ہوم << طلبہ یونین کی بحالی - چوہدری حسیب عبید

طلبہ یونین کی بحالی - چوہدری حسیب عبید

ہمارے ملک میں طلبہ یونین کی بحالی وقت کی ضرورت بن چکی ہے اسکی واضح مثال ہمارے سیاسی نمائندے ہیں ، طلبہ یونین پر پابندی سے ہمارے ملک میں قابل سیاستدانوں کا فقدان بڑھتا جا رہا ہے .

اور سیاست میں غیر جمہوری عناصر کا عمل دخل ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے ۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتوں کی لیڈر شپ میں گنے چنے قابل لوگ ہی نظر آرہے ہیں جو کہ طلبہ یونین کی نرسری کے تیار کردہ فرد ہیں ۔ چار دہائیوں سے اس نرسری پر پابندی نے ہمارے ملک کے آئین کی دفعہ نمبر سترہ کی خلاف ورزی کی ہے جس سے ملک میں جمہوریت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے ، ہر سیاسی جماعت خاندانی طرز اور سرمایہ داروں کی آمجگاہ بن چکی ہے۔

ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں درجنوں مسائل ایسے ہیں جو طلبہ نمائندگی نا ہونے کی وجہ ناسور بن چکے ہیں ۔ جامعات کی فیصلہ سازی میں طلبہ کا نا ہونا ایک مخصوص طبقہ کے لیے تو فائدہ مند ہے مگر طلبہ اسکا نقصان اسکالرشپس اور دیگر ضروریات کی عدم فراہمی کی صورت میں اٹھاتے ہیں ۔ طلبہ یونین کی صورت میں طلبہ کا ایک منتخب شدہ پینل بذریعہ الیکشن فیصلہ سازی کا حصہ ہوتا ہے مغربی ممالک میں موجود طلبا یونینز اسکی عملی مثال ہیں ۔

طلبہ یونین کی ایک اہم حیثیت یہ بھی ہے کہ وہ طلبہ کی خدمت اور ان کے مسائل کے حل کا ادارہ بھی ہے،مغربی ملکوں میں طلبہ یونین یہ کردار بہت سرگرمی کے ساتھ ادا کرتی ہیں۔ جس کے نتیجے میں دور دارز علاقوں سے آنے والے طلبہ صرف ایک کال کر کے اپنے مسائل منتخب نمائندوں سے ڈسکس کرتے ہیں ۔ بعض یونینز داخلہ کے بعد آنے والے طالب علم کے آنے سے پہلے ہی اسکی رہائش کا انتظام کر دیتی ہیں۔

طلبہ یونین کا اصل کردار یہ ہے کہ وہ مستقبل کی عملی زمہ داریوں کے لیے طلبہ کو تیار کرتی ہے،کلاس رومز کی حد تک طلبہ اپنے مخصوص شعبہ کی معلومات اور مہارت حاصل کرتے ہیں اور یونین کے پلیٹ فارم پر وہ اپنی صلاحیتوں کو معاشرے کے لیے عملا استعمال کرنے کی خاطر تیار ہوتے ہیں ، یہاں ان کی قائدانہ صلاحیتں پروان چڑھتی ہیں ۔ کیمونیکیشن ، پیش قدمی ، مشاورت ، بحث و مباحثہ، فیصلہ سازی ،نفاذ، مسائل و مشکلات کے حل ،مزاحمت، وغیرہ کے آداب اور سلیقہ ان کے اندر پیدا ہوتا ہے ۔ ایک اچھی یونیں طلبہ کا کیرکٹر بھی بناتی ہے اور ان کے اندر حوصلہ و مندی ، جرات ، ظلم کے مقابلے، پامردی، جیسے اوصاف کی تعمیر کرتی ہے جو ایک تعلیم یافتہ شہری کے اندر ضروری ہیں اور ہر سطح کے قائدین کے لیے تو ناگزیر ہے۔

طلبہ یونین کا اصلا آغاز بحیثیت ایک مجلس مباحثہ(Debating Society) ہی ہوا تھا ۔ یونین کے پلیٹ فارم پر طلبہ اور انکے قائدین ملک کے اہم مسائل پر مباحثے کرتے ہیں۔ ان مباحثوں سے طلبہ کو مسائل سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔مسائل کے سلسلہ میں جو مختلف نقاط نظر ہوسکتے ہیں ان سے واقفیت ہوتی ہے۔مخالف خیالات سننے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی جمہوری اسپرٹ پروان چڑھتی ہے۔آج ہمارے ملک کی فضا کچھ ایسی بنی ہوئی ہے کہ تعمیری مباحث ، تنقید اور سوالات کھڑے کرنے نیز افکار و خیالات کے تنوع کی ہمت شکنی ہو رہی ہے۔

سرمایہ داروں، سیاسی جماعتوں اور میڈیا کا گٹھ جوڑ کسی بھی ایسی سوچ کو پروان نہی چڑھنے دے رہا جو انکے مفادات کے خلاف ہو۔ میڈیا خیالات چند مخصوص دھاراوں تک پورے ملک کو محدود کرنے کے درپے ہے۔یہ صورت حال ہمارے ملک کی جمہوریت کے لیے مہلک ہے۔ طلبہ یونینن ، اس صورت حال کو ختم کر سکتی ہیں۔ ملک کے مسائل پر کھلی گفتگو اور مختلف خیالات کو سننے اور ان پر غور کرنے کی فضا، خود طلبہ کی شخصیوں کا آزاد ماحول میں ارتقا کے لیے ضروری ہے اور اس فضا سے وہ ملک کی مجموعی فضا کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی پابندی کی وجہ سے یہ ادارے ڈگری تو دے رہے ہیں لیکن ایک اچھا شہری معاشرے کو فراہم کرنے میں یکسر ناکام ہیں ۔اگر ہمارے ملک میں اٹھارہ سال کی عمر میں ووٹ کا حق دیا جا رہا ہے ، ریلوے اور رکشہ والوں کو بھی یونین سازی کا حق ہے تو ان طلبہ کو بھی انکے بنیادی انسانی حق کی فراہمی ملک کے مقتدر طبقوں کی زمہ داری ہے ۔

حال ہی میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں موجود دائیں باز و اور بائیں بازر کی تنظیموں کی جانب سے اس اہم ایشو پر بھر پور کمپین چلائی جا رہی ہے جسکے نتیجے میں صوبہ سندھ کے گورنر نے صوبہ بھر کی جامعات کے سربراہان کو بلا کر ان کو طلبہ یونین کی بحالی کا چارٹر دیا ہے ، اسکے ساتھ ہی رواں ہفتے جامعہ پنجاب کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی نے گورنر پنجاب سے طلبہ یونین کے الیکشن کے حوالے سے ملاقات کی ہے جو کہ ملک میں جمہوری روایات کی بحالی کے لیے اہم قدم ہے۔طلبہ حلقوں کی جانب سے ان حالیہ ملاقاتوں اور میٹنگز کو سراہا گیا ہے ۔اس آڑٹیکل کے بعدفیصلہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے کہ طلبہ یونین ضرورت ہے یا فساد ۔