ہوم << مدارس کے مسائل-مہتاب عزیز

مدارس کے مسائل-مہتاب عزیز

برصغیر میں مذہبی مدارس کو "اسلام کی علمی روایت "کا تسلسل سمجھنا، روایت سے یکسر لاعلمی اور جہالت کا نتیجہ ہے۔
لاڈ میکالے کے تشکیل کردہ نظام تعلیم میں کالجز اور یونیورسٹیوں کے علاوہ "رائج الوقت مذہبی مدارس" بھی شامل ہیں۔
اس نظام کا اصل مقصود مذہبی اور دنیاوی تعلیم کی جدائی تھی۔تاکہ ایک طرف وہ خالص مذہبی طبقہ جنم لے سکے، جس کی معیشت کا ذریعہ مذہب ہو۔ اور دوسری طرف ایک خالصا مذہب بیزار طبقہ پروان چڑ ھا یا جاسکے۔ انگریزوں کے دور میں ہی پہلی بار خالص مذہبی مدارس وجود میں آئے۔ جن میں ذریعہ تعلیم عربی اور فارسی تھا۔ دوسری طرف کالجز اور یونیورسٹیوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم تھا۔ تاکہ ان میں کوئی ربط ضبط پیدا نہ ہوسکے۔ نہ ہی یہ ایک دوسرے سے استفادہ کرنے کے اہل ہوں۔
یاد رہے کہ برصغیر میں پہلا "مذہبی مدرسہ "ایک انگریز نے اپنی جیب خاص سے قائم کیا تھا۔جی ہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے گورنر جنرل وارن ہسٹنگر [Warren Hastings] نے برصغیر میں پہلا "خالصا مذہبی مدرسہ" اکتوبر 1780ء کو قائم کیا تھا۔ اس مدرسہ کا نام "مدرسہ عالیہ" مشہور ہوا۔ اس کے پہلے مہتمم "ملا مجد الدین" مقرر کئے گئے تھے۔ اسٹاف میں مہتمم کے علاوہ، چار عدد اساتذہ ، ایک خطیب اور ایک موذن کا تقرر عمل میں آیا تھا۔مدرسہ کا نصاب تعلیم "درس نظامیہ" کے مطابق رکھا گیا تھا۔
ابتداء میں یہ مدرسہ کرایہ کی عمارت میں قائم کیا گیا تھا۔ تھوڑے عرصے کے بعد ایک وسیع رقبۂ زمین گورنر نے اپنی جیب خاص سے خریدا جس پر بعد میں مدرسہ کے لئے ایک شان دار عمارت کی تعمیر کی گئی۔ مدرسہ کا ابتدائی ماہانہ خرچ کل چھ سو پچاس روپیہ ہوتا تھا جو گورنر برداشت کیاکرتا تھا۔ اپریل 1781ء تک اس مدرسے کے تمام اخراجات گورنر جنرل ہی ذاتی طور پر برداشت کرتا رہا۔
بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسے اپنی سرپرستی میں لے لیا۔ مدرسہ کی عمارت کی تعمیر لگنے والے اکیاون ہزار روپے کے علاوہ وہ تمام مصارف جو مدرسہ کے سلسلے میں ہوئے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف سے وارن ہسٹنگر ادا کو بعد میں کیے گئے تھے۔
یادش بخیر ! انگریزوں کی آمد سے قبل برصغیر میں پورے اسلامی عہد کے دوران ہمہ جہت تعلیمی نصاب رائج رہا تھا۔
مثال کے طور پر ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے والد شاہ عبد الرحیم دہلوی نے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت میں مدرسہ رحیمیہ کی بنیاد رکھی۔ تو اُس کے کورس میں عربی اور فارسی گرائمر پر 2 کتابیں ، فلسفے پر 1 کتاب ، منطق پر 2 کتابیں ، فلکیات اور ریاضی کی 2 کتابیں اور دینی علوم پر 5 کتابیں رائج کیں تھیں۔
مسلمانوں کے مدارس میں تمام مذاہب کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے۔ فارسی کے بنیادی کورس کو منشی درجہ اور عربی کے بنیادی کورس کو مولوی درجہ کہا جاتا ہے۔ فارسی کے اعلیٰ درجہ کو فاضل اور عربی کے اعلیٰ درجہ کو عالم کہا جاتا تھا۔ عربی اور فارسی کے اعلیٰ نصاب کی تکمیل کرنے والا عالم فاضل کہلاتا تھا۔ (منشی پریم چند ، منشی نول کشور وغیرہ انہی مدارس کے ہندو فارغ التحصیل تھے۔ منشی عبد الکریم وہ مشہور منشی تھے جو 1887ء سے 1901ء تک ملکہ وکٹوریہ کے اتالیق رہے تھے۔)
اس کے بعد کی تمام تعلیم انفرادی ترجیہات کے مطابق ہوا کرتی تھی۔ خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو۔ مہندسی، طب، جراعی، آہن سازی، عساکری، حدیث، فقہ، تفسیر وغیرہ کے لیے کسی ماہر علم و فن کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا جاتا،(شاگردی اختیار کی جاتی) استاد شاگرد کی اپنے فن میں استعداد سے مطمعن ہونے پر پگڑھی باندھ کر تکمیل کا اعلان کر دیا کرتا تھا۔
برصغیر میں پہلی بار طلبہ کا اجتماعی امتحان لے کر "دستاویزی سند" جاری کرنے کا آغاز اسی "مدرسہ عالیہ" سے ہوا تھا۔ جس کی آج تک تمام مدراس میں پیروی کی جاتی ہے۔
مذہبی تعلیم کے ساتھ ساتھ کلکتہ میں ہی ایسٹ انڈیا کمپنی نے "فورٹ ولیم کالج" سے برصغیر میں مذہب بیزار تعلیم کی بیناد رکھی تھی۔
1813ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چارٹر میں ایک نئی شق کا اضافہ کیا تھا، جس کی رو سے "کمپنی" کے لیے لازم ہوا کہ وہ ایک لاکھ روپیہ سالانہ ہندوستانیوں کی تعلیم پہ خرچ کیا کرے گی۔ جس کے بعد "مذہبی اور غیر مذہبی "تعلیم کا بُعد مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔
ایسٹ انڈیا کمپنی کے بعد جب اقتدار حکومت برطانیہ کے پاس آیا تو "تاج برطانیہ" کی جازت اورامداد سے مزید "جداگانہ تعلیمی اداروں" کی بنیاد رکھی گئی۔ محمد قاسم نانوتوی نے "دار العلوم دیوبند"، سید محمد نذیر حسین دہلوی نے "مدرسہ نذیریہ" اور احمد رضا خان نے "مدرسہ منظر اسلام" قائم کیے۔ یہ تینوں مذہبی مدارس آگے چل کر تین مسلکوں : دیوبندی، اہلحدیث اور بریلوی کی بنیاد بنے، اور انکی وجہ سے اسلامی تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کی مساجد، جدا جدا ہوگئیں۔ایک دوسرے تکفیر اور فتویٰ بازی کا ایسا طوفان برپا ہوا کہ برصغیر کے اندر امت محمدیہ کی قوت پارہ پارہ ہو گئی۔
دوسری طرف سید احمد خان نے مدرسہ العلوم مسلمان ہند کے نام سے مسلمانوں کے لیے انگریزی کا ایک تعلیمی ادارہ کیا، پھر اس کا نام تبدیل کر کے محمدن اینگلو اورینٹل کالج رکھ دیا گیا۔ مدن موہن مالویا نے "سنٹرل ہندو کالج" قائم کیا۔ دونوں اداروں نے اردو ہندی تنازعے کی بنیاد رکھی، جس نے آگے چل کر ہندو مسلم دشمنی کی شکل اختیار کی۔