ہوم << عہدِ الست کی قسَم-عبد الرحمٰن السدیس

عہدِ الست کی قسَم-عبد الرحمٰن السدیس

ہمارے ننھیال نے اترپردیش کے علاقہ متھرا سے ہجرت کی۔ 17 افراد شہید ہوئے اور کچھ ہی افراد زندہ پاکستان پہنچے۔ نانا ابو اور دادا ابو سے ہجرت کے واقعات سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے محبت ہماری زندگی کا سب سے اہم احساس ہے۔ بیسویں صدی نیشن اسٹیٹس کی صدی کہلاتی ہے، اس صدی میں کئی ملک زبان، نسل اور جغرافیہ کی وجہ سے دنیا کے نقشہ پر ابھرے۔ 1947 میں آزاد ہونے والے پاکستان کی حیثیت تاہم منفرد ہے۔ اس کی آزادی کی جدوجہد کی وجہ مسلمان قومیت اور اسلام ہے۔ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی جدوجہد کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں نے برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کی، ساتھ ہی رنگ نسل اور جغرافیہ کے لحاظ سے اپنے ہمسایوں یعنی ہندووں اور سکھوں سے بھی علیحدہ ملک حاصل کیا وگرنہ اسلام بطور نظام ہندوستان میں قائم نہیں ہو سکتا تھا گو کہ یہ ابھی بھی نہیں ہو سکا تاہم یہ بات سمجھنا اہم ہے کہ جس بنیاد پر کوئی ملک بنتا ہے اسی بنیادی وجہ میں ہی اسکی بقا ہوتی ہے۔ یعنی اگر پاکستان ہندو اور انگریز سے تنازعہ کی وجہ سے الگ ہوتا تو یہاں جڑوں میں جداگانہ ریاست کی وجہ انہی دونوں سے نفرت بنتی۔ اگر وجہ جغرافیہ ہوتی تو ہم جغرافیہ کے لیے سر دھڑ کی بازی لگاتے، چونکہ ہمارے وطن کے بننے کی وجہ جداگانہ ہے لہذا اسی لیے نظریہ پاکستان ہماری ریڈ لائن ہے۔ سید منور حسن نے بھی خوب فرمایا تھا کہ "جمعیت نظریہ پاکستان کے تحفظ کی تحریک ہے" محبت کر لینے کے بعد اسکی حفاظت ضروری ہے اور یہ جمعیت سے میری محبت کی اہم ترین وجہ ہے کہ میری جمعیت اسی وطن اور اسکے نظریہ سے محبت کرنے والے جوانوں کی تربیت گاہ ہے۔
پاکستان بننے کے فوری بعد پاکستان بھر سے جمع ہونے والے 25 طالبعلموں نے تحریک پاکستان کی دھڑکن کہلائے جانے والے لاہور میں جمع ہو کر اسلامی جمعیت طلبا کے نام سے طلبہ کی تنظیم تشکیل دی۔ ان طلبہ نے یہ طے کیا کہ ہماری زندگیوں کا مقصد اللہ اور اسکے رسول کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق انسانی زندگی کی تعمیر کے ذریعے رضائے الہی کا حصول ہوگا۔ اور اس جدوجہد کا آغاز جمعیت کا پلیٹ فارم ہوگا۔ لہذا 23 دسمبر 1947 سے آج 23 دسمبر 2022 تک جمعیت پاکستان بھر میں اپنے کام میں مصروف ہے۔ اسلامی جمعیت طلبہ جمہوری اور دستوری جدوجہد کو ہی اصلاح کا طریقہ سمجھتی ہے اور روایات سے جڑے رہنے کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتی ہے۔
جنگ عظیم دوئم اور آزادی پاکستان کے بعد بننے والی جمعیت کے سامنے بڑے چیلنجز میں سے ایک یعنی موجودہ دور میں اسلام پر فخر کرنے والے اور اسکے اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے والے لوگوں کی تیاری ہے۔ Capitalism, Marxism, Liberal Humanism, Modernsim, Post Modernism اور اس جیسے کئی دیگر مغربی نظریات نے جہاں آج کے انسان کو doubts کا شکار کیا وہیں جمعیت نے ان سب کا تریاق تیار کیا۔
جمعیت نے دروس قرآن و حدیث ، شب بیداریوں اور زیارت قبور جیسے پروگرامات جو مدارس کے ہاں ہی رائج رہے ہیں تاہم روایت سے جڑے ہیں ان پروگرامات کو یونیورسٹیز اور کالجز میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات میں بھی متعارف کروایا۔ یوں جمعیت نے مغرب اور مشرق کے محاذوں پر بیک وقت ایک بہتر متبادل کے طور پر خود کو پیش کیا۔
جمعیت نے اپنا دستور بھی مرتب کیا اور جمہوری طریق انتخاب کے ذریعے جمہوری رویوں کی نشو و نما کی۔ گالی اور گولی کے کلچر کے بجائے گفتگو کو فروغ دیا اور یوں ہم نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ایک سیاسی اسکول کا درجہ بھی حاصل کیا جس کے کارکنان سیاسی بالیدگی کے حامل ہیں۔ نہ صرف قومی اسمبلی اور سینٹ میں موجود ہیں بلکہ بلدیاتی سطح پر بھی سیاست میں شریک ہو رہے ہیں اور یوں قومی سیاست کے تمام محاذوں پر ہر سال نئی کھیپ پہنچ رہی ہے جو کہ خاندانی جمہوریت، آمریت، اور فسطائیت کی جڑیں پاکستان سے کاٹ رہی ہے۔
2022 میں جہاں دنیا Digital دنیا بن چکی ہے وہیں جمعیت نے بھی اسی دنیا کو سمجھنے میں بھرپور حصہ ڈالا ہے۔ سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز پر بھی جمعیت طلبہ کی سب سے بھرپور آواز کے طور پر موجود ہے۔ جمعیت کی سب سے اہم بات ہر ایک بات سے بڑھ کر یہ ہے کہ یہاں طلبا ہی اپنے طالبعلم ساتھیوں کے لیے سرگرمیاں تشکیل دیتے ہیں۔ سی ایس ایس اور مقابلہ کے دیگر امتحانات کی تیاری کے لیے جمعیت نے جہاں اکیڈمی قائم کی ہے وہیں ملک بھر میں گلی محلوں تک بھی لائبریرز کا جال بچھا دیا ہے تاکہ کوئی بھی تعلیم سے دور نہ رہے۔ یعنی آپ کا تعلق سائنسز سے ہے یا سوشل سائنسز سے، کیمبرج سے یا ہیومینیٹیز سے۔۔ اسلامی جمعیت طلبہ آپکے لیے ہر طرح سے موجود ہے۔
جمعیت کو بنے 75 سال ہونے کو ہیں تاہم اس کا کام ابھی رکا نہیں ہے، گو 75 سالہ ہے تاہم نوجوان تنظیم ہے کیونکہ ہر سال نئے طلبہ اس میں شامل ہوجاتے ہیں، اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اسکی ذمہ داری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ کووڈ 19 کے بعد کا پاکستان جہاں معاشی بحران کی حالیہ کیفیت کا سامنا ہے تاہم جمعیت اسکا تدارک بھی کر رہی ہے اور نوجوانوں کے لیے کاروبار اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کر رہی ہے کیونکہ مشکل میں پھنسے ہم وطنوں کی مدد جیسے جمعیت پہلے کرتی رہی ہے یہی معاملہ اسے آج پھر درپیش ہے۔ سیلابی ریلوں کے ساتھ ساتھ Post Modernism اور Queer Theory کی وجہ سے بننے والے معاشرتی ہیجان کا بھی جمعیت کو سامنا ہے، خوش آئند بات یہ ہے کہ ناظم اعلی سے نئے بننے والے کارکن تک سبھی فعالیت سے اپنے کام میں مصروف ہیں۔ جمعیت اتنا کچھ کر رہی ہے تاہم اسکے کارکن کو کسی ستائش کی تمنا ہے نہ کوئی اور لالچ۔ یہ بس رضائے الہی کے لیے ایسے ایسے کام کیے جا رہے ہیں کہ آپ نہ انکو محض فلاحی تنظیم کہ سکتے ہیں نہ تدریسی ادارہ۔۔ یہ ایک کل ہے جس کے کچھ جزیات کو میں تحریر کر سکا ہوں۔ یہ ایک چمن ہے جس کا ایک جزو میں بھی ہوں۔۔ اور میری جمعیت میرے پاکستان کے ان اہم اثاثوں میں سے ہے جس پر ہم سب فخر کرتے ہیں.