک جانے کے بعد تو تین گھروں کا فٹ بال بن گئے تھے۔ ایک ہفتے ایک بیٹے کے ہاں تو دوسرے ہفتے دوسرے کے ہاں۔ تیسرے ہفتے تیسرے کے ہاں۔ مگر حقیقت میں ان کا کوئی گھر بھی نہ تھا۔ کسی گھر میں سٹور روم میں ان کا پلنگ تھا اور کہیں لاؤنج کے کونے میں۔ کہیں بیسمنٹ میں، جہاں کی سیلن سے ان کا دم گھٹتا تھا۔ حماد کا کئی مرتبہ فون آ چکا تھا مگر وہ دل میں اتنے شرمندہ تھے کہ فون اٹینڈ نہ کیا۔
ہر گھر میں ہی ان کی حیثیت ایک فالتو شے کی تھی یا ناگوار بوجھ کی۔ وہ کھانا لگنے کا انتظار کرتے تو کئی مرتبہ گھر والے انہیں بلانا ہی بھول جاتے۔ گھر میں مہمان آتے تو ان کا کھانا کمرے ہی میں بھیج دیا جاتا۔ تاکہ وہ ان کی گپ بازی میں مخل نہ ہوں۔ اب تو وہ کئی مرتبہ مہمانوں سے ملنے خود ہی پہنچ جاتے، تو گھر والوں کی ناگواری کو بھانپ جاتے۔
اس روز حماد خود ہی آیا تھا یا بھائیوں نے اسے بلوایا تھا۔ البتہ زور دار آوازیں سن کر ہی وہ ڈرائینگ روم کی جانب آ رہے تھے، جب وہ ٹھٹھک کر رک گئے:
۔ ابا جی کو رکھنا آسان نہیں ہے بھائی، زندگی عذاب کر دی ہے ہماری۔
۔ ابا جی کا تو پیٹ ہی نہیں بھرتا، جب دیکھو فریج میں جھانکا تانکی۔ بچوں کے لیے کچھ رکھو تو وہ بھی نہیں چھوڑتے۔
۔ اپنا حلیہ بھی نہیں دیکھتے، میلے کچیلے مہمانوں کے سامنے آکر بے عزتی کرواتے ہیں ہماری۔
کچھ مزید سننے کی تاب نہیں تھی ان میں۔ وہ اسی بیس منٹ میں آ کر لیٹ گئے۔آنسؤوں سے چہرہ بھیگا ہوا تھا جب حماد نے بڑی نرمی سے آکر انہیں اٹھایا۔ کمرے سے ان کا سامان اکٹھا کیا اور گاڑی میں بٹھا لیا۔سارا رستہ وہ بجھے بجھے رہے۔قینچی کی طرح چلتی زبانوں نے ان کا سینہ زخمی کر دیا تھا۔
رابعہ اور بچے ابا جی کو دیکھ کر کھل اٹھے۔ جلدی جلدی ان کا کمرہ تیار کیا، اور ہر ضروری چیز ان کے قریب رکھ دی۔ چند دن میں ہی ابا جی کا نہ صرف حلیہ درست ہو گیا تھا بلکہ صحت بھی بہت اچھی ہو گئی تھی۔ رابعہ بیگم اور حماد ہر وقت ان کے آگے پیچھے ہوتے اور بچے بھی۔ مگر ابا جی خاموشی سے بیٹھے رہتے، یا پھر خود کلامی کرتے رہتے۔ ان کی تینوں بیٹیاں ان سے ملنے آئی تھیں، اور شبنم نے ہی سب کو یہ کہہ کر چونکا دیا کہ ابا جی اب ہمیں پہچانتے نہیں ہیں۔ کیا واقعی؟ اگلے چند روز میڈیکل چیک اپس میں گزرے اور نتیجہ یہی نکلا کہ ابا جی الزائمر کی بیماری کا شکار ہو رہے ہیں۔جس کا ابھی تک شافی علاج دریافت نہیں ہوا۔
نجانے یہ اباجی کی خوش قسمتی تھی یا کچھ اور۔۔اباجی ہولے ہولے بدل رہے تھے۔ وہ روز صبح سویرے تیار ہوتے اور آفس جانے کی تیاری میں بڑبڑاتے:
۔ میرے بغیر کچھ بھی نہیں ہونا وہاں، سب نکمے بیٹھے رہیں گے۔
کبھی وہ چابیوں کا گچھا ڈھونڈتے،
۔ آج تو مجھے جلدی پہنچنا ہے، تنخواہیں دینی ہیں سب کی۔
رابعہ کو وہ باجی کہتے اور حماد کو بھائی جان ۔۔اب اباجی کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہر وقت موجود رہتا۔ حماد انکے ماتھے پر بوسہ دے کر کہتا، اباجی، میں بہت خوش ہوں آپ سے۔ آپ نے جو کچھ انہیں دیا وہ تو حرص اور ہوس کو بڑھانے والا مال تھا، اور جو میرا نصیب بنا، وہ میرا باپ ہے! آپ کے ساتھ گزرتا ایک ایک لمحہ محبت کی ایک نئی تاریخ رقم کر رہا ہے!
محبت اور الفت کی تاریخ، بے غرضی اور اخلاص میں گندھی ہوئی!!
آپ کے سب بیٹے بھی آپ سے منہ پھیر لیں تو بھی مجھے محبت کے اس دیے کو روشن رکھنا ہے!!! آپ کی خاطر ، اپنی خاطر اور آنے والے کل کی خاطر!!!

Comments

Click here to post a comment