ہوم << خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد-شبیر احمد

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد-شبیر احمد

خلیج کے دو بڑے ممالک ایران اور سعودی عرب نے باہمی خلیج کو رفو کرنے اور دوستانہ تعلقات بحال کرنے کا عزم کرلیا ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ایران اور سعودی وزرائے خارجہ نے ملاقات بھی کی اور عنقریب اعلی حکام ایک دوسرے کے ممالک کا دورہ بھی کریں گے۔

موقع تو خوب اور درگزر کرنے کا ہے مگر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ پچاس سال پہلے ایک دوسرے کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے والے ایران اور سعودی کے درمیان اختلاف کیوں ہوا؟ اس اختلاف کی اصل اور بنیادی وجہ مذہبی تھی یا سیاسی؟ اور پھر اس اختلاف نے خطے کے دو اہم ممالک پاکستان اور افغانستان پر کیا اثرات مرتب کیے ؟ کیا ان دوستانہ تعلقات کی بحالی سے امریکہ کا اثر ورسوخ خطے میں کمزور پڑنے جائے گا؟

ایران اور سعودی عرب دنیا بھر میں تیل پیدا کرنے والے دو بڑے ممالک ہے۔ایران میں ۱۹۰۸ جبکہ سعودی عرب میں ۱۹۳۸ میں تیل دریافت کیا گیا۔ دونوں ممالک میں تیل مغربی کمپنیوں کی مدد سے نکالا گیا، جبکہ اسے برقرار رکھنے کے لیے بھی یہ کمپنیاں وہاں کام کرتی رہیں ۔ جن میں اینگلو بیسڈ کمپنیاں شامل تھیں۔

یہی وجہ ہے کہ مغربی ممالک کی کمپنیوں اور مارکیٹس کا انحصار ایران اور سعودی عرب کی جانب سے برآمد ہونے والے تیل پر ہونے لگا۔ وہ اس قدر اس پر منحصر ہوئے کہ مغربی ممالک میں مہنگائی اور اشیاء کی قیمتیں ایران اور سعودی میں تیل کی قیمتوں کے مطابق ہونے لگیں۔

یہ وہ دور تھا کہ اگر مغربی ممالک کے لیے سعودی اور ایران کے تیل کا راستہ بند کردیا جاتا تو ان کی پوری مارکیٹ کریش کرجاتی۔ اس کا اندازہ آپ ۱۹۷۳ کی ارب اسرائیل جنگ سے لگا سکتے ہیں، جب امریکہ نے اسرائیل کی عرب ممالک کے خلاف جنگ میں عسکری مدد کی، تو اوپیک جو تیل برآمد کرنے والے ارب ممالک کی تنظیم تھی نے امریکہ پر تیل کی پابندی لگادی۔جس کے نقصانات کا اقرار امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے برملا کیا ہے۔

یہ وہ تلوار تھی جو مغربی ممالک اور باالخصوص امریکہ کے سر پر لٹکتی رہی۔ پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور سویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا تقاضہ بھی تھا کہ ان ممالک کو اپنے اپنے بلاکس میں شامل کردیا جائے۔ ۱۹۷۹ میں ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور ساتھ ہی ایرانی نیوکلریئر پراجیکٹ میں تیزی دیکھی گئی جو سعودی عرب اور امریکہ کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی۔ سعودی عرب اور امریکہ کو یہ منظور نہیں تھا کہ ایران خطے میں اثرورسوخ حاصل کرے۔ یہاں سے اختلافات کا باقاعدہ آغاز ہوتا ہے۔

اسی سال یعنی ۱۹۷۹ میں جب ایران میں اسلامی انقلاب آتا ہے، عراق ایران پر حملہ آور ہوجاتا ہے جس میں عراق کو سعودی اور امریکی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اور یوں اچھے تعلقات رکھنے والے اور دو بڑے تیل برآمد کرنے والے مسلم ممالک میں دشمنی جنم لیتی ہے۔ جو محض سیاسی بنیادوں پر تھی لیکن بعد میں وسیع ہوکر مذہبی رنگ اختیار کرگئی۔ یا یوں کہیے کہ اس میں مذہب کا بے دریغ استعمال کیا گیا۔

اس دشمنی اور اختلافات نے علاقائی امن کو شدید نقصان پہنچایا۔ باالخصوص پاکستان اور افغانستان مذہبی بنیادوں پر اس سے بے حد متاثر ہوئے۔ دونوں ممالک میں شیعہ سنی تضادات نے زور پکڑ لیا ۔ ایران اور سعودیہ کی سرپرستی میں کئی مسلح گروہ تشکیل پاگئے۔شیعہ سنی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ افغان جنگ میں بھی دونوں ممالک ایک دوسرے کے مدمقابل رہے۔ یہ وہ دور تھا جب یہ جنگ سیاسی سے مذہبی جنگ کی شکل اختیار کرچکی تھی یا اسے پر اثر بنانے کے لیے مذہبی قرار دیا چکا تھا۔

تعلقات کی یہ بحالی تو مسلم ممالک کے حق میں بہتر ہے ہی لیکن امریکہ کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ڈالر نے امریکی معیشت کو سہارا دیا۔ پوری دنیا میں تیل کی تجارت ڈالر میں ہوتی تھی۔اب چونکہ چین کی ثالثی میں دو تیل برآمد کرنے والے ممالک نے دوستانہ تعلقات بحال کردیے ہیں تو عین ممکن ہے کہ سعودی عرب اور ایران ڈالر کی بجائے چینی کرنسی میں تیل کی تجارت کا آغاز کردیں۔سعودیہ اور ایران کی دیکھا دیکھی سارے خلیجی ممالک انرجی سیکٹر کی تجارت چینی کرنسی میں شروع کرسکتے ہیں۔ جو امریکہ کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب اور ایران تیل کی تجارت کے حوالے سے دنیا کی ابھرتی ہوئی دوسری بڑے طاقت چین پر منحصر ہوجائیں گے اور یوں امریکہ کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔