ہوم << گر تم نہ اٹھے-سعد حیدر

گر تم نہ اٹھے-سعد حیدر

اپنے مختصر سے کمرے میں وہ بڑی بے چینی سے ٹہل رہا تھا۔ ہر مرتبہ ٹہلتے ہوئے وہ اپنے اسٹڈی ٹیبل کے پاس کھڑا ہوجاتا۔ٹیبل پر پڑے پیجر (pager)کو اٹھاتا اور اسے کسی نئے پیغام سے خالی پاکر مایوسی کی سی کیفیت کے ساتھ واپس ٹیبل پر رکھ دیتا۔ اور پھر سے کمرے میں ٹہلنا شروع ہوجاتا۔اس مرتبہ بھی حسبِ معمول وہ مایوسی کے عالم میں پیجرواپس ٹیبل پر رکھنے لگا تو یکدم 'بِب' کی آواز آئی اور پیجر پر نئے پیغام کی اطلاع دیتی سبز بتی جلنے بجھنے لگی۔ اس نے فوراً پیجر اوپر اٹھا کر نظروں کے قریب کیا اور پیغام پڑھنے کے لیے بٹن دبایا تو اس کی آنکھوں کے سامنےوہ پیغام ابھر آیا جس کا اسے کتنی مدت سے انتظار تھا۔
“Operation olive leaves launched. Go ahead at once.”
اس کا چہرہ جوش و خروش کی شدت سے گلنار ہوگیا ۔ اس نے اسٹڈی ٹیبل کے ایک جانب رکھے بڑے ہیلمٹ کو اٹھایا اور دوڑتا ہوا باہر ائر بیس کے اس احاطے میں پہنچ گیا جہاں اس کا جدید جنگی طیارہ اس کا منتظر تھا۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
ربیّ یزاک میر ابراہام کے ہاں اس دن جشن کا سماں تھا جب اس کے ہاں بڑی دعاؤں کے بعد بالآخر شادی کے پندرہ سال بعد ایک چاند سا بیٹا پیدا ہوا۔ تل ابیب کے نواح میں موجود اس قصبے نے اس سے پہلے کسی بچے کی پیدائش پر اتنی بڑی تقریب نہیں دیکھی تھی۔ تقریب میں اسرائیل کے مذہبی مدارس اور جامعات کے فاضلان کی بڑی تعداد موجود تھی۔ سبت کے دن بچے کی پیدائش کو بڑی خوش قسمتی گردانا جارہا تھا۔ تل ابیب کے صیہون مدرسے کے سب سے بڑے یہودی عالم ربی ڈینئل کوہان نے اسٹیج پر کھڑے ہو کر بچے کو اٹھایا۔ اس پر دعائیہ کلمات پڑھ کر پھونکے اور غور سے اس ننھے منھے گلابی چہرے والے صحت مند بچے کو دیکھنے لگا۔ پھر مڑ کر ربی یزاک میرابراہام کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے پُر مسرت لہجے میں کہا:
” ربی یزاک! میں تمہارے بیٹے کی پیشانی کو بڑا روشن پارہا ہوں۔ اس کا بہت خیال رکھنا ۔“
ربی ڈینئل کوہان نے اس معصوم نوزائیدہ بچے کی پیشانی کو چوما اور ربی یزاک کی گود میں بچہ تھماتے ہوئے اونچی آواز میں سب کو مخاطب کیا۔
”میں اس کا نام 'موشے ابراہام' رکھتا ہوں۔ “
پوری محفل میں مبارک سلامت کی آواز یں گونجنے لگیں۔
موشے ابراہام اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ لہٰذا اس کے والدین اس کے لاڈ نخرے اٹھاتے نہ تھکتے تھے۔ مگر عجیب بات یہ تھی کہ دیگر بچوں کے برعکس موشے ابراہام میں شروع ہی سے ایک متانت اور دھیما پن تھا۔ اس کے والدین کے بے جا لاڈ پیار نے اسے بالکل بھی نہ بگاڑا تھا۔ بلکہ جیسے جیسے وہ بڑا ہوتا جارہا تھا ، اس کا منفرد ہونا سب کے سامنے روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتا جارہا تھا۔
اس کے محلے دار یہودی لڑکوں کی عادت تھی کہ پڑوسی مسلمان فلسطینی لڑکوں کے سامنے تو دوستی کا اظہار کرتے اور پیٹھ پیچھے آئے روز انہیں تنگ کرنے کے مختلف منصوبے بُنتے رہتے۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ اس کے دوستوں کے رات کو مسجد سے واپس گھر لوٹتے کسی مسلمان لڑکے کو تنہا پاکر اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خوب زدو کوب کیا اور بھاگ نکلے۔ پھر اگلے دن اسی لڑکے کے گھر عیادت کرنے کے لیے جمع ہوگئے۔ مگر موشے ابراہام نے کبھی اپنے دوستوں کے ساتھ ان سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا۔ بلکہ کئی مرتبہ ایسے بھی ہوا کہ اپنے دوستوں سے کسی مسلمان لڑکے کو نشانہ بنانے کا منصوبہ قبل از وقت سن کر پہلے ہی اس مسلم لڑکے کو متنبہ کردیا اور وہ مار کھانے سے بچ گیا۔ سکہ بند کٹر یہودی ربی کے گھر پیدا ہونے اور سخت گیر یہودی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود وہ اپنے دل و دماغ میں کلبلاتے ، سر اٹھاتے بہت سے سوالات کو دبا نہیں سکا تھا:ہم مسلمانوں سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ ہمارے والدین ہمیں اذان کے وقت کانوں میں انگلیاں ٹھونسنے اور اذان نہ سننے کا حکم سختی سے کیوں دیتے ہیں؟ پوری دنیا ہم سے کیوں نفرت کرتی ہے؟ اتنا امیر ہونے کے باوجود پوری دنیا میں ہم یہودی کیوں ہروقت خوف اور عدم تحفظ کا شکار رہتے ہیں؟
انہی ایام میں ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو اسے جب بھی کبھی بھولے سے یاد آجاتا تو اسے اپنے جسم کے بال کھڑے ہوئے محسوس ہوتے اور ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈ اترجاتی۔ہوا کچھ یوں تھا کہ محلے میں ایک مسلمان لڑکا اس کا دوست بن گیا۔ اس کا نام ہند عبداللہ تھا۔ ایک دن وہ اس سے ملنے اس کے گھر گیا تو اس وقت ہند تلاوت کررہا تھا۔ جیسے ہی موشے ابراہام کو اس بات کا ادراک ہوا کہ ہند قرآن کی تلاوت کررہا ہے اس نے فوراً بے اختیار اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں۔ یہ دیکھ کر ہند عبداللہ کے لبوں پر دھیمی مگر ایک زخمی مسکراہٹ در آئی۔ اس نے نہایت دھیمے اور میٹھے لہجےمیں موشے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”موشے !یہ اللہ کا کلام ہے۔۔۔ذرا سنو تو۔۔۔یہ کتنا خوبصورت، کتنا میٹھا ہے۔“
یہ کہہ کر اس نے دوبارہ اپنا مصحف کھولا اور انتہائی شیریں آواز میں سورۂ ابراہیم کی تلاوت کرنے لگا۔ موشے ابراہام جو دروازے پر ہی کھڑا ہنوز انگلیاں کانوں میں ٹھونسے ہوئے تھا جھجھکتا ہواآگے بڑھا ۔ اس نے قالین پر قدم رکھنے سے پہلے اپنے جوتے اتارے اور مصلے پر بیٹھے ہند کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ ہند بے حد خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کررہا تھا۔ موشے کو یہ تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ تلاوت کی جانے والی آیات کا معنی اور مفہوم کیا ہے مگر اسے اپنے دل کی حالت بدلتی ہوئی محسوس ہورہی تھی۔ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے دل کی قبر پر مدتوں سے پڑی بھاری بھرکم سلیں یکے بعد دیگرے اٹھتی جارہی ہیں اور اب کوئی لمحہ گزرتا ہے کہ دل ِ مردہ انگڑائی لے کر دوبارہ جی اٹھتا ہے۔
اسے تلاوت سنتے ہوئے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے آسمان پر ایک پُر نور، روشن بادل عین اس کے سر کے اوپر معلق ہو اور اس سے سکون و اطمینان بخشتی بارش کی پھوار سیدھی اس کے دل پر نازل ہورہی ہو۔ بچپن سے لے کر اب تک وہ ایسے سکون سے بالکل ناآشنا اور قطعاً محروم تھا۔ اس کے ربی اساتذہ کے دروس اور مقدس کتاب تورات کے دروس و تلاوت نے اس کے بنجر اور مردہ دل کو کبھی سیراب نہ کیا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے اس کی آنکھیں بند ہورہی ہوں اور وہ پرسکون نیند کی آغوش میں جارہا ہو۔۔۔اور پھر اسے معلوم نہ ہوسکا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔
سوتے ہوئے اس نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اور ہند عبداللہ بڑے خوش و خرم ایک بڑے سے زیتون کے باغ میں پکڑم پکڑائی کھیل رہے ہیں۔ ہند اس کے آگے آگے بھاگ رہا ہے اور ساتھ ساتھ تلاوت بھی کیے جارہا ہے۔ اس کی تلاوت کی آوا ز پورے باغ میں گونج رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے سب زیتون کے درخت، درختوں کے پتے اور درختوں پر بیٹھے پرندے ، سبھی دم سادھے انتہائی انہماک کے ساتھ اس کی تلاوت سن رہے ہیں۔ موشے ہند کو پکڑنے کی بڑی کوشش کررہا ہے مگر ہند اس کے ہاتھ میں ہی نہیں آکر دے رہا۔ یہاں تک کہ ہند دوڑتا دوڑتا اسی وسیع و عریض باغ میں کھوجاتا ہے۔
اب وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہے۔ موشے ابراہام کا دل انجانے اندیشوں کا شکار ہو کر تیز دھڑکنے لگتا ہے ۔ و ہ ہند! ہند ! پکارتے ہوئے اسے ڈھونڈ رہا ہے۔ دوڑتے دوڑتے وہ باغ کے کنارے پہنچتا ہے تو ایک عجیب منظر اس کے سامنے کھلتا ہے۔ اس کا باپ بندوق ہاتھ میں لیے ہند کا نشانہ باندھے ہوئے ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہند کے چہرے پر خوف کے ذرا آثار نہیں اور وہ بدستور تلاوت میں مشغول ہے۔ اس کا باپ غضبناک ہو کر کہتا ہے: تمہاری یہ جرأت کہ میرے بیٹے کو اپنا قرآن سناؤ۔ گولی ہی تمہارا علاج ہے۔ جاؤ جہنم میں ۔۔جاؤ ۔جاؤ۔۔جاؤ۔۔
اور پھر وہ بندوق کی لبلبی دبا دیتا ہے۔ ایک دھماکے کی گونج اٹھتی ہے اور موشے کی چیخیں اس کے حلق ہی میں پھنس جاتی ہیں۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ ہند کا مردہ جسم زمین پر پڑا ہے۔ وہ روتے روتے اس کے قریب آکھڑا ہوتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے اس کے دوست کے چہرے پر ایک انتہائی دلفریب اور الوہی مسکواہٹ سجی ہے اور ایک مسحور کن خوشبو اس کے ماتھے سے ابلتے گرم گرم سرخ لہو سے آرہی ہے۔ اس کا باپ تمسخر اڑانے کے انداز میں قہقہہ لگاتا ہے اور پھر جیب سے ایک تیز دھاری خنجر نکالتا ہے اور موشے ابراہام کی التجاؤں کے باوجود ہند کا سر تن سے جدا کردیتا ہے۔ اس کے بعد اس کے محلے کے ڈھیر سارے یہودی کہیں سے نمودار ہوتے ہیں اور سارے زیتون کے باغ کو آگ لگادیتے ہیں۔
ایک جھٹکے سے موشے کی آنکھ کھلی تو اس نے دیکھا کہ اس کا دوست مصلے پر بیٹھا اس کی جانب متفکر چہرے کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔ موشے پسینے میں شرابور تھا ۔
”کوئی ڈراؤنا خواب دیکھ لیا ہے کیا؟“ہند نے اس کا ہاتھ تھام کر اس سے پوچھا ۔
موشے کی آنکھوں کے سامنے خواب کا سارا منظر آگیا اور وہ بے اختیار ہند سے لپٹ کر رونے لگا۔
”خوابوں سے اتنا پریشان نہیں ہوتے۔۔خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔“ ہند نے اسے تسلی دی اور پھر اسے اس کے گھر تک چھوڑ آیا۔
سورج غروب ہونے کو تھا اور رات کی سیاہ دھاریاں رفتہ رفتہ آسمان کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھیں۔ کسے معلوم تھا کہ آج کی رات اس قصبے کے مسلمانوں کے لیے کس قدر طویل ثابت ہونے والی ہے۔ رات کے پچھلے پہر پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق مسلمانوں کے گھروں پر اسرائیلی فوج نے مقامی یہودی آبادی کی مدد سے ریڈ کیا۔ تمام مردوں اور لڑکوں کو ایک قطار میں کھڑا کرکے مار ڈالا اور عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کو بےدردی سے زدوکوب کرنے کے بعد ٹرکوں میں ٹھونس کر بے سروسامانی کے عالم میں غزہ کی جانب بھیج دیا۔ اگلی صبح موشے کو لاشوں کے درمیان اپنے دوست ہند کی لاش تلاش کرنے میں دیر نہیں لگی ۔عجیب بات یہ تھی کہ اس کے ماتھے پر وہیں گولی کا نشان تھا جہاں اس نے خواب میں دیکھا تھا۔ اور اس سے بھی عجیب تر بات یہ تھی کہ اس کی لاش سے ایسی مسحور کن خوشبو نے فضا کو معطر کر رکھا تھا جیسی اس نے خواب میں سونگھی تھی۔
اس دلخراش اور خونچکاں واقعے نے اس کے دل کو زخمو ں سے بھر دیا۔ کچھ عرصہ تو موشے ابراہام بالکل چپ چپ رہا ۔بیٹھے بیٹھے یکدم رونے لگ جاتا ۔کبھی اسے محسوس ہوتا کہ جیسے اسے کہیں دور سے ہند کی وہی دلنشین تلاوت کی آواز آرہی ہو اور وہ بے قرار ہوکر رہ جاتا ۔ مگر پھر رفتہ رفتہ زندگی کی رعنائیوں نے اسے اپنی بانہوں میں لے لیا اور موشے ابراہام پر جوانی اس حالت میں آئی کہ اب وہ واقعہ، وہ خواب ، اس کے دل و دماغ سے محو نہ بھی ہوا ہو تو دل کے کسی تہہ خانے میں مقفل ہو کر رہ گیا تھا کہ جس کی چابی بھی عرصہ دراز سے کھوگئی ہو اور اس کی طرف اترتے زینے بھی ایسے شکستہ حال ہوں کہ اترتے ہوئے دل میں ہول اٹھتے ہوں۔
خوبصورت سرخ و سفید چہرے ،مضبوط کسرتی جسم اور درمیانے قد کا حامل موشے ابراہام بلا شبہ اپنے رشتہ داروں، کلاس فیلوز اور دوست احباب کی محفلوں میں نگاہوں کا مرکز اور ہر دل عزیز تھا۔سود پر پرورش پاتے اس لالچ اور دھوکہ فریب کے خوگر یہودی معاشرے میں موشے ابراہام ایک الگ ہی دنیا کا باشندہ معلوم ہوتا تھا۔ وعدہ کر کے پورا کرنے والے، دھوکہ فریب اور جھوٹ اور منافقت سے کوسوں دور رہنے والے موشے ابراہام پر اس کے تمام جاننے والے آنکھیں بند کر کے اعتماد کرتے تھے۔تبھی اس کے والدین سمیت تقریباً تمام رشتہ داروں کی متفقہ رائے اور خواہش تھی کہ موشے ابراہام تجارت کا پیشہ اپنائے۔اس کی وجہ وہ یہ بتاتے تھے کہ اس کی دیانتداری اور امانت داری کی وجہ سے تجارتی حلقوں میں جلد اس پر اعتماد قائم ہو جائے گا ۔اور یوں اس کی تجارت دن دوگنی رات چگنی ترقی کرے گی۔اور پھر بالآخر گھوم پھر کر اس کی تجارت کا فائدہ اس کے والدین اور رشتہ داروں کو بھی پہنچے گا۔
مگر موشے ابراہام نے اپنے والدین اور رشتہ داروں کی امیدوں پر اس دن پانی پھیر دیا جب اس نے دو ٹوک ا لفاظ میں انہیں اپنے اس ارادے سے آگاہ کیا کہ وہ ائر فورس جوائن کر رہا ہے۔بن گوریان ،موشے دیان اور ایرئیل شیرون کے دیس میں ،جہاں ہر پندرہ سالہ لڑکے ،لڑکی کے لئے فوج میں تین سال سروس کرنا لازم ہے کہاں کس میں ہمت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو اسرائیلی افواج میں شامل ہونے سے روک سکیں۔ اور بہرحال یہ ایک اعزاز کی با ت تھی۔ والدین نے اسی خوشی میں ایک بڑی دعوت بھی کی۔تربیتی مراحل سے گزرنے کے بعد موشے ابراہام کچھ ہی عرصے میں GTپائلٹ بن گیا ۔
تربیتی مراحل کے دوران اسے دیگر کیڈٹس کے ہمراہ لیکچرز میں بار بار جس مقصد کو ہمیشہ مدنظر رکھنے پر زور دیا جاتا وہ تھا گریٹر اسرائیل (عظیم تر اسرائیل) کا قیام ۔
”اسرائیل کے بیٹو! تمھارے پیشِ نظر محض ان سرحدوں کی حفاظت کرنا نہیں ،بلکہ ان کو پھیلانا ہے ۔ہمیں اسرائیل کو عظیم تر بنانا ہے۔ تل ابیب سے ہمارا سفر شروع ہوا ہے،خیبر یعنی مدینہ اس کی منزل ہے۔ہمارا مسیح آنے والا ہے۔اور پھر ہم نے پوری دنیا پر حکومت کرنی ہے۔اور یہی اصل نیو ورلڈ آرڈر ہوگا۔“
اسی طرح کی ملتی جلتی باتیں اب ہر ماہ،دو ماہ بعد،کسی نہ کسی سیمینار میں اسے سننے کو ملتی رہتی تھیں۔اسے اب آہستہ آہستہ ان وجوہات کا ادراک ہو رہا تھا جن کی بنا پر لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مسلمانوں کو زبردستی نقل مکانی پر مجبور کیا گیا تھا ۔کبھی کبھی اسے لیکچر سنتے ہوئے اپنے ماضی کے دھندلائے ہوئے واقعات یاد آنا شروع ہو جاتے۔جب بھی کوئی ربی یا اسکالراسلام دشمنی اور مسلمانوں کے خلاف بغض و عداوت کے بیج ان نوجوان اسرائیلوں کے دلوں میں بونے لگتا تو موشے ابراہام کو اپنا بچپن کا دوست ہند یاد آجاتا۔وہ حیران ہوتا کہ اب اتنے سالوں بعد اس کے نہاں خانے کا یہ مقفل دروازہ کیسے کھل گیا۔
”لڑ کو!یہ غرقد کے درخت ہیں۔ان کی شکل وصورت اچھی طرح ذہن نشین کر لو۔“
ایک مرتبہ فیلڈ ٹرپ کے دوران خاص طور سے ساتھ آنے والے ایک ربی (یہودی عالم)نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ہائی وے کے دونوں اطراف میں ان درختوں کی قطار تاحد نگاہ جاتی نظر آرہی تھی۔
”ربی آئیزک!ہم کوئی زراعت کے شعبے سے تعلق رکھتے ہیں جو ہم اس درخت اور اس کی ہیئت یاد رکھیں ؟“
یعقوب گوریان نے اپنے مخصوص مضحکہ خیز لہجے میں ربی آئیزک کو یوں مخاطب کیا کہ ٹرپ میں آنے والے تمام لڑکوں کی بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی ۔ربی آئیزک کا چہرہ خفت سے سرخ ہو گیا۔مگر پھر جلد ہی اس نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔اسے معلوم تھا کہ اسرائیلی فورسز کے نوجوان ایسے ہی منہ پھٹ ہوتے ہیں۔اور اسے ان سے تعامل کرنے کا اچھا خاصہ تجربہ تھا۔
”بیٹا جی!کل جب تمہیں کوئی پتھر ،درخت اور کوئی چیز پناہ نہیں دے گی تب تمہیں ربی آئیزک یاد آئے گااور تم لوگ افسوس کرو گے کہ کاش اس وقت بات تمیز سے سن لیتے تو آج جان تو بچ جاتی“
ربی آئیزک نے جلے بھنے کڑاکے دار لہجے میں یہ بات کہی تو سن کر سب پر ایسے خاموشی طاری ہو گئی جیسے سانپ سونگھ گیا ہو ۔وہ قوم جس پر اللّٰہ کی طرف سے ذلت و مسکنت ہے اور اسے ہر دم عدم تحفظ کا احساس رہتا ہے اس کے نوجوان ایسی دل دہلا دینے والی بات پر پریشان نہ ہوتے تو کیا کرتے۔
”سر! سرپلیز !ہم معذرت کرتے ہیں۔۔۔ آپ پلیز اپنا لیکچر جاری رکھئیے۔۔۔۔“
یہ مسکین صورت دیان تھاجس سے اس کے ساتھی تقریباً ہر روز مزاحاً پوچھتے تھے کہ وہ ائر فورس میں کرنے کیا آیا ہے۔اسے تو اپنی ماما کے پاس رہنا چاہیے تھا جو روز اسے شام کے وقت کارن فلیکس کھلاتی تھیں ۔
ربی آئیزک نے اپنے ارد گرد جمع تمام نوجوانوں پر ایک فاتحانہ نظر ڈالی ،جیسے کہہ رہے ہوں ہاں بھئی! کسی اور کو کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ!! پھر سب کو اپنی طرف متوجہ پا کر کہنے لگے:
”پیارے بچو! آج میں آپ کو جو بات بتانے لگا ہوں وہ کوئی آپ کو نہیں بتائے گا ۔وجہ یہ ہے کہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی ۔بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے نبی( محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کی حدیث میں آیا ہے کہ قیامت سے پہلے ،دجال کی آمد کے بعد ،ایک بڑی جنگ میں مسلمان یہودیوں کو قتل کریں گے۔یہودی قتل سے بچنے کے لئے جس بھی پتھر یا درخت کے نیچے چھپیں گے وہ پتھر یا درخت مسلمان کو مخاطب کر کے کہے گا:اے مسلمان!اے اللہ کے بندے!میرے پیچھے یہودی ہے اسے قتل کردو،مگر غرقد کا درخت خاموش رہے گاکیونکہ وہ یہود میں سے ہے۔اب سمجھ میں آئی ہم کیوں اسرائیل بھر میں غرقد کے درخت لگا رہے ہیں؟؟؟!!
سب نوجوان ٹکٹکی باندھ کر حیرت سے ربی آئیزک کو تک رہے تھے اور ساتھ آنے والے سینئر ٹرینرز کے چہروں پر ناگواری کے آثار بآسانی دیکھے جا سکتے تھے۔اکثر نوجوان اس وقت عالمِ تصور میں اپنے آپ کو غرقد کے درخت کے پیچھے ،ہانپتے کانپتے، تھر تھراتے اور چھپتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ارد گرد مسلمان تلواریں ہاتھ میں سونتے پھر رہے تھے۔اور تلواریں خون آلود تھیں۔اور ان میں سےبعض سمجھدار لڑکوں کو اس سوچ نے پریشان کر رکھا تھاکہ جیسےہمیں معلوم ہے کہ غرقد کا درخت نہیں بولے گا ،ایسے ہی مسلمانوں کو بھی معلوم ہے!! اگر انہوں نےغرقد کے پیچھے خصوصی طور پر وار کرنا شروع کردیا تو ۔۔۔۔؟؟اور اتنا سوچ کر ہی ان کے جسم پر جھر جھری طاری ہو جاتی تھی۔۔۔۔
مگر موشے ابراہام اور یعقوب گوریان کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔موشے ابراہام دل میں آنے والے سوال کو زبان پر ابھی لانے ہی والا تھا کہ اس سے پہلے یعقوب گوریان نے وہی سوال کر دیا اور موشے کی زبان سے بات چھین لی۔یعقوب گوریان کی آواز میں تحقیر اور بے یقینی بھری ہوئی تھی ۔
”Don’t tell me you believe in Muhammad! “ (تم محمد (ﷺ) پر یقین رکھتے ہو؟)
موشے نے فوراً اچٹتی نظروں سے اپنے اساتذہ کو دیکھا ،جو اب شدید غصے سے ربی آئیزک کو گھور رہے تھے ۔کیونکہ ان کے منہ سے باتوں باتوں میں ایک بڑا سچ نکل آیا تھا۔
”ویل ل ل۔۔۔۔ہم م م۔۔۔۔“
ربی آئیزک نے گلہ صاف کرتے ہوئے بولنا شروع کیا ۔اسے اپنے ارد گرد اساتذہ کی ٹیم کی نظر یں نیزے کی انی کی طرح اپنے چہرے میں کھبتی محسوس ہو رہی تھیں۔موشے ابراہام سر تا پاسماعت بنے ہوئے تھا۔اسے امید تھی کہ آج اسے اپنے بچپن کے بہت سے ادھورے سوالات کے جوابات ملنے والے ہیں۔
”ویل ل ۔۔لڑکو۔۔۔میرا مطلب یہ تھا۔۔بلکہ میرا مطلب یہ نہ تھا۔۔۔ ہم کیوں مسلمانوں کے نبی پر ایمان لائیں گے بھلا؟ ہم کسی ایسے بنی پر ایمان کیوں لائیں جو اسرائیل کی اولاد میں سے نہ ہو؟!!“
ربی آئیزک کا اعتماد بحال ہوتا جا رہا تھا ۔ وہ اپنے تئیں بڑے عالمانہ انداز میں لڑکوں کو ایمان نہ لانے کی وجہ بتا رہے تھا۔
”لڑکوں ہم بنی اسرائیل ہیں۔ہم خدا کے بیٹے ہیں اور اس کے چنے ہوئے ہیں۔ہم بس انہیں انبیاء پر ایمان لاتے ہیں جو ہم میں سے آئے۔ہمارے لیے ضروری نہیں کہ ہم غیر اسرائیلی نبی پر ایمان لائیں۔ “
بڑے منطقی انداز میں انتہائی غیر منطقی دلیل دینے کے بعد ربی آئیزک نے نظریں لڑکوں کے چہروں پر گھمائیں تو اسے ہر چہرے پر اضطراب اور ان گنت سوالات لکھے نظر آئے۔
”آج کے بعد میں نے غرقد درخت کی اہمیت بتاتے ہوئے مسلمانوں کے نبی کا نام نہیں لینا،بلکہ یہ کہنا ہے کہ یہ ہماری تورات میں لکھاہے“ربی آئیزک نے آئندہ کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے سوچا۔
موشے ابراہام سوچ رہا تھا کہ ایک طرف ربی آئیزک مسلمانوں کے نبی پر ایمان نہ لانے کا کہتا ہے اور دوسری طرف ان کی پیشن گوئیوں پر ایسا یقین ہے کہ پورے یقین سے کہہ رہے ہیں کہ ایسا پیش آنے والا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ پورے اسرائیل میں اسی درخت کو بڑے پیمانے پر کاشت کیا جارہا ہے۔سوچ سوچ کر اس کو لگا کہ جیسے اس کے دماغ کی نسیں پھٹ جائیں گی ۔اس کو بچپن میں پریشان اور تنگ کر دینے والے سوالات کا پنڈورہ بکس آج ٹھک سے ایک مرتبہ پھر کھل گیا تھا اور ہزاروں سوالات ،مانوس کبوتروں کی مانند اسے چہار جانب سے گھیرے ہوئے تھے۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
اس نے دیکھا زیتون کا باغ ہے۔۔۔وہ اور ہند عبداللہ پکڑن پکڑائی کھیل رہے ہیں۔ہند آگے آگے بھاگ رہا ہے۔اور ساتھ ساتھ قرآن کی تلاوت بڑے دلنشین انداز میں کر رہا ہے۔۔۔ ایسے لگ رہا ہے گویا کائنات کی سوئی تھم گئی ہو۔ ۔۔ہر طرف سکوت ہے۔۔۔موشے ابراہام ہند کے پیچھے پیچھے بھاگ رہا ہے۔۔۔بھاگتے بھاگتے باغ کے اختتام پر ایک بہت بڑا ،آسمان کو چھوتا ،نہایت ہی چوڑا سونے کا دروازہ کھلا ہوا نظر آتا ہے ۔۔۔ہند عبداللہ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس روشن چمکدار دروازے میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔۔۔ موشے ابراہام پسینے میں شرابور اس کے پیچھے پیچھے بھاگتا آرہا ہے ۔۔۔ہند دروازے کی دہلیز پر رکتا ہے اور مسکراتے ہوئے پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو موشے ابراہام کے قدم جہاں ہوتے ہیں وہیں جم جاتے ہیں۔۔۔
ہند کے ماتھے پر گولی کا سوراخ ہے ۔۔۔اوراس سے تازہ تازہ سرخ خون بہتا ہوا گالوں سے پھسلتانیچے زمین پر گر رہا ہے ۔اس کے خون سے نہایت مسحور کن خوشبو آرہی ہے ۔۔اور وہی خون جب زمین پر گرتا ہے تو گرتے ہی گرم کھولتے ہوئے لاوے کی صورت اختیار کر لیتا ہے ۔۔۔وہ بہتا لاوا آہستہ آہستہ ایک ندی کی صورت اختیار کر رہا ہے۔اور وہ ندی اس کی نظروں کے سامنے سامنے زیتون کے باغ سے گزرنے لگتی ہےاور حیرت انگیز طور پر کسی زیتون کے درخت کو اس سے ادنی سا بھی نقصان نہیں پہنچتا ۔وہ خون لاوے کی ندی کی صورت بہتے بہتے اب باغ سے نکل کر باہر یہودیوں کی بستی میں اترتی ہے،اور اسی لمحے بستی میں ایک کہرام برپا ہو جاتا ہے۔
وہ ندی جس جس گلی سے گزرتی ہے اسے مکمل طور پر گھروں سمیت خاکستر کر کے آگے بڑھ جاتی ہے ۔۔۔حتی کہ کچھ ہی دیر میں وہ یہودیوں کی ہنستی مسکراتی بستی اجڑے ویرانے میں بدل جاتی ہے ۔عجیب بات یہ ہے کہ موشے ابراہام باغ کے بیچوں بیچ کھڑا ہےاور اس کے پاؤں ایک پگڈنڈی پر ہیں۔۔۔جس کے ارد گرد وہ خون لاوے کی صورت میں بہہ رہا ہے ۔ ۔اب موشے کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ سیدھاچلتے ہوئے اسی کشادہ سونے کے دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرےجہاں کچھ دیر پہلے ہی ہند داخل ہوا تھا۔ وہ تیز قدموں سے اسی دروازے کی طرف چل رہا ہے۔۔۔اور جیسے ہی وہ اس دروازے کے قریب پہنچنے لگتا ہے وہ دروازہ آہستہ آہستہ بند ہونے لگتا ہے ۔۔۔۔ وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا ہے تو وہ پگڈنڈی جس پر وہ چل کر آیا تھااب وہاں لاوے کی کھولتی بھاپ اڑاتی ندی کے سوا کچھ نہیں ہے۔۔۔اس کی ریڑھ کی ہڈی میں خوف کی ایک سرد لہر اُٹھتی ہے ۔
وہ آگے دیکھتا ہےتو اسے وہ کشادہ دروازہ بند ہوتا دکھائی دیتا ہے ۔۔۔وہ بے بسی میں چیخ اٹھتا ہے ۔۔۔عبداللہ ! عبداللہ!مجھے بچا لو ۔۔!!پلیز مجھے بچا لو۔۔!!ایسے میں اسے ایک بلند اور با رعب آواز آتی ہے ۔۔۔”عبداللہ کو نہیں ۔۔۔اللہ کے بندے کو نہیں ۔۔۔اللہ کو پکارو۔۔۔“
موشے ابراہام پہلے تو ٹھنک سا جاتا ہے،مگر پھر بے قراری کی کیفیت غالب آجاتی ہے۔۔۔وہ روہانسا ہوکر چیختے ہوئے پکارتا ہے۔۔۔اے اللّٰہ:اے اللّٰہ! مجھے بچا لے ۔۔۔مجھے بچا لے۔۔۔"
لاوا تیزی سے ۔۔۔اس کی پیچھے پگڈنڈی کو نگلتا ہوا۔۔۔اسے اپنی آغوش میں لینے کے لیے بڑھ رہا ہے۔۔۔اے اللّٰہ:مجھے بچا لے!!۔۔اور ایسے میں اسے وہ روشن دروازہ آہستہ آہستہ دوبارہ کھلتے ہوئے محسوس ہوتا ہے ۔۔۔یکدم موشے کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔
وہ پسینے سے شرابور تھا ۔مگر خواب کے اختتام پر دروازہ کھلنے سے دل پر جو ایک سکون سا اترا تھا،اس کا احساس اٹھنے کے بعد بھی موجود تھا ۔اور اس کی زبان پر بدستور یہ الفاظ جاری تھے۔۔۔یا اللّٰہ مجھے بچا لے۔۔۔یا اللہ مجھے بچا لے۔۔۔یا اللّٰہ!مجھے بچا لے۔۔۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
”آئرن مین !آخر تم کس مٹی سے بنے ہوئے ہو۔تین ماہ تم نے مار کھائی مگر منہ سے کچھ پھوٹ کر ہی نہیں دئیے۔۔۔!!آخر تم چاہتے کیا ہو!!
لد(Lod) ائر پورٹ پر تعینات ہونے والے نئے افسر نے تہہ خانے میں موجود قید خانے کا دورہ کرتے ہوئے ایک سیل کے باہر کھڑے ہو کر ،فلسطینی مجاہد قیدی سےتعجب خیز لہجے میں پوچھا۔
”میں کیا چاہتا ہوں؟“
قیدی کے چہرے پر ایک لمحے کو کرب سا ابھرا۔ اس نے کمال ضبط سے اس تاثر کو چھپا لیا اور پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگا:
”میں چاہتا ہوں کہ ارضِ فلسطین اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو یہودیوں سے پاک کروں۔“
”آئرن مین! تم کبھی نہیں سدھرو گے!!“
آفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا اور آگے چل دیا۔ تفتیش کرنا اس کا شعبہ نہیں تھا اور نہ ہی اسے پسند تھا۔اسے تو لد ائر پورٹ کا انتظام وانصرام سنبھالنا تھا۔اوریہ کام اسے اچھے سے آتا تھا۔
آئرن مین کو اس تفتیشی مرکز میں تفتیش اور تشدد سہتے تین ماہ گزر چکے تھے اور اب تک موساد کے کہنہ مشق تفتیشی افسران اس سے اس کا نام بھی نہیں اگلوا سکے تھے۔اسے وہ کل ہی کی بات لگتی تھی کہ جب اسے یہاں لایا گیا۔ اس کی جیب سے ایک بٹوہ برآمد ہوا تھا۔اور اس میں کرنسی کے چند نوٹوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔
”کیا نام ہے تمھارا؟“موساد کے ایک بھیڑیا نما افسر نے غرّاتے ہوئے پوچھا ۔
”معلوم نہیں!!“
اس طرف بے نیازی سی بے نیازی تھی۔
”یہ ایسے نہیں مانے گا۔شاید اپنے آپ کو ہالی وڈ کا کوئی ہیرو سمجھتا ہے ۔الٹا لٹکاؤاس کو ۔۔۔“
آخری جملہ افسر نے چیختے ہوئے کہا تھا۔گھنٹے بعد جب اسے واپس نیچے اتارا گیا تو اس کی کمر خون آلود تھی۔اور وہ بے ہوش تھا۔ہوش آنے کے بعد جب افسر نے اس سے دوبارہ اس کا نام پوچھا تو اس کے ہونٹوں پر ایک شرارتی سی مسکراہٹ دوڑ گئی ،جسے دیکھ کر افسر ششدر رہ گیا۔ ایسے موقع پر مسکراہٹ ؟؟؟اور پھر افسر نے اس قیدی کو کہتے ہوئے سنا :
”میری جیب سے تم نے ایک بٹوہ برآمد کیا ہے ۔پہلے تو تم مجھ سے یہ منواؤ کہ یہ واقعی میری جیب سے نکلا ہے۔اگر تم نے یہ منوا لیا تو میں تمہیں اپنا نام بھی بونس میں بتا دوں گا ۔ “
اور پھر تین ماہ بعد جب بالآخر تھک ہار کر موساد کے تفتیشی افسران نے اسکی فائل ترتیب دی تو اس کی خالی فائل کے اوپر جونام جگمگا رہا تھا وہ تھا"آئرن مین 4535"۔موساد کی اصطلاح میں آئرن مین اس کو کہا جاتا تھا جس پر تیسری ڈگری کا تشددبھی آزمانے پر وہ قیدی اپنا نام تک نہ بتائے ۔ایسے قیدی پر تفتیش کے وقت بے پناہ تشدد کیا جاتا ہے مگر تفتیش کے مراحل سے کامیابی سے گزرنے کے بعد اسے باقی قیدیوں کی بنسبت زیادہ سہولتیں دی جاتی ہیں اور اسے ایک طرح سے پروٹوکول دیا جاتا ہےاور اسکی کافی فرمائشیں مانی جاتی ہیں۔

٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
آئرن مین کے زخم کافی مندمل ہو چکے تھے اور اس کے صبح وشام تلاوت اور دینی کتب کے مطالعے میں گزر رہے تھے ۔ اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون دیکھ کر ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے وہ کسی قید خانے میں نہیں بلکہ اپنی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں بے فکری اور موج مستی کے دن گزار رہا ہو۔
”یا اللہ! فلسطین سے یہودیوں کی نجاست دور فرما۔یا اللّٰہ!قبلہ اول آزاد فرما اور ہماری آنکھیں مسجد اقصیٰ میں فتح کی آٹھ رکعتوں کی ادائیگی سے ٹھنڈی فرما۔یا اللّٰہ !یہودونصاری اوران سے دوستی کرنے والوں کو تباہ و بربادفرما۔یا اللّٰہ ! اسلام کو پوری دنیا میں غالب فرما۔“
آئرن مین پوری الحاح وزاری کے ساتھ فجر کی نمازکے بعد ہاتھ اٹھائے دعائیں مانگ رہا تھا۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور وہ ہچکیاں لیتے ہوئے ایسے عاجزی سے دعا مانگ رہا تھا جیسے کوئی شکستہ دل اور پراگندہ حال فقیر بڑی آس کے ساتھ کسی سخی کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔
ائر پورٹ کا نیا سی۔او سیل کے دروازے پر کھڑا بڑے انہماک سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔اسے اس بات سے بڑی حیرانگی ہوتی تھی کہ کیا یہ وہی شخص ہے کہ جب ہم میں سے کسی سے بات کرتا ہے تو اس کے مزاج ساتویں آسمان پر ہوتے ہیں۔اور انتہائی شانِ بے نیازی برتتے ہماری باتوں کے ایسے مختصر جواب اس ادا سے دیتا ہے جیسے خیرات دے رہا ہو۔۔۔اور جیسے وہ نہیں ہم اس کی قید میں ہوں ۔اور یہی شخص جب نماز پڑھتا ہے تو اس کے اکڑے ہوئے کندھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں،چہرے پر مسکنت و بے چارگی کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے خشک نہ ہونے والا آنسوؤں کا چشمہ رواں ہو جاتا ہے۔
”آئرن مین!تم بہت عجیب وغریب آدمی ہو۔“
سی ۔او دل میں سوچتا ہوا اوپر اپنے دفتر کی طرف چل پڑا ۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
اس صبح جب سورج طلوع ہوا تو غزہ کے بارڈر کے پار اسرائیل کے باسیوں کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ موت کے سائے ان کی طرف کس قدر تیزی سے لپک رہے ہیں۔ بارڈر پر لگی مضبوط باڑ کے پار بنکر کے دروازے پر اونگھتے اور جمائی لیتے اسرائیلی بارڈر فورس کے سنتری کی نظر جو ایک لمحے کے لیے غلطی سے آسمان پر پڑی تو اس کی ساری نیند اڑنچھو ہو گئی۔ اور اس کی آنکھیں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ آسمان پر انگنت اڑن کھٹولے نما گلائیڈر اڑتے ہوئے اسرائیل میں داخل ہو رہے تھے۔ ابھی اس نے اپنے شراب میں دھت سوئے ہوئے ساتھیوں کو بیدار کرنے کے لیے سیٹی منہ میں رکھی ہی تھی کہ آسمان سے فولادی شعلوں کی برکھا برسنے لگی ۔ جب چند ساعتوں بعد بنکر سے اس کے ساتھی نمودار ہوئے تو انہیں اس کی لاش اس حالت میں ملی کہ وہ گولیوں سے چھلنی تھی اور اس کی آنکھوں میں تحیر سا تحیر تھا ۔
تین گھنٹے مار کھانے کے بعد اسرائیل بالآخر کچھ سمجھنے کے قابل ہوا اور سمجھتے ہی اس نے اپنی ایئر فورس کو غزہ میں بلا امتیاز بمباری کا حکم دیا تھا۔ ایئر فورس کی ہائی کمان کی طرف سےفضائی حملے کا پہلا آرڈر جس جیٹ فائٹر کو ملا اس کا کوڈ نمبر 202 تھا۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
” قرآن کی حقانیت؟ سبحان اللہ! یہ تو ایسا سوال ہے جیسے کوئی پوچھے کہ کیا واقعی سورج طلوع ہوتا ہے؟“
آئرن مین سی۔ او کے سامنے اپنے سیل کے دروازے میں کھڑا تھا۔ نہ جانے کیوں آئرن مین کو یہ نیا سی۔ او باقیوں سے کافی مختلف سا دکھتا تھا۔ ہنس مکھ مگر کچھ کھویا کھویا سا ۔ایسے میں ان کے درمیان گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا تو مشرقِ وسطیٰ، فلسطین اسرائیل کے درمیان تنازعات، یہودی پروٹوکولز اور سازشوں سے ہوتا ہوتا اسلام کی حقانیت کے دلائل پر آ ٹھہرا ۔اور اب چند دن سے آئرن مین باقی مطالعہ جات چھوڑ چھاڑ کر پوری محنت کے ساتھ اسے اسلام کی دعوت دینے میں مشغول تھا۔ اسے یہ پہلا اسرائیلی افسر ملا تھا جو اس سے دین کی باتیں توجہ اور شوق کے ساتھ سن رہا تھا اور اس کے چہرے سے قبول حقِ کے آثار نمودار ہوتے نظر آرہے تھے۔
” قرآن کی حقانیت دیکھو افسر !تم جانتے ہی ہو کہ یہودی اور عیسائی تھنک ٹینکس مسلمانوں کے خلاف ہر لمحے کس قدر ذہنی محنتوں میں مصروف ہیں ۔اور آئے روز نت نئی سازشیں بنتے رہتے ہیں۔ قرآن میں اللہ نے تمام کفار کو چیلنج دیا ہے کہ اگر تمہارا یہ دعوی ٰہے کہ اس قرآن کو نبی ﷺ نے اپنی طرف سے گھڑا ہے ( نعوذ باللہ) تو تم اس کی مثل ایک سورت ہی لے آؤ ۔اب سوچو تو تمہارے یہ تھنک ٹینکس اور نام نہاد دانشوران جن میں سے اکثر عربی زبان اور علومِ اسلامیہ کے ماہرین ہوتے ہیں وہ پیچیدہ سازشیں بننے کے بجائے سیدھا سیدھا یہ کام کیوں نہیں کرتے کہ کسی چھوٹی سی سورت کے مثل ایک سورت ہی لکھ کر لے آئیں۔ آخر کیوں وہ اس کام سے عاجز ہیں ؟آخر کیوں ؟صرف اس لیے کہ یہ قرآن بلا شبہ اللہ رب العالمین کی نازل کردہ کتاب ہے اور اس کے مثل کوئی سورت تو کجا کوئی ایک آیت بھی لانے سے تمام مخلوق عاجز ہے۔ کیا یہ دلیل قرآن کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں؟
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
اسرائیلی ایئر فورس کے کمانڈ روم میں اس وقت مکمل خاموشی طاری تھی۔ سب کی نظریں عقبی دیوار پر لگی بڑی اسکرین پر مرکوز تھیں جہاں مختلف ایئر بیس نقطوں کی صورت میں نظر آرہے تھے۔ ایئر چیف نے بذاتِ خود جی ٹی پائلٹ کوڈ نمبر 202 کے پیجر پر ارجنٹ آرڈر بھیجا تو اسکرین پر ایک نقطہ 202 کے نام سے جگمگانے لگا۔ پیغام ارسال کرنے کے چند منٹ بعد وہ نقطہ 202 متحرک ہوتا دکھائی دیا اور اسی لمحے ایئر چیف نے مائیک پر بآ واز بلند اعلان کیا:
”Operation Olive Leaves launched“
کمانڈروم کا ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔غزہ کی فضا میں یکا یک ایک بھیانک سی چنگھاڑ ابھری اور پھر سائرن بجنے لگے جو اس بات کا اعلان تھا کہ فضائی حملے کا خطرہ درپیش ہے۔ لوگوں میں شدید افرا تفری پھیل گئی ۔وہ سب مختلف جگہوں میں پناہ لینے کے لیے بھاگنے لگے۔
” آفیسر202 غزہ میں داخل ہو چکا ہے ۔ کچھ ہی دیر میں غزہ پر بمباری شروع ہو جائے گی۔ یہ جنگ فلسطینیوں نے شروع کی ہے لیکن اسے ختم ہم کریں گے“ایئر چیف نے متکبرانہ لہجے میں اعلان کرتے ہوئے کہا۔
202 کا نقطہ اسکرین پر غزہ کی فضا میں گھومتا دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے غزہ کی فضا میں ایک چکر لگایا اور پھر یک دم بائیں طرف مڑ کر اپنا رخ اسرائیل کی طرف کر دیا۔کمرے میں بیٹھے سب لوگ اسے تشویش سے دیکھ رہے تھے کہ یکایک طیارہ بارڈر کے پار اسرائیلی افواج کے عین سر پر آموجود ہوا اور شدید بمباری شروع کردی۔ جتنی دیر میں ایک دوسرا طیارہ 202 کو مارنے کے لیے بھیجا گیا اور بالآخر گرانے میں کامیاب ہوگیا تب تک اسرائیلی فوج کا بہت بھاری جانی اور مالی نقصان ہوچکا تھا۔ اسرائیلی ایئر چیف اپنی ہائی کمان سمیت کمانڈ روم میں اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا ۔
اہلِ غزہ انتہائی پرمسرت تھے۔ ان کے چہرے اللہ کی اس غیبی مدد کی آمد کی خوشی سے دمکتے تھے۔ زبانیں اللہ کی حمد و شکر سے معمور تھیں اور مورچہ زن مجاہدین کا مورال آسمانوں کو چھورہا تھا ۔غزہ میں اس وقت سب سے گرم موضوعِ گفتگو یہی تھا کہ آخر کیا وجہ تھی کہ اس اسرائیلی پائلٹ نے اپنی ہی افواج پر بمباری کر ڈالی۔ سب یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر اسرائیلی پائلٹ کو ہوا کیا تھا کہ غزہ کے بجائے اسرائیل کو ہی نشانہ بنا ڈالا۔ اس سوال کا جواب انہیں بہت جلد ملنے والا تھا۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
تمام تعریفیں اللہ رب العزت کے لیے ہیں جو مومنوں کو عزت دینے والا اور کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے ،اور بے شمار درود و سلام ہو نبی الملحمہ ﷺ پر جنہیں اللہ رب العزت نے دینِ حق دے کر بھیجا تاکہ وہ اسے باقی تمام ادیان پر غالب کر دے۔ “
غزہ کی جامع مسجد کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور باہر بھی حدِ نگاہ تک فلسطینی غیور اورجرأت مند مسلمانوں کا انبوہِ کثیر موجود تھا۔ وہ سب وہاں اپنے ایک محبوب لیڈر جو کہ گفتار کے ساتھ کردار کے بھی غازی تھے کو سننے آئے تھے۔ غزہ کے چوراہوں پر بڑی بڑی ایل سی ڈی سکرینیں لگی ہوئی تھی اور اس وقت تمام اہلِ غزہ ایک مردِ مجاہد کی اذانِ بلالی سن رہے تھے۔ غزہ کی فضا میں اس مرد ِمجاہد کی زبان سے نکلی ہوئی قرآنی آیات کی تلاوت دور تک پھیلتی جا رہی تھی اور اس تلاوت کے پیچھے عمل کا ایک جہان بسا ہوا معلوم ہوتا تھا۔
” میرے بھائیو! اللہ کی قسم !کفار کے یہ لشکر، یہ اس کے ساز و سامان کی برتری کچھ بھی نہیں۔ جب اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو تو پھر بڑے سے بڑے لشکر کی حیثیت پرِ کا ہ سے بھی کمتر ہے۔ دنیا نے اپنے سر کی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ بے سروسامانی کی حالت میں بھی جب فلسطینی غیور مسلمانوں نے لواء الجہاد تھامے رکھا تو کیسے چند دنوں میں ہی اللہ کے دشمن اس جنگ بندی پر مجبور ہو گئے اور قیدیوں کے تبادلے کی بات کرنے لگے۔ بس میرے دوستو! اللہ سب سے بڑا ہے! اللہ ہی سب سے بڑا ہے!“
اس مردِ آہن کی آواز میں جیسے فولاد اور سیسہ بھرا ہوا تھا۔ اس کے منہ سے نکلی ہوئی تکبیر جب فضا میں پھیلی تو تمام غزہ تکبیروں سے گونج اٹھا۔ نوجوانانِ غزہ کے نعرے 'خیبر خیبر یا یھود ، جیش محمد سوف یعود' نے ایک عجیب ایمانی فضا اور ماحول مجمع میں بنا دیا اور غزہ کے غیور مسلمانوں کو اپنے دل اس لمحے صدیوں پہلے نکلنے والے محمد عربی ﷺ کے قافلے کے ساتھ دھڑکتے محسوس ہوئے۔کہ جیسے یہ محمد عربی ﷺ کے مجاہد قافلے کا ہی ایک تسلسل ہے جو شرق و غرب میں ہر طرف پھیلا ہوا کفر کے مقابلے میں برسر پیکار ہے۔
” دیکھو انہوں نے کس طرح ہمیں آزاد کر دیا۔ ہم میں سے اکثر وہ ہیں جن کے ڈیتھ وارنٹ پر سائن ہو چکے تھے۔ “
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
فلسطینی قیدیوں سے بھری بسوں کے قافلے غزہ میں داخل ہو رہے تھے ۔روڈ کے دونوں جانب جیسے پورا غزہ ہی استقبال کو امڈ آیا تھا، حتی کہ بعض معصوم زخمی بچے بھی اپنے ہیروز کے استقبال کے لیے کھڑے تھے اور ان کا جوش خروش کا والہانہ اظہار وہاں موجود سب لوگوں کو اشکبار کیے دیتا تھا۔ قیدیوں کے اس قافلے میں آئرن مین بھی موجود تھا۔ اس کی انکھوں میں غزہ کی تباہی کے مناظر اور اہلِ غزہ کی غیرت و استقامت کے مظاہر دیکھ کر آنسو آگئے تھے۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
”میرے دوستو! یہودیوں نے مجھے آئرن مین کا نام دے رکھا ہے کیونکہ وہ مجھ سے کچھ بھی نہیں اگلوا سکے تھے ۔اور اس پر اول و آخر ہر تعریف میرے اللہ ہی کی ہے۔ آپ لوگ ضرور سوچتے ہوں گے کہ غزہ پر بمباری کے ابتدائی دن وہ کون تھا جس نے اپنے جہاز کا رخ اسرائیل کی طرف کر دیا تھا اور وہاں آگ و فولاد کی برسات کر کے یہودیوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے سائے سے بھی ڈرنے پر مجبور کر دیا ۔“
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
لد ایئرپورٹ کے نیچے تہہ خانے میں آئرن مین اور سی۔ او افسر بغلگیر تھے۔ آئرن مین بار بار اس افسر کا ماتھا چوم کر اسے اسلام قبول کرنے پر مبارکباد دے رہا تھا ۔
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
”میرے دوستو! “
ضبط کی اپنی سی کوشش کے باوجود آئرن مین اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا اور موتیوں جیسے چمکتے آنسو اس مردِ مومن کے گالوں کا عقیدت سے بوسہ لیتے ہوئے اس کے گریبان میں پناہ گزین ہونے لگے۔
” میرے دوستو !وہ اللہ کا بندہ جسے اللہ نے تمہارے لیے غیبی مدد بنا کر بھیجا میرا اور تمہارا بھائی ہی تھا۔ ہاں وہ ایک نو مسلم یہودی تھا۔ اسے اللہ نے میرے ہاتھوں اسلام جیسی عظیم نعمت سے نوازا اور میں نے اس کا نام اپنے نام پر یحییٰ محمد رکھا۔“
مجمع پر سکوت طاری تھا۔ انہوں نے سوچا بھی نہ تھا کہ کبھی ایسا بھی ہوگا کہ کوئی یہودی فوجی افسر مسلمان ہو جائے گا اور پھر وہ مسلمانوں کا محافظ بنتے ہوئے اپنی ہی فوج پر ٹوٹ پڑے گا۔ اس وقت اگر کوئی شخص مجمع پر نظر دوڑاتا تو وہ دیکھتا کہ سبھی کے لب تیزی سے حرکت کر رہے ہیں۔ وہ سب اپنے محسن نو مسلم مجاہد کے لیے دل کی گہرائیوں سے دعائے مغفرت کر رہے تھے۔ محمد یعنی آئرن مین نے آنسو صاف کرنے کے لیے سر جھکا رکھا تھا۔ سر اٹھایا تو اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی اور اس کی آواز میں عزم و ہمت کی بجلیاں کڑا کے مار رہی تھیں۔
” غزہ کے غیور مسلمانو! صلاح الدین ایوبی کے جانشینو! دیکھو! تم نے اللہ کی توفیق سے جو لواء الجہاد اٹھا رکھا ہے ،اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کر رہے ہو، خبردار! اللہ سے ڈرنا اور اس راہ کی سختیوں سے تنگ آ کر یہ راستہ کبھی مت چھوڑنا۔ اللہ تمہارا محتاج نہیں، اللہ کا دین تمہارا محتاج نہیں، تم اللہ کے محتاج ہو۔ تم اس کی راہ پر چلنے کے محتاج ہو۔ میں نے قید میں اپنی آنکھوں سے یہ ہوتا دیکھا کہ جب امت لمبی تان کر سو گئی، وسائل سے مالا مال اسلامی ممالک میں سے کوئی مدد کو نہ پہنچا تو اللہ نے خود اسرائیلی ایئر فورس ہی میں سے ایک نوجوان پائلٹ کو اپنے دین اور مظلوم مسلمانوں کی نصرت کے لیے چن لیا۔ سو تم بس اپنے رب پر بھروسہ رکھو اور ”فَقَاتِل فِی سَبِیْلِ اللہِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَک " کو اپنا شعار بنالو۔۔۔ اور طے کر لو کہ یا تو ہم اقصی ٰ کی آزادی اور اسلام کی سربلندی کی منزل کو پا لیں گے یا پھر اسی راہ میں سید الشہداء حمزہ ابن مطلب رضی اللہ عنہ کی مانند اپنی جان قربان کر دیں گے۔
اور میرے دوستو !اللہ کی قسم !وہ دن دور نہیں کہ امت مسلمہ کے غیور نوجوانوں کے قافلے دنیا کے تمام اطراف سے تمہاری طرف نکلیں گے اور راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو اپنے پاؤں کی ٹھوکروں پر لیتے ہوئے آگے بڑھیں گے۔ ہاں اللہ کی قسم! امت بانجھ نہیں !میرے اللہ کی قسم! یہ امت بانجھ نہیں! بس زاغوں نے عقابوں کے نشیمن پر قبضہ کر رکھا ہے اور یہی زاغ ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ مگر زخموں سے چور اے اقصیٰ! غم نہ کر۔۔۔ اور نبی آخر الزمان کے سچے فرمان سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کر۔۔ میرے نبی ﷺ نے فرمایا ہے :خراسان سے کالے جھنڈوں کا ایک لشکر نکلے گا جو آگے بڑھتا جائے گا ۔کوئی روکنے والا اسے روک نہ سکے گا یہاں تک کہ وہ مقام ایلیا (بیت المقدس )پر جھنڈا گاڑیں گے۔(مسند احمد، ترمذی)
میرے دوستو! راہِ حق کے مسافرو! عزیمت کے کارواں کے ہراول دستو! گو کہ ہمارا سفر طویل ہے۔۔۔اور یہ سارا رستہ صعوبتوں کی گھاٹیوں سے بھرا ہوا ہے۔۔مگر اے سرفروشو! تمہیں مبارک ہو! کہ یہی تو جنت کا راستہ ہے۔۔۔سو بس اپنےحصے کا کام کرو اور اور شہید ہو کر عرش تلے قندیلوں میں جا بسو۔۔ جیسے حرم کی ابابیل پائلٹ 202 یحیی محمد اسرائیلی ابرہا کے لشکر پر مثلِ عقاب جھپٹا اور پھر اپنے خون سے وضو کرتا ہوا ربِ رحمان کی حسین جنتوں میں پہنچ گیا۔“
٭۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔٭
اسرائیل میں صف ِماتم بچھی ہوئی تھی۔ تھنک ٹینکس اور ملٹری ہائی کمانڈر سر جوڑے ،پُر ملال چہرے لیے ،شکست خوردہ دل لیے بیٹھے تھے۔ میڈیا پر ایک ہی شور مچا ہوا تھا۔ پائلٹ 202 ،موشے ابراہام جو کٹر یہودی ربی کا بیٹا تھا اسے بیٹھے بٹھائے ایسا کیا ہوا کہ اس نے ہم پر ہی بمباری کر ڈالی ؟ زندگی سے بے پناہ محبت کرنے والے یہودیوں کے دلوں کو اب یہی سوال ڈبوئے دیتا تھا۔۔۔ اور کتنے موشے ابراہام ہم میں موجود ہیں جنہوں نے موقع ملتے ہی ہم پر موت بن کر نازل ہونا ہے ؟اور اس ایک سوال نے اسرائیل کے ہر یہودی کو زندگی بھر کے لیے اپنے سائے تک سے اب خوفزدہ رکھنا تھا۔