ہوم << ورکنگ ویمن کا عالمی دن - بسم اللہ ارم

ورکنگ ویمن کا عالمی دن - بسم اللہ ارم

پاکستان میں 2011 میں عورتوں کے کام کو تسلیم کرتے ہوئے 22 دسمبر کا دن ورکنگ وومن کے نام سے منانے کا عزم کیا گیا اس دن کو منانے کا مقصد کام کرنے والی خواتین کی شناخت کو تسلیم کرنا اور ان خواتین کو قومی دھارے میں شامل کرنا اور خواتین کے کام کے دوران بے شمار مسائل جن کا وہ شکار ہوتی ہیں .

ان کے تدارک کے لئے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کے سلسلہ کو عملی طور پر کرنے کا عزم کرنا ہے قیام پاکستان سے خواتین عملی طور پر سیاسی عمل کے ساتھ ساتھ تعلیم صحت ڈاکٹر نرسنگ ہیلتھ ورکرز کھیتی باڑی یعنی فصلوں کی کاشت بجاہی اور کٹائی میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں دہیی علاقوں میں بچپن سے گھر کی ذمہ داری نبھانے والی بچیاں کھیتوں میں چاول کی فصل لگانے کے لیے سارا دن کام کرتی ہیں سبزیوں اور پھلوں کی چنائی میں ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں سخت درجہ حرارت میں کپاس کی چنائی جیسے سخت کام کرتی نظر آتی ہیں خواتین ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال کی بھاری ذمہ داری نبھاتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ان خواتین کو صنف نازک کہا جاتا ہے.

خواتین یہ ذمہ داریاں بغیر شکایات کے نبا رہی ہوتی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ خواتین کو مواقع ملے انہوں نے آرگنائزیشن رجسٹرڈ کروائیں کمپیوٹر آپریٹر کے طور پر کام کرتی نظر آئیں خواتین گلوکارہ فنکارہ وکلا ڈاکٹر انجینئر شاعری کے ساتھ ساتھ ان ذمہ داریوں کو نبھا لینا شروع کیا اس کے ساتھ ساتھ گھر پر بچوں کی تربیت بزرگوں کی حفاظت احسن طریقے سے زمہ داریاں نبھا کر رول ماڈل ثابت ہو رہی ہیں کیونکہ خواتین میں آگے بڑھنے کی صلاحیت ہے زیادہ تر خواتین نہ صرف مسائل پر آواز اٹھاتی ہیں بلکہ حق حاصل کرنے کے لئے جدوجہد بھی کرتی ہیں ورکنگ وومن پر دوہری ذمہ داریاں گھر کے ساتھ ساتھ کفالت کا بوجھ بھی کندھوں پر ہوتا ہے بچوں کی پرورش اور گھر کی اضافی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ خواتین اکثر اوقات تمام معاشی ذمہ داریاں نبھا رہی ہوتی ہیں تو کافی خواتین کاروبار اور ابان لائن کاروبار کرتی نظر آرہی ہیں آن لائن کاروبار کے حوالے سے ڈیجیٹل لٹریسی کے حوالے سے خواتین میں معلومات کا فقدان ہے.

اور آن لائن کاروبار کے حوالے سے ابھی ان کو اس حد تک رسائی نہیں ہے اگر خواتین کو ڈیجیٹل لٹریسی تک رسائی دی جائے تو چھوٹے کاروبار کے ذریعے ترقی میں شراکت داری میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے اگرچہ پہلے کی نسبت معاشی خودمختاری سیاسی خودمختاری میں خواتین کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے مگر آج بھی خواتین فیکٹریوں دیہاتوں کھیتوں میں بہت کم معاوضہ پر کام کرنے پر مجبور ہیں خواتین گھروں میں بطور ملازمہ بہت کم معاوضے پر کام کرنے پر مجبور ہیں اور ان کی باقاعدہ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے انہیں سوشل سکیورٹی کی سہولت حاصل نہ ہے کسان خاتون کو پورا دن کام کرنے کے باوجود دیہاڑی کم ملتی ہے چارہ کاٹنا جانوروں کی پرورش جو ان کے گھر کی کفالت میں پر اثر انداز ہوتی ہیں وہ ایسے بہت سارے کام کر رہی ہوتی ہیں جو ان کے گھر کی کفالت پر اثر انداز ہوتے ہیں محنت کش خواتین کو زیادہ مسائل کا سامنا ہے.

معاوضہ سکیورٹی مہنگائی کی شرح میں اضافہ سے عورتوں پر معاشی دباؤ کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ بھی شدت اختیار کررہا ہے کام کرنے والی خواتین کی شمولیت اور اہمیت کو تسلیم کیا جائے صرف عورتوں کو نہیں ان کے کاموں کو بھی گننے کی ضرورت ہے اگرچہ پاکستان میں خواتین نےوقت گزرنے کے ساتھ تعلیمی معاشی اور سیاسی اعتبار سے اپنی جگہ بنا لی ہے لیکن یہ تعداد مخصوص اور کم ہیں اب بھی بہتری کی بہت گنجائش ہے دوسری جانب پاکستان کی خواتین ہی خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کے حقوق سے آگاہی معلومات تک رسائی اور مشورہ دلانے میں سرگرم دکھائی دیتی ہیں یہ بہترین کاوش ہےملکی ترقی میں خواتین کا کلیدی کردار ہے مسلسل جدوجہد اور مصائب کا سامنا کرنے کے باوجود سیاسی سماجی معاشی سطح پر خواتین کے لئے مواقع محدود ہیں آج بھی ورکنگ وومن تشدد اور حق تلفی کا شکار ہے.

خواتین کو گھر والوں کی طرف سے تعلیم اور اداروں تک رسائی ملازمت کی سہولت نہیں ملتی جس سے وہ مقام نہ حاصل کر سکتی ہیں اور مساہل کا شکار رہتی ہیں خصوصی طور پر شادی کے بندھن کامیاب نہ ہونے کے صورت میں مسائل کی صورت میں یا بیوہ ہونے کی صورت میں ورکنگ وومن نہ ہونے کی وجہ سے وہ بے شمار مسائل کا شکار رہتی ہیں ورکنگ وومن کو عام طور پر شادی کے بعد تبادلہ نہ ہونے یا متبادل کام نہ ملنے کی وجہ سے بھی صلاحیتیں دب جاتی. ہیں اکثر پرائیویٹ سیکٹر میں دوران زچگی میٹرنٹی لیو جو خاتون کا بنیادی حق ہے نہ ملنے کی وجہ سے کام چھوڑنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اکثر اداروں میں بچوں کے لیے ڈے کیئر سنٹر کے مناسب انتظام نہ ہونے یا سرے سے ہی ڈے کیئر سینٹر نہ ہونے کی وجہ سے مسائل درپیش ہوتے ہیں ورکنگ وومن کو اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کام کو خیر آباد کہنا پڑتا ہے ورکنگ وومن کو .

ٹرانسپورٹ کے حوالے سے مسائل کا سامنا رہتا ہے اگرچہ کچھ خواتین سکوٹی اور موٹر بائیک استعمال کر رہی ہیں اور گاڑیاں چلا رہی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے یقینا بہترین اقدام ہے اس سے خواتین میں ہراسگی کے کیسز میں کمی واقع ہوئی ہے خواتین کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے مگر آج بھی دہیی علاقوں میں خواتین کپاس کی چنائی کے لیے صبح سے شام تک ٹرانسپورٹ پر مردوں پر انحصار کرتی ہیں اور ان کا بہت سارا وقت کا ضیاع ہوتا ہے دوسری جانب حکومت کی طرف سے 15 فیصد کوٹہ خواتین کے لئے سرکاری ملازمتوں میں مختص کیا گیا مگر عملدرآمد میں مسائل ہیں خواتین کی بڑی تعداد بے روزگارہے مختلف محکموں میں خواتین کی سیٹیں خالی پڑی خواتین کو جب سرکاری یا پرائیویٹ ملازمت گھر سے مل رہی ہوتی ہیں تو وہ نہیں کر پاتی جس کی ایک وجہ گورنمنٹ کی طرف سے ورکنگ ویمن ہاسٹل کا فقدان ہے.

اکثر خواتین کام کے دوران بذریعہ فون بھی دھمکیوں کی صورت میں بلیک میل ہوتی ہیں فون یا سوشل میڈیا کے ذریعے بلیک میل ہونے کی صورت میں دھمکیاں ملنے سے یہ خواتین سائبر کرائم کو درخواست دینے کے حوالے سے معلومات نہیں رکھتی اور اکثر خوف سے گھر پر قید ہو کر رہ جاتی ہیں برابری کے لیے ایسے طبقے کو زیادہ مواقع اور زیادہ معلومات کی رسائی کی بنیادی ضرورت ہے اگرچہ سرکاری ملازمت کے لیے خواتین کے لیے ایج ریلیکسیشن کی سہولت بھی ہے مگر خواتین تک معلومات نہ ہونے کی وجہ سے عمر بڑھنے کے ساتھ مایوسی کا شکار ہوکر بے شمار بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں اکثر اوقات کام کرنے والی جگہ پر خواتین کو مردوں کے برابر کام کرنے پر معاوضہ کم دیا جاتا ہے.

اور اس کے ساتھ تشدد اور حراسگی کا شکار ہوتی ہیں اگرچہ عورتوں کی حراسگی سے تحفظ کا قانون 2010 موجود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی محتسب کا دفاتر موجود ہیں اور ہیلپ لائن بھی متعارف کروائی گئی ہیں لڑکیاں اور عورتیں جو کسی بھی جگہ بشمول دفتر کالج یونیورسٹی بینک دوکان کمپنی فیکٹری گھریلو ملازمہ یا بطور مزدور گھر میں اجرت کا کام کریں نرس ڈاکٹر وکیل کسی بھی شعبہ سرکاری یا غیرسرکاری ادارے سے منسلک ہو تعلیم حاصل کر رہی ہو ہراسگی کے خلاف پاکستان میں تحفظ کا حق رکھتی ہے جہاں پر خواتین کام کر رہی ہو وہاں پر انکوائری کمیٹی کا قیام بے حد ضروری ہے.

اور خواتین کسی بھی ہراسگی کی صورت میں خوف سے نوکری چھوڑنے کی بجائے انکوائری کمیٹی کو آگاہ کرنے کا اختیار رکھتی ہے کمیٹی کے قیام کا مقصد خواتین ملک کی ترقی میں بلاخوف اپنا کردار ادا کر سکیں تحفظ نہیں تو سارے قوانین بیکار ہیں کام کرنے والی خواتین کے حقوق کا تحفظ اور اقتصادی ترقی میں ان کے کردار کو اجاگر اور تسلیم کیا جا رہا ہے پہلے رشتہ کرنے کے لیے ورکنگ وومن کا انتخاب معیوب سمجھا جاتا تھا مگر اب تبدیلی آئی ہے پڑھی لکھی اور ووکنگ ویمن یعنی ہنر مند کو فوقیت دی جاتی ہے کام کرنے والی خواتین خاندانی طور پر خطرہ نہیں بلکہ گھر کی عزت ہے اقتصادی ترقی میں خواتین کے حقوق کو اجاگر کر رہی ہیں خواتین کو اعتماد اور پر امن ماحول ملے تو بہتر انداز میں نہ صرف گھر کا نقشہ بدل رہی ہے.

بلکہ ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں عورت ہر مشکل اور خوشی میں گھر والوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہوتی ہے عورت کے کام کرنے سے گھریلو ذمہ داریاں متاثر یا کم نہیں ہوتی بلکہ منظم طریقے سے ہو رہی ہوتی ہیں ورکنگ ویمن پہلے مجبوری تھی اب ضرورت ہے حکومت کو چاہیے کہ ورکنگ ویمن کے لئے مناسب ٹرانسپورٹ کا اجتماعی یا انفرادی طور پر اقدامات کریں قسطوں پر سکیوٹی فراہم کی جائے ٹیکنیکل اداروں میں موبائل ریپئرنگ موٹر سائیکل ریپیرنگ اور الیکٹریشن کے کورس کروائے جائیں ورکنگ وومن ہاسٹل اور ڈے کیئر سنٹر زیادہ سے زیادہ بنائے جائیں جہاں تک ممکن ہوسکی کام کرنے والی ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین کی شکایت کا سرکاری سطح پر جائزہ لیا جائے اور فوری طور پر حل کروائیں جاہے ورکنگ ویمن کو معلومات تک رسائی ہو اور میڈیا بھی مثبت کردار ادا کرے اورکنگ ویمن کی کاوشوں اور مشکلات کو اجاگر کرے ورکنگ ویمن کے لئے بھی ضروری ہے کہ ان کے پاس اپنے شناختی کارڈ تک رسائی یو ہیلپ لائن اور حکومت کی جانب سے قانون سازی اور خواتین سے متعلقہ اداروں کے حوالے سے معلومات ہو اس کے ساتھ پارلیمنٹ میں بیٹھی خواتین سے بھی گزارش ہے کہ وہ ان خواتین کے مسائل کو دیکھتے ہوئے موثر قانون سازی کروائیں