ہم مسلمان اپنے نبی ﷺ سے محبت اور عشق کا تو بہت اظہار کرتے ہیں لیکن عمل تو بہت دور کی بات ہے ہم میں سے بہت کم لوگ ہیں جنھوں نے سیرت اور اخلاق نبوی کا بغور و مفصّل مطالعہ کیا ہو گا۔ اللہ پاک سورۃ بقرہ میں فرماتے ہیں "جو نہیں کرتے وہ کہتے کیوں ہو؟"۔نبی کریم ﷺ خود اپنی تعلیم کا آپ نمونہ تھے، انسانوں کے مجمع عام میں وہ جو کچھ کہتے تھے، گھر کے خلوت کدہ میں وہ اسی طرح نظر آتا تھا، اخلاق و عمل کا جو نکتہ وہ دوسرں کو سکھاتے تھے، وہ خود اس کا عملی پیکر بن جاتے تھے۔ہمیں اگر آپ ﷺ سے محبت کا دعوی ہے تو آپکی تعلیمات کی جھلک بھی ہماری عملی زندگی میں نظر آنی چاہیئے۔ ذیل میں اخلاق نبوی کی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو اخلاق نبوی اور تعلیمات نبوی کو سمجھنے اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔"ایک دفعہ ایک عورت نے جو خاندان مخزوم سے تھی، چوری کی، قریش کی عزت کے لحاظ سے لوگ چاہتے تھے کہ سزا سے بچ جائے اور معاملہ دب جائے، حضرت اسامہؓبن زید رسول اللہ ﷺ کے محبوب خاص تھے لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ سفارش کیجئے انھوں نے آنحضرت ﷺ سے معافی کی درخواست کی، آپ نے غضب آلود ہو کر فرمایا کہ بنی اسرائیل اسی کی بدولت تباہ ہوئے کہ وہ غرباء پر حد جاری کرتے اور امراء پر درگزر کرتے تھے"۔ "حضرت ابوزرؓسے مروی ہے کہ ایک شب کو وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ایک راستہ سے گزر رہے تھے کہ آپ نے فرمایا ابوزر! اگر احد کا پہاڑ میرے لیئے سونا ہو جائے تو میں یہ کبھی پسند نہ کروں گا کہ تین راتیں گزر جائیں اور میرے پاس ایک دینار بھی رہ جائے، لیکن ہاں وہ دینار جس کو میں ادائے قرض کیلئے چھوڑ دوں۔اکثر یہاں تک معمول تھا کہ گھر میں نقد کی قسم سے کوئی چیز موجود ہوتی تو جب تک کل خیرات نہ کر دی جاتی گھر میں آرام نہ فرماتے"۔ "رئیس فدک نے ایک دفعہ چار اونٹ پر غلہ بار کر کے خدمت نبوی میں بھیجا۔ حضرت بلال ؓ نے بازار میں غلہ فروخت کر کے ایک یہودی کا قرض تھا وہ ادا کیا، پھر آنحضرت کی خدمت میں آکر اطلاع کی، آپ نے پوچھا کچھ بچ تو نہیں رہا؟ بولے ہاں کچھ بچ بھی رہا، فرمایا کہ جب تک کچھ باقی رہے گا میں گھر نہیں جا سکتا۔ حضرت بلال ؓ نے کہا میں کیا کروں کوئی سائل نہیں، آنحضرت ﷺ نے مسجد میں رات بسر کی۔ دوسرے دن حضرت بلالؓنے آکر کہا یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو سبکدوش کر دیا، یعنی جو کچھ تھا وہ بھی تقسیم کر دیا گیا۔ آپ نے خدا کا شکر ادا کیااور اٹھ کر گھر تشریف لے گئے"۔ لوگوں کو حکم عام تھا کہ جو مسلمان مر جائے اور اپنے ذمہ قرض چھوڑ جائے تو مجھے اطلاع دو، میں اس کو ادا کروں گا، اور جو ترکہ چھوڑ جائے وہ وارثوں کا حق ہے۔ایک دفعہ ایک چادر لا کر پیش کی، آپ کو ضرورت تھی، آپ نے لے لی، ایک صاحب حاضر خدمت تھے، انھوں نے کہا کیا اچھی چادر ہے۔ آپﷺ نے اتار کر ان کو دے دی، جب اٹھ کر چلے گئے تو لوگوں نے ان کو ملامت کی کہ تم جانتے ہو کہ آنحضرت ﷺ کو چادر کی ضرورت تھی، یہ بھی جانتے ہو کہ آپ کسی کا سوال رد نہیں کرتے، انھوں نے کہا ہاں لیکن میں نے تو برکت کیلئے لی ہے کہ مجھ کو اسی چادر کا کفن دیا جائے۔ایک صحابی ؓ نے شادی کی، سامان ولیمہ کیلئے گھر میں کچھ نہ تھا۔ آنحضرت ﷺ نے ان سے فرمایا کہ عائشہ کے پاس جاؤ اور آٹے کی ٹوکری مانگ لاؤ، وہ گئے اور جا کر لے آئے، حالانکہ کاشانہ نبوت میں اس ذخیرہ کے سوا شام کے کھانے کوکچھ نہ تھا۔ ایک دفعہ ایک غفاری آکر مہمان ہوا۔ رات کو کھانے کیلئے صرف بکری کا دودھ تھا۔ وہ آپ ﷺ نے اس کے نذر کر دیا۔ یہ تمام رات خانہ نبوی میں فاقہ سے گزری حالانکہ اس سے پہلی شب میں بھی یہاں فاقہ ہی تھا۔حضرت معاذ بن جبل ؓ (جو اکابر صحابہ میں سے تھے)ایک محلہ میں امامت کرتے اور نماز فجر میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے۔ ایک شخص نے آنحضرت ﷺ سے شکائیت کی کہ وہ اس قدر لمبی نماز پڑھتے ہیں کہ میں ان کے پیچھے نماز پڑھنے سے قاصر رہتا ہوں، ابو مسعود انصاری ؓ کا بیان ہے کہ میں نے آنحضرت کو کبھی اس قدر غضب ناک نہیں دیکھا جس قدر اس موقع پر دیکھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں سے خطاب کر کے فرمایا "بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو لوگوں کو متنفر کر دیتے ہیں، جو شخص تم میں سے نماز پڑھائے مختصر پڑھائے کیونکہ نماز میں بوڑھے، کمزور، کام والے سبھی طرح کے آدمی ہوتے ہیں "۔ایک دفعہ حضرت عائشہؓ کے گھر میں آپ منہ ڈھانک کر سوئے ہوئے تھے عید کا دن تھا، چھوٹی بچیاں گا بجا رہی تھیں۔ حضرت ابوبکر ؓ آئے تو ان کو ڈانٹا۔ آنحضرت نے فرمایا "ان کو گانے دو یہ ان کی عید کا دن ہے"۔حیوانات پر رحم فرماتے تھے۔ایک دفعہ ایک گدھا راہ میں نظر پڑا جس کا چہرہ داغا گیا تھا، فرمایا کہ "جس نے اس کا چہرہ داغا ہے اس پر خدا کی لعنت ہے "۔ایک حبشی مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، مر گیا تو لوگوں نے آپ کو خبر نہ کی، ایک دن آپ نے اس کا حال دریافت فرمایا، لوگوں نے کہا وہ انتقال کر گیا، ارشاد ہوا تم نے مجھ کو خبر نہ کی، لوگوں نے اس کی تحقیر کی (یعنی وہ اس قابل نہ تھا کہ آپ کو اس کے مرنے کی خبر کی جاتی) آپ ﷺ نے لوگوں سے اس کی قبر دریافت کی اور جا کر جنازہ کی نماز پڑھی۔حدود قصاص میں نہائیت احتیاط فرماتے اور جہاں تک ممکن ہوتا در گزر کرنا چاہتے۔ ماعز اسلمی ایک صاحب تھے جو زنا میں مبتلا ہو گئے تھے لیکن فورا مسجد میں آئے اور کہا یا رسول اللہ! میں نے بدکاری کی، آپ ﷺ نے منہ پھیر لیا وہ دوسری سمت آئے، آپ ﷺ نے اور طرف منہ پھیر لیا۔ آپ ﷺبار بار منہ پھیر لیتے اور وہ بار بار آکر زنا کا اقرار کرتے ، بالاخر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم کو جنون تو نہیں ہے؟ بولے نہیں پھر پوچھا تمھاری شادی ہو چکی ہے؟ بولے ہاں، آپ ﷺ نے فرمایا تم نے صرف ہاتھ لگایا ہو گا؟ بولے نہیں بلکہ مجامعت کی، آخر مجبور ہو کر آپ نے حکم دیا کہ سنگسار کیئے جائیں۔ایک دفعہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ مجھ سے گناہ سرزد ہوا، آپ حد (سزا)کا حکم دیں، آپ ﷺ چپ رہے اور نماز کا وقت آگیا، نماز کے بعد انھوں نے پھر آکر وہی درخواست کی۔ آپ نے فرمایا، کیا تم نے نماز پڑھی؟ بولے ہاں پڑھ لی، ارشاد فرمایا کہ تو خدا نے تمھارا گناہ معاف کر دیا۔ایک دفعہ قبیلہ غامد کی ایک عورت آئی اور اظہار کیا کہ میں نے بدکاری کی، آپﷺ نے فرمایا "واپس جاؤ"دوسرے دن پھر آئی اور بولی کہ کیا آپ مجھ کو ماعز اسلمی کی طرح چھوڑ دینا چاہتے ہیں؟ خدا کی قسم مجھ کو حمل رہ گیا ہے، پھر فرمایا واپس جاؤ، وہ چلی گئی تیسرے دن پھر واپس آئی، آپ نے ارشاد فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہونے تک انتظار کرو، بچہ جب پیدا ہوا تو بچہ کو گود میں لیئے ہوئے آئی، (یعنی اب زنا کی سزا دینے میں کیا عذرہے؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ دودھ پینے کی مدت تک انتظار کرو، جب دودھ چھوٹ جائے تب آنا، جب رضاعت کا زمانہ گزر گیا تو پھر حاضر ہوئی، اب آپ نے مجبور ہو کر سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے اس پر پتھر برسانے شروع کیئے ایک صاحب کا پتھر اس کے چہرہ پر لگا اور خون کی چھینٹیں اڑ کر ان کے چہرہ پر آئیں انھوں نے اس کو گالی دی، آنحضرت ﷺ نے فرمایا"زبان روکو!خدا کی قسم اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ جبرامحصول لینے والا بھی اگر یہ توبہ کرتا تو بخش دیا جاتا"۔ ایک بار ایک اور صحابی ؓ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں برباد ہو گیا روزہ میں اپنی بیوی سے ہم بستر ہوا، آپ ﷺ نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کر سکتے ہو؟ کہا نہیں، فرمایا دو مہینے تک متصل روزہ رکھ سکتے ہو؟ کہا نہیں، فرمایا ساٹھ محتاجوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟ کہا اس کی بھی قدرت نہیں، آنحضرت ﷺ خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک شخص نے کھجوروں کی ایک ٹوکری ہدیتا پیش کی، آپ نے فرمایا سائل کہاں گیا، سائل نے کہا یا رسول اللہ میں یہ ہوں، فرمایا ان کھجوروں کو لے جاؤ اور کسی غریب کو خیرات دے دو، سائل نے کہایا رسول اللہ! مدینہ میں مجھ سے زیادہ غریب کون ہو گا، آنحضرت ﷺ ہنس پڑے اور فرمایا جاؤ گھر ہی والوں کو کھلا دو۔کیا عدم تشدد کی اس سے اعلیٰ مثالیں ہو سکتی ہیں۔ سوچنے کی ضرورت ہے کہ کیاہم مسلمان اور نام نہاد اسلامی تنظیمیں اپنے عمل سے اسلام کو فروغ دے رہے ہیں یا اسلام کو تشدد کا مذہب بنا کر دشمنان اسلام کا ایجنڈا پورا کر رہے ہیں؟
نوٹ: تمام واقعات علامہ شبلی نعمانی اور علامہ سید سلیمان ندوی کی سیرت نبویﷺ سے لئے گئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے