ہوم << داستانِ حج 1440 ھ قسط (20) - شاہ فیصل ناصرؔ

داستانِ حج 1440 ھ قسط (20) - شاہ فیصل ناصرؔ

طائف کی سیر اور میقات وادی مَحرِم سے عمرہ:تاریخی مقامات کی زیارت میں ہماری اگلی منزل طائف تھا، جہاں کی سیر کے بعد، میقات وادی مَحرِم (قرن المنازل) سے عمرہ بھی کیا۔

طائف سعودی عرب کا خوبصورت شہر اور صحت افزا مقام ہے۔ خوشگوار موسم، سبزہ اور خوبصورت پہاڑوں کی قدرتی حسن کیساتھ سعودی حکومت نے اس کو مزید حسین بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے۔“ھَدٰی” کی بلند پہاڑوں میں الیکٹرانک جھولے، آرام دہ کشادہ سڑکیں، شاندار ہوٹلز، سیروتفریح کے مقامات اور دور جدید کی ہر قسم سہولیات فراہم کی ہیں۔ اس قدرتی اور مصنوعی حسن نے طائف کو ایک پکنک سپاٹ کا درجہ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب کے موجودہ لبرلز، مغرب پرست حکمران یہاں اب میوزک کنسرٹ منعقد کررہے ہیں۔ لیکن دنیا بھر سے آئے ہوئے ہزاروں لوگ ان سہولیات، باغات اور جدید عمارات کے دیکھنے کیلئے نہیں جاتے ہیں، بلکہ وہاں موجود چند پرانے مقامات کی زیارت کرنے کیلئے جاتے ہیں، جو ہمارے پیارے نبی محمدالرسول اللہ ﷺ اور آپﷺ کی جان نثار ساتھیوں کے آثار ہیں۔

نبی کریم ﷺ نبوت کی دسویں سال ( عام الحزن ) کو ابوطالب اور خدیجةالكبرٰىؓ کی وفات کے بعد ایک دعوتی مہم پر اپنے جان نثار صحابی زیدؓ بن حارثہ کے ساتھ طائف گئے۔ لیکن توقع کے برخلاف وہاں کے سرداروں نے بہت ہی مایوس کن جواب دیا۔ اور اپنے اوباش لڑکوں کو آپﷺ کے پیچھے لگایا،جنہوں نے آپﷺ اور زید ؓ کو لہولہان کیا۔ لیکن آپﷺ نے ان کیلئے ہلاکت کی بجائے ھدایت کی دعا کی۔ یہ واقعہ سیرت کی کتابوں میں تفصیلا لکھی ہوئی ہے۔طائف جانے کیلئے ہم نے رات سے مشورہ کیا، اور صبح اپنے ساتھ احرام لیکر نماز فجر کیلئے حرم گئے۔ نماز کے بعد ہم مسجدجن کی طرف نکل گئے، اور مکہ میں مقیم ماموند باجوڑ کے ایک ڈرائیور شیرزمین کیساتھ رابطہ کیا۔ وہ چند لمحے بعد اپنی جیپ کیساتھ حاضر ہوا، اور ہم نو ساتھی اس کے ساتھ سوار ہوکر تقریبا سات بجے روانہ ہوئے۔

گاڑی حرم کی نیچے سے گزر کر ٹنل کی ذریعے منٰی میں داخل ہوئی۔ منٰی کے خیموں پر نظر پڑتے ہی حج کی ایام یاد آگئے۔ لیکن اب یہاں وہ چہل پہل اور رونق نہیں تھا بلکہ خاموشی اور ویرانی چھائی ہوئی تھی۔ ہماری گاڑی منٰی کے درمیان سے گزر کر مزدلفہ میں داخل ہوئی اور عرفات کو بائیں طرف چھوڑ کر طائف کی سڑک پر روانہ ہوئی۔ رفتہ رفتہ ہم مکہ سے دور اور سامنے پہاڑوں کے قریب ہوتے جاتے۔ تقریبا آدھ گھنٹہ سفر کی بعد “ھَدیٰ” پہاڑی کی چڑھائی شروع ہوئی۔سڑک کشادہ اورہموار ہونے کی وجہ سے گاڑی کی رفتار میں کوئی تبدیلی محسوس نہ ہوئی۔ پہاڑ کی چوٹی سے نیچے تک بڑے بڑے اونچے کھمبوں پر الیکٹرانک جھولے اوپر نیچے آتے جاتے دیکھائی دیئے جاتے۔ اوپر جاکر ایک جگہ ہم نے گاڑی روک لی جہاں بندروں کا ایک خاندان سب کچھ سے بے پرواہ ہوکر اپنے بچوں سمیت کھیل کود میں مصروف تھا۔

مکہ مکرمہ اور اس کی گرد و نواح بہت نیچے دیکھائی دے رہےتھے۔ طائف پہاڑوں کے اوپر وسیع و عریض ، زرخیز اور ہموار علاقہ ہے۔ ایک جگہ پٹرول پمپ میں رک کر گاڑی میں تیل ڈلوایا اور ساتھیوں نے واش رومز اٹینڈ کیا۔ ڈرائیور نے بقالے سے ٹھنڈی جوس سے ہماری تواضع کی۔ آگے سڑک کی دونوں طرف مختلف ڈیزائنز کے رنگا رنگ ہوٹلز اور عمارات تھے، جو آبادی کیساتھ ثقافتی اظہار کا ذریعہ بھی تھا۔ہماری پہلی منزل، مشہور صحابی،آپﷺ کے چچازاد، ترجمان القرآن عبداللہ بن عباس ؓ کی مسجد تھی، جو شہر کی بالائی حصہ میں واقع ہے ۔ مسجد سے باہر سڑک پر ایک خوبصورت دروازہ ”باب عبداللہؓ بن عباسؓ ” بنایا گیا ہے۔ جس کے ساتھ ایک بڑا کار پارکنگ ہے۔ ہم نے گاڑی پارک کرکے مسجد کی طرف بڑھے، وضو بناکر تحیة المسجد ادا کی۔

بہت وسیع اور خوبصورت مسجد ہے، جس کے ساتھ ایک مکتبہ بھی تھا۔ وہاں ڈیوٹی پر موجود ایک عالم سے میں نے اس مسجد کی وجہ تسمیہ پوچھا، اس نے جواب میں کہا کہ یہاں عبداللہ بن عباس ؓ نے اپنی زندگی کے آخری ایام گزارے اور یہی فوت ہوئے۔ یہاں سے نکل کر ہم آگے ایک پرانی مسجد کے ساتھ رک گئے، جس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں رسول اللہ ﷺ نے زخمی ہونے کے بعد پناہ لیکر استراحت کیاتھا اور دعاء مستضعفین مانگا تھا۔ مسجد کی آبادی پرانی تھی، لیکن اتنی زیادہ نہیں، پھر بھی دل کو اطمنان بخشتی۔ آگے اسی روڈ پر ایک دوسری پرانی مسجد تھی، جس کے اوپر ایک بڑی منار بنی ہوئی تھی۔ اس کا نام مسجد کوع ہے۔ کوع کہنی کو کہتے ہیں۔ کہا جاتاہے کہ اس جگہ آپﷺ نےکہنی لگاکر آرام کیا تھا۔ یہاں سے ہم واپس مڑ کر شہر سے گزرتے ہوئے میقات وادی مَحرِم آئے۔

طائف سے حج و عمرہ کیلئے جانے والے لوگ یہاں سے احرام باندھتے ہیں۔ ایک بڑی خوبصورت مسجد اور کافی تعداد میں غسل خانے یہاں بنائے گئے ہیں۔ ہم نے غسل کرکے احرام باندھ لئے اور مسجد میں نوافل ادا کرکے عمرہ کی نیت کرلی۔ تقریبا 10:20 بجے ہم نے طائف سے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ایک گھنٹہ بعد مكةألمكرمه بيت ألله ألحرام پہنچ گئے۔

سورج سوا نیزہ پر تھا اور گرمی 50 کی ڈگری تک پہنچ چکی تھی ۔ ہم نے وضو بناکر سفر اور گرمی کا اثر کم کیا۔ ہماری کوشش تھی کہ ظہر تک عمرہ مکمل کریں، لیکن گرمی اور رش کی وجہ سے نماز تک صرف طواف سے فارغ ہوئے اور سعی نماز کے بعد کی۔ عمرہ مکمل کرکے ہم 3 بجے اپنے ہوٹل واپس ہوئے۔ کھانا کھاکر حلق اور غسل کرکے کپڑے پہن لئے اور نماز عصر ادا کرکے آرام کیا۔ اسی دن کی بقیہ نمازیں محلے کی مسجد میں ادا کیں۔

جمعة المباركه ٢٢ ذى الحج ١٤٤٠ھ۔ بمطابق 23 اگست 2019ء

معمول کے مطابق حرم گئے اور ناشتہ کیلئے واپس ہوٹل آئے۔ کچھ آرام کے بعد غسل کرکے نماز جمعه کیلئے تیاری کی اور حرم روانہ ہوئے۔ لیکن وہاں پہنچتے ہی حرم اندر سے بھر گیا تھا اور دروازے بند ہوئے تھے۔ باہر بھی مناسب جگہ نہیں مل رہی تھی۔ اوپر سورج آگ برسا رہی تھی۔ آخرکار حرم کے نئی ایکسٹینشن میں ایک دروازے کیساتھ سایہ دار جگہ مل گئی جہاں ڈیرہ ڈال کر خطبہ سن لیا اور نماز جمعہ ادا کی۔عصر کے بعد مکتبہ حرم میں مطالعہ کیلئے گیا۔ وہاں حاجی عبدالودود ملا۔ نماز مغرب اوپر چھت پر اس جگہ ادا کی، جہاں مکی صاحب درس دے رہے تھے۔ نماز کی بعد درس سن لیا، جس کا موضوع تھا ،“ شان مصطفیﷺ” عشاء کے بعد بلڈنگ واپس ہوئے ۔

ہفتہ ٢٣ ذى الحج ١٤٤٠ھ۔ بمطابق 24 اگست 2019ء

فجر سے قبل حرم پہنچ گئے۔ نماز فجر اور اشراق کے بعد طواف کیا۔ میں چچا حمداللہ اور حاجی یاسین تقریبا نو بجے ہوٹل واپس پہنچ گئے ۔ ناشتہ کے بعد آرام کیا۔ نمازظهر محلے کی مسجد میں ادا کرکے کھانا کھانے کی بعد نماز عصر کیلئے حرم پہنچ گئے۔ مطاف میں انڈیا مہاراشٹر کے جیلانی خاں صاحب سے ملے انہوں نے انڈین مسلمانوں کا دکھڑا سنایا، خودبھی روئے اور ہمیں بھی رلایا۔

مغرب سے پہلے طواف شروع کیا اور نماز تک مکمل کیا۔ نماز مغرب کے بعد زم زم بھرنے کیلئے مکتبةمکه مکرمه کے پاس زم زم ٹینکی گئے۔ عشاء دوسری چھت میں باب ملک عبدالعزیز کے پاس ادا کی۔ اور پھر بلڈنگ واپس ہوئے ۔