ہوم << نوحہ غم سنتے جائو - منصور احمد خان مانی

نوحہ غم سنتے جائو - منصور احمد خان مانی

شاہ سائیں نے ایک نظر اپنی جنتِ گم گشتہ پر ڈالی، کانپتے دل اور لرزتے ہاتھوں سے لکھا، میں دست بردار ہوتا ہوں! ابھی اتنا ہی لکھ پائے تھے کہ سوچنے لگے، کیا بُرا تھا اگر کاتب تقدیر کچھ سال اور مہلت دے دیتا، گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے والی صورت حال بھی نہیں! تیراسی سال کی عمر میں بھی اپنے جوتے خود پہن سکتا ہوں اور تسمے بھی انگریزی کے آٹھ کی طرح باندھ سکتا ہوں۔۔۔۔ پھر میرے ساتھ ہی ایسا کیوں۔ آخر کیوں؟
کمرے میں بہت سے لوگ تھے، اے سی کی کولنگ فل تھی، مگر دو لوگ تھے جن کے مستقبل ہوا میں تھے۔ دونوں کے چہرےپر ہلکا ہلکا پسینہ تھا۔ ایک اپنے منصب سے جا رہا تھا، دوجا انتظار میں تھا کہ کب اس کو بھی کہا جائے!
شکستہ لکھائی میں تحریر اور کئی سو سال قبل کی تاریخ، ایک نظر میں ہی بھانپ لیا تھا مگر درستی پر دل نہیں مانا کہ چلو جاتے جاتے کچھ لقے اور ٹُچے صحافیوں اور خبریوں کو راتب ہی مل جائے!
دو توانا ہاتھ تندہی سے لکڑی کے رنگین منقش ہاون دستے میں جانے کب سے چند خواہشیں گھوٹ رہے تھے۔ شاہ نے ایک ناآسودہ نظر ڈال کر بے زاری سے کہا اب لے بھی آ، پیالہ منہ سے لگا کر پہلا گھونٹ بھرا اور بے اختیار کہا، ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے! ڈاکہ تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے! سوچنے لگے آٹھ سال کم تو نہیں! کیسے کیسے اُٹھائی گیروں ، ٹٹ پونجیوں اورمصاحبوں کو بھگتایا ہے، بنا ہے شاہ کا مصاحب اور پھرے ہے اتراتا کی تصویر بنے لوگوں نیچے سے اوپر جاتے دیکھا، کیسے کیسے لوگوں کے ترلے کیے، بڑے صاحب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلے۔۔۔ مگر سب عبث، کیسی کیسی بند فائلوں کو کھلوایا اور کھلی فائلوں کو بند کروایا۔۔۔ حق ہا۔۔۔ مگر سب عبث!
سندھ کی سنگلاخ کالی سڑک ایک سانپ کی مانند بل کھائی کہیں کہیں سے لچک رہی تھی، سورج کی تپش تارکول کو نرم کر چکی تھی، دور کہیں کہیں سیراب نظر آ رہا تھا، باہر درجہ حرارات گرم تھا، گاڑی اسی میل فی گھنٹا کی رفتار سے جا رہی تھی، اندر ٹھنڈک غضب کی تھی، شاہ کی آنکھیں گاڑی کے بونٹ پر تھیں جہاں پر اب جھنڈا نہیں تھا!
عمر کے اس حصے میں جہاں اولاد اور اس کی اولاد کا مستقبل بھی کہیں سرکاری تو کہیں نجی طور پر اعلیٰ عہدوں پر محفوظ کر رکھا تھا، پھر بھی کہیں کہیں یہ کسک یہ امنگ باقی تھی کہ اپنی کسی آل اولاد کو بھی اپنے سامنے منصب اعلیٰ پر فائز ہوتا دیکھ سکوں!
پانچ کروڑ لوگ، ان کی ذمے داری لینا آسان نہیں، پر میں نے لی،میں ذمے دار تھا، اور ذمے دار پر تو ہمیشہ ہی سوال اُٹھتے ہیں، لوگ اپنی اپنی اوقات کے مطابق مذاق بھی بناتے ہیں۔ ابھی کل ہی کی تو بات ہے جب میں اٹلی سے درآمد شدہ سفید سنگ مرمر کے فرش پر پیر رکھے اس کی ٹھنڈک سے محظوظ ہو رہا تھا کہ گھر کہ کسی بچے نے کسی بدبخت کی بنائی ہوئی تصویر مجھے دکھائی جس میں لکھا تھا کہ میرے جانے سے میرے ہم عمر مصر کے فرعون بھی رو پڑے!
ہر سال محدود بجٹ کا ملنا، پھر بے شمار مسائل صحت، تعلیم اور دفاع کے اخراجات کم تو نہیں ! میں کس طرح سے پورا کرتا تھا میں ہی جانتا تھا، بچوں کی بیرون ملک پڑھائی، اور بیروں ملک علاج میں ہی کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے تھے، پھر دفاع الگ کہ دشمن کی میلی آنکھ سے بچنے کے لیے کئی قسم کے حصار بنانے پڑتے تھے، کس نے ایک بار مجھ سے پوچھا شاہ جی پانچ کروڑ عوام کے لیے کتنا بجٹ درکار ہو گا کہ ان کی قسمت بدل جائے؟؟؟ میرا جواب تھا کہ دس سال! حق ہا ابھی دو باقی تھے کہ آٹھ پر ہی باہر کر دیا!
جانے کس پہر آنکھ لگی یہ تو یاد نہیں مگر یکدم آنکھ کھل گئی، دل تیز تیز دھڑک رہا تھا، بہت عجیب خواب تھا، دیکھا ہاتھ میں کدال ہے اور پیشانی پر پسینہ، پسینے کی بدبو چہرے پر لگی مٹی کی سوندھی خوشبو کے ساتھ مل کر ایک عجیب بساند پیدا کر رہی تھی، خیر میں بتا رہا تھا کہ ہاتھ میں کدال تھی اور میں کسی جگہ پر ایک گڑھا کھود رہا تھا، میرے ساتھ کئی اور بھی مزدور تھے، مگر وہ بے چینی اور پریشانی جو میرے چہرے پر تھی ان کے کے چہرے پر نہیں تھی، مکان کا کرایہ تھا، بچوں کی فیس، بیمار ماں کی دوائیں، یومیہ دو سو روپے کی دہاڑی میں مزدور کیا نہائے کیا نچوڑے، اسی سوچ میں غلطاں یک بارگی جو کدال چلائی تو ایک پتھراُچھٹ کر ماتھے پر دھن سے آن لگا، مانو آنکھوں کے آگے تو گویا قبر سا اندھیرا چھا گیا، ایک مزدور چیخ سن کر اپنی کدال لئے میرے سامنے آن کھڑا ہوا اور کہا۔۔۔ پانچ کروڑ مزدور ہیں وہ بھی تکلیف میں ایسے ہی چیختے ہیں! یہ کہہ کر جو اس نے اپنی کدال میری طرف اچھال دی ایک چیخ حلق سے روکنے کے باوجود فضا کو چیر گئی اور آنکھ کھل گئی! ہاتھ بڑھاکر ڈھائی لاکھ روپے مالیت کا موبائل اُٹھا کر وقت دیکھا، صبح کے چھ بج رہے تھے، فوراً سے پیشتر خدائے برتر کا شکر ادا کیا کہ یہ صرف ایک خواب تھا، ایک انگڑائی لے کر دوبارہ سونے کا ارداہ باندھا تو نظر لباسِ فطرت میں سوئی ایک نوخیز قیامت پر پڑی! کھینچ کر ہمدردی میں ریشمی چادر گلاب کے ڈھیر پر ڈالی، مگر چادر تھی کے کمر کے بل پر سرک سرک کے اتر رہی تھی! مجھے یہ منظر دیکھ کر خواجہ کی بات یاد آئی کوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی ہے!
مجھے کوئی اور نہیں میری ازلی معصومیت اور شفاف دل لے ڈوبا زمانے بھر کے چلتر لونڈے لپاڑے صحافی جب میرا گھیراو کرتے تو معصومیت میں کبھی کچھ کا کچھ بول جاتا تھا، بس خلق تو کہنے کو فسانے مانگے والی بات۔۔۔ ادھر میں نے کچھ کہا اور لوگوں کی مراد بر آئی!
آج سب کچھ ہے مگر وہ کرسی نہیں جس پر بیٹھ کر سونے کا اپنا ایک لطف تھا، وہ مائیک نہیں جس پر جب جو کہا سب نے سنا، ایک عجیب سی بے چینی ہے جس نے مجھے اپنے حصار میں لیا ہوا ہے جانے کیوں ایک بد ذات صحافی کا لکھا ہوا یاد آ رہا ہے دل کہتا ہے کہ کہیں یہ ہی ہچکی تو نہیں لے ڈوبی!
کمرہ بہت سرد تھا
جب کے باہر غضب کی گرمی تھی
اتنی ٹھنڈ کے باجود ماں اور بچہ دونوں پسینے سے شرابور تھے۔
ڈاکٹر نے کہا مائی ہم۔اسے نہیں بچا سکتے فاقوں نے اس کا معدہ۔سیکڑ دیاہے۔۔۔
کمرے میں موجود ٹی وی پر سندھ اسمبلی میں کوئی کہہ رہا تھا۔
بس سائیں یہ تھر کی عورتیں اہسپتال بھی اے سی کا۔مزا لینے آتی ہیں۔۔
بچے نے بے بسی سے اپنا سر ماں کی بنجر چاھتیوں پر مارا
ایک آخری ہچکی لی اور دم توڑ دیا۔۔۔
کمرے میں اے سی کی کولنگ فل۔تھی۔
مگر ڈاکٹر سمیت ہر بندہ پسینے سے شرابور تھا۔۔۔۔


منصور احمد خان سینئر صحافی ہیں۔ ان دنوں ڈان نیوز سے وابستہ ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے لیے بھی لکھتے ہیں۔ ان کا خاص انداز انہیں دیگر لکھنے والوں سے منفرد بناتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment