ہوم << بڑھاپے کا عشق - حمیراعلیم

بڑھاپے کا عشق - حمیراعلیم

امی!ابا!آپ پلیز باجی کو سمجھائیے نا۔وہ ایسا کیوں کر رہی ہیں؟ " ڈاکٹر شاہد نے والدین سے درخواست کی۔مسز ماجد بولیں ۔ " بیٹا !میں نے کل کال کی تھی اسے پر وہ تو کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں ہے۔"

" پر امی کوئی تو ہو گا جو انہیں سمجھا سکے۔" کرنل صاحب کے چھوٹے بیٹے احد نے کہا۔ریٹائرڈ کرنل ماجد کے دس بچے تھے۔سب سے بڑی دو بیٹیاں کینیڈا اور انگلینڈ میں رہائش پذیر تھیں ۔ایک بیٹا سعودیہ میں تھا۔اسکے بعد دو بیٹے اور ایک بیٹی سی ایم ایچ میں ڈاکٹر کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ایک بیٹا اور بہو ڈاکٹر تھے جو انکے ساتھ ہی رہتے تھے۔دو بیٹے آرمی میں بطور کرنل کام کر رہے تھے۔اور ایک بیٹا اپنا بزنس کرتا تھا۔کرنل صاحب نے ریٹائرمنٹ کے بعد لاہور میں ہی ایک کنال کے پلاٹ پر ڈبل اسٹوری کوٹھی بنوائی۔جس میں اوپر خود رہ رہے تھے اور نیچے کے پورشن میں بہو بیٹا رہائش پذیر تھے ایک کمرے میں ان نے دونوں کلینک بنا رکھا تھا ۔ساتھ والے دو کنال کے پلاٹ پر انہوں نے 4 سہ منزلہ گھر بنائے تھے تاکہ جو بھی بچہ ان کیساتھ رہنا چاہے وہاں مقیم ہو جائے۔جو بچے آرمی میں تھے وہ تو مختلف جگہوں پہ تعینات ہوتے رہتے تھے۔چھٹیوں میں سب اکھٹے ہوتے تو انہی گھروں میں قیام کرتے۔

ساجد جو بزنس مین تھا وہ بھی انہی میں سے ایک گھر میں مقیم تھا۔اور خرم بھی سعودیہ سے واپس آکر دوسرے یونٹ میں رہ رہا تھا۔ان چاروں گھروں کو دوسری منزل پر ایک برج کے ذریعے والدین کے گھر سے جوڑ دیا گیا تھا تاکہ آمدورفت میں آسانی رہے۔سب لوگ اپنے گھروں میں کھانا بناتے لیکن کھایا کرنل صاحب کے ہاں ہی جاتا تھا۔کرنل ماجد اور انکی بیگم نہایت سمجھدار اور شستہ مزاج تھے۔اپنی سمجھداری کی بدولت ہی انہوں نے نہ صرف ساری اولاد کی تربیت بہت اچھی کی تھی بلکہ آجکل کے اس دور میں انہوں نے سب بہن بھائیوں میں اتفاق بھی برقرار رکھا تھا۔خوشی اور غم میں سب اکٹھے ہوتے تھے۔

آج کی میٹنگ میں کچھ لوگ تو کرنل صاحب کے گھر پر موجود تھے۔دوسرے شہر اور ممالک میں مقیم باقی بچے اسکائپ کے ذریعے کانفرنس کال پہ موجود تھے۔اور بات ہو رہی تھی کرنل صاحب کی سب سے بڑی صاحبزادی سائرہ کی۔جس کی شادی کم عمری میں ہی کر دی گئی تھی۔اور پچھلے 35 سال سے وہ انگلینڈ میں مقیم تھی۔اس کے دو بیٹے اور بیٹی شادی شدہ اور بچوں والے تھے۔شوہر بزنس مین تھے اور اچھے صاحب حثیت شخص تھے۔زندگی کی ہر آسائش انہیں میسر تھی۔ " مجھے تو سمجھ نہیں آتی باجی کو ہو کیا گیا ہے۔" ساجد نے سوال کیاتو اسکائپ پر موجود سائرہ کی بیٹی بولی۔

" بس ماموں ہماری قسمت ہی خراب ہے۔اچھے خاصے مما پاپا رہ رہے تھے۔ہم۔نے کبھی گھر میں جھگڑا ہوتے نہیں دیکھا مگر اب مما کا کہنا ہے کہ پاپا سے انکی کبھی بنی ہی نہیں ۔وہ ان کیساتھ کبھی خوش ہی نہیں رہیں۔"

" اگر ایسی بات تھی تو باجی نے کبھی ہم سے بات کیوں نہیں کی۔ہم تو جب بھی انگلینڈ گئے فہد بھائی نے باجی سے بڑھ کر ہمارا خیال رکھا اور تو اور روزانہ جب آفس جاتے تھے تو بچوں کیساتھ ساتھ ہم بڑوں کو بھی پاکٹ منی دیتے تھے۔ہمارے منع کرنے پر کہتے" بھئی میرے لئے تو تم لوگ بچے ہی ہو۔" گھمانا پھرانا، کمپنی دینا کبھی کسی چیز میں کبھی شکایگ کا موقعہ نہیں دیا انہوں نے ۔کبھی ایسی کوئی چیز ہمیں تو نظر نہ آئی کہ باجی کو انہوں نے کوئی تکلیف دی ہو۔اور نہ ہی باجی نے کوئی گلہ شکوہ کیا۔" شاہد بولے۔
" بالکل ! باجی اپنی مرضی کی مالک تھیں فہد بھائی نے کبھی نہ تو کوئی روک ٹوک کی نہ ہی پیسے کی تنگی کی۔جتنا اور جب چاہا بنا سوال کیے انکے ہاتھ پہ رکھ دیا اور پلٹ کے پوچھا تک نہیں کہ کیا کیا ان پیسوں کا۔بچے بھی ماشاءاللہ سب بڑے اچھے ہیں ۔پھر ایسا کیا ہوا یکدم کہ باجی کو فہد بھائی سے شکایات پیدا ہو گئیں ۔" مسز شاہد بولیں ۔

" اور کچھ نہیں دماغ خراب ہو گیا ہے اس کا۔" مسز ماجد نے تلخی سے کہا۔

" اب کوئی عمر ہے اسکی یہ سب کرنے کی۔غضب خدا کا 55 سال کی عمر میں اسے عشق ہو گیا ہے۔"

"کیا۔۔۔۔۔؟" سب نے بیک زبان کہا۔

" کچھ عرصے سے مما نے اپنے آپ پر زیادہ ہی توجہ دینی شروع کر دی تھی۔جو کام کبھی جوانی میں نہیں کئے وہ اب کرنے لگی تھیں ۔پارلر جانا، ہیر کٹنگ، فیشل، پیڈی کیور مینی کیور۔جدید فیشن کے کپڑے جوتے، پرفیومز جیولری کا استعمال ۔ہم تو مما سے مذاق کرتے تھے۔لگتا ہے اب آپ بچوں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو کر اپنے آپ پر توجہ دینے لگی ہیں کہیں پاپا کیساتھ سیکنڈ ہنی مون کا پروگرام تو نہیں بنا رہی ہیں ۔" سائرہ کی دوسری بیٹی نے کہا۔

" اور تو اور مما نے جینز اور ٹاپ بھی پہننا شروع کر دیا تھا۔ہمیں کیا پتہ تھا وہ کسی کی فرمائش پر یہ سب کر رہی ہیں۔"

" کوئی ڈیڑھ سال پہلے تمہارے ابا کے کزن اکرم، جو انگلینڈ میں سائرہ کے گھر کے قریب ہی کہیں رہتے تھے، سائرہ کو مارکیٹ میں نظر آئے۔خاصے بیمار لگ رہے تھے۔سائرہ نے ذکر کیا تو میں نے اسے کہا کہ چچا کا خیال رکھنا ۔سائرہ ان سے ملنے گئی تو معلوم ہوا بیچارے اپنے بیٹے کیساتھ رہ رہے ہیں ۔بیٹا سائرہ سے کوئی سال دو سال بڑا ہے اور اس کا ایک بیٹا شادی شدہ ہے۔بیوی کا کچھ سال پہلے انتقال ہو چکا ہے۔اب دونوں باپ بیٹا اکھٹے رہ رہے ہیں ۔سائرہ ویک اینڈ پہ کچھ کھانے پکا کر لیجاتی اور کچھ وقت ان کے ہاں گزارتی تھی۔مجھے کیا پتہ تھا نیکی گلے پڑ جائے گی۔" مسز ماجد جھنجھلا کر بولیں۔

" نجانے کب دونوں کو یہ عشق کا خبط ہو گیا۔ایاز کی بیوی تو مر چکی ہے اس لئے اسے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ۔جبکہ سائرہ کو فہد سے طلاق لینی ہے۔اسی لئے اس پر بیجا الزامات لگا رہی ہے ۔حقیقت تو یہ ہے فہد نے اسے کسی ملکہ کیطرح رکھا ہے ساری زندگی۔"

" ہائے نانو!ہم سب اپنے سسرال والوں کو کیا جواب دیں گے؟" سائرہ کے بیٹے نے تاسف سے کہا ۔

" بس بچے کیا کریں میں تو سمجھا سمجھا کہ تھک گئی ہوں ۔وہ کسی کی سنے بھی تو نا۔" مسز ماجد نے بے بسی سے کہا۔

" ابا !آپ کیوں نہیں بات کرتے ان سے؟ " انکی بیٹی نے کہا۔

" بیٹا! وہ بچی نہیں ہے کہ کوئی اسے سمجھائے۔55 سالہ عورت پے جو نانی دادی بھی ہے۔کوئی بچہ ہو تو زور زبردستی کرے بھی۔وہ اپنا فیصلہ کر چکی ہے۔اسے اب کسی کی بات سمجھ نہیں آئے گی۔اس لئے کوئی فائدہ نہیں اس سب کا۔جو رسوائی ہمارے مقدر میں لکھ دی گئی ہے اسے تو برداشت کرنا ہی ہو گا۔" کرنل ماجد نے سر جھکا کر کہا۔

" لوگ ہمارے خاندان پر رشک کرتے تھے۔انہیں کیا پتہ کہ ان شاندار گھروں کے اندر کیا کیا مسائل ہیں ۔" انکی بہو نے کہا۔

" اب کہاں ہے تمہاری ماں؟" کرنل صاحب نے سائرہ کے بیٹے سے سوال کیا۔

" کونسل کیطرف سے ملے ہوئے گھر میں رہ رہی ہیں ۔کیونکہ وہ پاپا کو طلاق بھیج چکی ہیں ۔پاپا ہی کے کہنے پر ہم نے آپکو کال کی تھی ناناابا۔" سائرہ کے بیٹے نے کہا۔

" ہمممم! فہد سے میں خود بات کر لونگا۔تم لوگ پریشان مت ہو۔باتیں تو بہت بنیں گئیں مگر کیا ہو سکتا ہے۔تم لوگوں کو ہمت و حوصلے سے کام لینا ہو گا۔" کرنل صاحب نے سب کو مخاطب کر کے کہا۔

" نانا ابا! باہر کے لوگوں کو تو پھر جھیل ہی لیں گے اپنے بچوں کو کیا جواب دیں ؟ " سائرہ کی بیٹی نے کہا ۔سب سے بڑی ہونے کے ناطے وہ کچھ زیادہ ہی حساس تھی۔اس کے بچوں کی عمریں 14-15 سال کی تھیں اور وہ نانی کے بارے میں طرح طرح کے سوال کر رہے تھے۔

" بیٹا ! جب تمہاری ماں نے ہم سب کا نہیں سوچا تو ہمیں بھی کوئی ضرورت نہیں اس کا پردہ رکھنے کی۔جو بھی پوچھے صاف جواب دے دو کہ اس سے ہمارا کوئی تعلق واسطہ نہیں ۔رہے اپنی زندگی میں خوش۔" مسز ماجد نے غصے سے کہا۔یوں یہ میٹنگ ختم ہو گئی ۔اسکائپ کال ختم کر کے گھر میں موجود بچے بھی اپنے گھروں کو چلے گئے۔اور دوبارہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی گئی۔کچھ عرصہ تو لوگوں نے باتیں کیں پھر سب بھول بھال گئے۔دو سال بعد سائرہ کی بیٹی نانا نانی سے بات کر رہی تھی کہ

اچانک بولی۔ " آئی ہیو آ نیوز فار یو۔" " کیا تمہارے میاں کی پرموشن ہو گئی ہے؟" نانی نے پوچھا ۔ " نہیں نانو! مارکیٹ میں میں نے مما کو دیکھا تھا۔میں تو پہچان ہی نہ سکی۔اتنی بوڑھی اور کمزور ہو گئی ہیں ۔"

" تمہیں کیا ضرورت تھی اس سے ملنے کی؟" نانو نے غصے سے کہا۔" میں تھوڑی ہی ملی تھی وہ خود ہی میرے بچوں کے پاس آ گئی تھیں ۔تو مجبورا حال احوال پوچھنا پڑا۔" عائلہ نے وضاحت دی۔" پتہ ہے نانو مما کیساتھ بہت برا ہوا۔ایاز انکل کیساتھ شادی کیلئے انہوں نے پاپا سے طلاق لی۔اپنا اچھا خاصا گھر بار چھوڑ کر کونسل کے گھر میں رہیں عدت کے دوران انکے پاس پیسے بھی نہیں ہوتے تھے۔ انکل نے ان سے شادی تو کر لی مگر شک کرتے رہے کہ جو عورت بڑھاپے میں اپنے شوہر اور بچوں کو کسی مرد کیلئے چھوڑ سکتی ہے وہ مجھے بھی دھوکہ دے سکتی ہے۔

اور شادی کے ایک سال بعد ہی انکا انتقال ہو گیا۔اب مما پھر سے کونسل کے دئیے پیسوں پر گزارا کر رہی ہیں ۔بیچاری بہت ہی برے حالات میں رہ رہی ہیں ۔" عائلہ آخر کو بیٹی تھی ماں کی حالت دیکھ کر دکھی تھی۔

" ہنہ!جیسی کرنی ویسی بھرنی۔کیا کیا نہیں سننا پڑا اس کی وجہ سے ہم سب کو۔سب کا دل دکھا کر سکھی تھوڑے ہی رہ سکتی تھی وہ۔اور خبردار جو تم بہن بھائیوں نے اس سے ملنے کی کوشش بھی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا سمجھیں ۔" نانو نے اسے سختی سے تاکید کی۔کال ڈراپ کر کے مسز ماجد نے افسوس سے سوچا " کاش !تم اس وقت عقل سے کام لیتیں تو آج یوں تنہا اور مصیبت زدہ نہ ہوتیں ۔"

Comments

Click here to post a comment