ہوم << طلاق کا بڑھتا رحجان - سحر فاروق

طلاق کا بڑھتا رحجان - سحر فاروق

سحر فاروق ایک اخبار میں سٹی کورٹ کی تصویر کے ساتھ یہ کیپشن درج دیکھا کہ سٹی کورٹ میں طلاق کے رجسٹرڈ کیسسز کی تعداد دس ہزار تک پہنچ گئی ہے، یہ پڑھ کر دل پر منوں وزنی بوجھ محسوس ہوا کہ اف خدایا یہ ہمارا معاشرہ کس نہج پر گامزن ہوگیا ہے کہ خدا کو مبغوض ترین فعل کے ہم کتنی دیدہ دلیری سے مرتکب ہو رہے ہیں۔ پھر ٹی وی پر دکھائے جانے والے بچوں کی ماں یا باپ کو حوالگی کے مناظر بھی ذہن میں گردش کرنے لگے اور دکھ کی ایک لہر نے گویا جکڑ لیا کہ خاندانی نظام کا واحد حصار بچا ہے جس کے ہم اپنے ناعاقبت اندیش فیصلوں کے سبب خود ہی دشمن بن رہے ہیں۔
کسی ایک فریق کو ذمہ دار قرار دینا عقل مندی کا تقاضا نہیں ہو سکتا، پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو نتائج اتنے بھیانک سامنے آرہے ہیں؟ ایک جوڑے نے مختلف العقیدہ ہونے کے باوجود محبت کے جذبے سے سرشار ہو کر شادی کی۔ دو سال اچھے گزرے اور اب اولادکے عقائد اور ان کی مذہبی تربیت کی وجہ سے بات علیحدگی تک جا پہنچی ہے کیونکہ ماں اور باپ دونوں ہی بچے کواپنے عقیدے کا پیروکار بنانا چاہتے ہیں۔ مستقبل میں ممکنہ طور پر پیش آنے والا یہ سنجیدہ مسئلہ اس قابل تھا کہ سوچ بچار اور کسی نتیجے پر پہنچ کر ہی شادی جیسے مقدس بندھن کا آغاز کیا جاتا لیکن محض جذبات کی رو میں بہہ کر کیا جانے والافیصلہ ایک خاندان ٹوٹنے پر منتج ہوا.
اگر ہم اپنا جائزہ لیں، اپنے رویوں کو پرکھیں، کسی وقت کسی رسالے میں پڑھی گئی لو اسٹوری کو اپنے ذہن کے پردوں میں پھر سے فرض کریں، جذبات، احساسات اور رومان کی چاشنی کا تڑکہ بھی لگا لیں کہ کس ایک متوسط خاندان کا چشم و چراغ اپنی سفید پوشی کے بھرم کے ساتھ پڑھائی اور خاندان کی کفالت کو جاری رکھتے ہوئے کسی پری وش پر دل ہار بیٹھتاہے، اپنے محسوسات کی ترسیل کا مناسب انتظام کرتا ہے اور بات بہت آگے بڑھ جاتی ہے. خیر خواہ اور ہمدرد دونوں کو معاشرتی حیثیت کا فرق سمجھاتے ہیں، آئندہ پیش آنے والے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں لیکن اثر نہیں ہوتا، الٹا سمجھانے والے ظالم سماج ٹھہرتے ہیں. ہم میں سے اکثریت اس فرضی کہانی میں بھی چاہتی ہے کہ اختتام اچھا ہو اور دونوں کسی طرح مل جائیں. اگر پوچھیں کیوں؟ جواب ملے گا’’ کیونکہ محبت ہے دونوں کے درمیان‘‘. یہی سوچ اور حقائق سے دانستہ نظریں چراتی فکر ہمارا المیہ بن چکی ہے اور معذرت کے ساتھ اگر یہاں دکھایا جاتا کہ دونوں نے خاندان سے کٹ کر بھی اپنی محبت کو پا لیا تو ایک تعداد اس کو بھی سراہنے کے لیے موجود ہوگی. ایسا اس لیے ہے کہ ہم نے’جز‘ کو ’کل‘ سمجھ لیا ہے۔ محبت جیسے سچے اور پاکیزہ احساس سے انکار نہیں لیکن یہ ’’مکمل زندگی‘‘ نہیں، زندگی کا ایک ’جز‘ ہے، اور جہاں کسی ایک شے یا جزبے کے پیچھے پوری زندگی تج دینے کا فیصلہ کیا جائے گا، بگاڑ یہیں جنم لے گا۔
اصل اور حقیقی زندگی اس جملے کے بعد شروع ہوتی ہے کہ’’پھرشہزادہ اور شہزادی ہنسی خوشی زندگی بسر کرنے لگے‘‘. ہمارا ٹی وی، فلم، ڈرامہ ہو یا رسالہ جات، محبت کو پا لینا ہی کامیابی دکھاتے ہیں، مگر جب کسی جمیلہ و مہرالنساء پر زندگی اپنی تمام تر تلخیوں کے ساتھ آشکار ہوتی ہے تو وہ محبت جس کے لیے وہ سب قربان کر آئی تھی، بےوقوفی لگتی ہے. اسی طرح وہ راشد ماجد اپنے مسائل سے بےحال بکھرے بالوں کے ساتھ محبوبائوں کو دیکھ کر منٹ نہیں لگاتے اپنی محبت کا خمار اتارنے میں. وہ تمام فرق جنہیں وہ جان بوجھ کر نظر انداز کر آئے تھے، اہم لگنے لگتے ہیں، نتیجہ علیحدگی۔ بس اتنی سی کہانی ہے۔
یہ جذبہ اتنا سستا نہیں ہے جتنا کہ ہم نے بنا دیا ہے. محبت کریں اور کروائیں اس وقت جب نبھا سکنے کا ظرف ہو۔ فرق چاہے ذات برادری کا ہو، معاشی حیثیت کا ہو یا کوئی اور مٹایا جا سکتا ہے لیکن اس صورت میں جب برداشت کا عنصر موجود ہو لیکن بدنصیب اور بد قسمت معاشرہ ہمارے ہاتھوں ہی عدم برداشت کا شکار ہے، آپ بھی اسی کا حصہ ہیں آپ بھی نہیں کرتے برداشت تو مزید بگاڑ کا سامان بھی نہ کریں. اس بے رحم معاشرے کے ہاتھوں میں broken family کے حساس بچوں کی تعداد نہ بڑھائیں. بات بہت دور جا نکلے گی. ابھی سے سنبھال لیجیے